Tuesday, April 1, 2014

سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر۔۔۔۔۔ پانچواں سفر​

پانچواں سفر
میری ایک عادت ہے کہ میں خوشیوں کو تو یاد رکھتا ہوں، دکھوں کو بھول جاتا ہوں۔ ایک دن میں بصرہ گیا۔ دیکھا کہ ایک نیا جہاز بن رہا ہے۔ مجھے وہ جہاز بہت پسند آیا۔ میں نے اسے خرید لیا۔ جلد ہی کئی تاجر بھی مل گئے اور ہم بحری سفر کو روانہ ہو گئے۔ ملک ملک، شہر شہر، بندرگاہ بندرگاہ ہم سفر کرتے گئے۔ ہر جگہ کچھ مال بیچا، کچھ خریدا، کئی نئے مقامات دیکھے۔ کئی نئی باتیں معلوم ہوئیں۔
ایک سن ہم ایک جزیرے میں پہنچے۔ جزیرہ خاصا بڑا تھا، لیکن نہ تو س میں کوئی آدمی نظر آیا اور نہ درخت اور ندیاں نظر آئیں۔ دوسرے تاجر جہاز سے اتر کر ساحل پر چہل قدمی کرنے گئے۔ انہیں ایک گنبد نما چیز نظر آئی جو سفید تھی۔ میں نے انہیں منع کیا، "اسے ہاتھ نہ لگانا۔ یہ رخ پرندے کا انڈا ہے، جلدی سے جہاز میں سوار ہو جاؤ۔"
یا تو انہوں نے میری بات نہیں سنی یا انہیں میری بات پر یقین نہیں آیا پتھر سے انہوں نے اس انڈے کے ایک طرف بڑا سوراخ کر دیا۔ اندر سے آواز سی آئی۔ شاید رخ کا بچّہ مر رہا تھا۔ اس آواز کا جواب دور آسمان سے سنائی دیا۔ دو بڑے بڑے رخ جو اس بچے کے ماں باپ تھے آئے۔ ان کے پر اتنے بڑے تھے کہ نیچے زمین پر اندھیرا چھا گیا۔

جہاز بھی گیا
میں نے یہ سمجھا کہ یہ بڑے رخ ہمیں مار ڈالیں گے، لیکن وہ اڑ کر کہیں چلے گئے۔ میں نے لوگوں سے کہا، "دوستو!جلدی کرو۔ ہمیں فوراً جہاز لے جانا چاہیے۔ تاجر، ملاح جو اب بھی کنارے پر تھے سب جہاز میں سوار ہو گئے۔ کپتان نے جہاز کو کھلے سمندر میں لے جانے کی کوشش کی۔ اتنے میں دونوں رخ ہمارے طرف آتے دکھائی دیے۔ دونوں نے ایک ایک پتھر اٹھا رکھا تھا اور ہر پتھر ایک چھوٹے مکان کے برابر تھا۔
پہلا رخ ہمارے اوپر سے گزرا اور اس نے پتھر ہم پر گرایا۔ کپتان نے بڑی ہوشیاری سے جہاز کو ایک طرف کاٹا اور ہم بچ گئے۔ پتھر سمندر پر گرا۔ پانی گزوں اوپر اچھلا۔ جہاز بے قابو ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کپتان ہمیں دوسرے پتھر سے نہ بچا سکا۔ وہ جہاز پر گرا اور جہاز بھی گیا۔
ہم میں سے کئی آدمی مارے گئے۔ خوش قسمتی سے میں بچ گیا۔ ایک تختہ میرے ہاتھ آ گیا اور اس سے میری جان بچ گئی۔ چار دن اور چار رات میں اپنے تختے سے چمٹا پانی میں ہچکولے کھاتا رہا۔ آخر ایک جزیرے میں جا پہنچا۔ اللّہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے مجھے بچا لیا۔ جزیرے میں درخت بھی تھے اور تازہ پانی بھی۔ اس سے میری ہمّت جوان ہو گئی۔

سمندر کا بوڑھا آدمی (شیخ البحر)

کچھ دیر میں نے کمر سیدھی کی پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اک بوڑھے آدمی پر میری نظر پڑی۔ مجھے وہ کچھ زیادہ ہی کمزور اور بیمار نظر آیا۔ اسے دیکھ کر فوراً میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں یہ بھی میری طرح کسی غرق شدہ جہاز سے بچ کر تو یہاں نہیں پہنچا۔ ایک ندی کے کنارے وہ بالکل خاموش اور بے حرکت بیٹھا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے پھر بات کرنے کی کوشش کی۔ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ اس نے ندی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں سمجھا وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مجھے ندی کے اس پار پہنچا دو۔ میں نے اسے اٹھا کر ندی عبور کرنا چاہی۔ پھر اس میں حرکت پیدا ہوئی اور اس نے اپنی ٹانگیں میری گردن کے گرد ڈال دیں۔ اس کی ٹانگیں دبلی پتلی مگر مضبوط تھیں۔ میں نے چاہا کہ اسے اتار دوں مگر اس نے مجھے لات ماری۔ پھر اس نے میری گردن کو اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں میں جکڑ لیا۔ ایسا لگا کہ میرا دم گھٹ جائے گا۔
میں گویا اس کا قیدی بن گیا۔ رات ہوئی تو میں نے کچھ پھل کھائے، پانی پیا اور سو گیا۔ صبح ہوئی تو وہ میرے کندھوں پر سوار ہو گیا۔ جو کام وہ مجھ سے کرانا چاہتا تھا اس کے لیے مجھے ایک لات رسید کر دیتا۔ چند دن تک یہی کچھ ہوتا رہا۔ ایک دن اس جنگل میں مجھے ایک پھل نظر آیا۔ بوڑھے نے مجھے لات ماری۔ میں یہ سمجھا وہ پھل مانگ رہا ہے۔ میں نے ایک پھل اسے کھلا دیا۔ پھل کھانے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ بوڑھے کی گرفت ڈھیلی ہونے لگی ہے۔
میں نے ایک اور پھل اسے کھلایا۔ اس کے بعد وہ میرے کندھوں سے نیچے گر گیا۔ ایک پریشانی تو ختم ہوئی۔
میں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں کہ اتفاق سے ایک جہاز اس طرف آتا دکھائی دیا۔ میں نے شور مچا کر ملاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ جہاز ساحل پر لے آئے۔ میں نے انہیں بوڑھے آدمی کا واقعہ سنایا تو وہ مجھ سے کہنے لگے، "تم خوش قسمت آدمی ہو، اس لیے اس کے چنگل سے بچ نکلے ہو۔ اسے شیخ البحر یعنی سمندر کا بوڑھا آدمی کہتے ہیں۔ اس نے کئی لوگوں کی جان لی ہے۔ ہم میں سے کوئی اس جزیرے پر اکیلا نہیں آتا۔"
میں نے ان سے پوچھا، "آپ اس جزیرے پر آخر کیوں آتے ہیں؟"
انہوں نے کہا، "ہم یہاں ناریل لینے آتے ہیں۔"
پھر انہوں نے مجھ سے کہا، "چلو تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔"
میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ انہوں نے دو تین خالی بوریاں لیں اور ایک کو پتھر سے بھر لیا۔ پتھر والی بوری انہوں نے مجھ سے اٹھوائی۔ ہم جنگل کے ایک ایسے حصّے میں پہنچے جہاں ناریل کے بےشمار درخت کھڑے تھے۔ یہ درخت خاصے اونچے تھے اور ان کے پھل یعنی ناریل زمین سے خاصی بلندی پر درخت کی چوٹی کی ٹہنیوں پر لگے ہوئے تھے۔ ایک اور خاص بات یہ کہ ان درختوں پر بندروں کی ایک فوج مورچہ بند تھی۔ جونہی ہم وہاں پہنچے ہم نے بندروں پر وہ پتھر پھینکے جو ہم بوری میں بھر کر لائے تھے۔ بندروں کو غصّہ آیا تو انہوں نے ناریل توڑ کر ہم پر ان کی بارش برسادی۔ ہم نے ان سے اپنی بوریاں بھر لیں۔ انہیں اٹھا کر جہاز لے گئے اور پھر خالی بوریاں لے آئے۔ شام تک یہی کچھ کرتے رہے۔ ہم نے ہزاروں ناریل جمع کر لیے۔
اس کے بعد جہاز دوسرے جزیروں کو روانہ ہوا۔ وہاں ناریل کی منڈیاں تھیں۔ ہم نے یہ ناریل بیچ کر دوسری چیزیں خریدیں۔ اس جزیرے پر موتی اور مرجان بھی ملتے تھے۔ یہاں سے ہر شخص نے اپنی بساط بھر سامان لیا۔ پھر دو چار اور جزیروں کا سفر کیا۔
میں جب اس جہاز کے مسافروں کے پاس آیا تھا تو سوائے لباس کے میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں نے ان تاجروں سے کہا، "مجھے تجارت کا بڑا تجربہ ہے اور اللہ کی طرف سے برکت بھی حاصل ہے۔ اگر تم لوگ مجھے اپنا گماشتہ بنا لو تو مجھے امید ہے کہ تم کو فائدہ ہو گا۔ مجھے تم اپنی کمائی سے کچھ نہ کچھ دے دیا کرو۔"
وہ سب راضی ہو گئے۔ اس سفر میں میں نے اچھی خاصی دولت کما لی۔ جہاز نے پھر بصرہ کا رخ کیا اور ایک دن میں اپنے شہر بغداد پہنچ گیا۔
دوستو! انشاءاللہ میں کل اپ کو چھٹے سفر کی کہانی سناؤں گا۔

No comments: