ساتواں سفر
چھٹے سفر کے اختتام پر خلیفہ ہارون الرشید نے مجھے شرف ملاقات بخشا تھا۔ اس سے تاجر برادری میں میرا وقار بڑھ گیا۔ نئے نئے دوست بننے لگے۔ چھے سفروں میں ایک عمر گزر گئی تھی۔ جوانی پختہ عمر میں ڈھل گئی تھی۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ آئندہ سفر نہیں کروں گا۔ اب تک تو ستارہ عروج پر رہا ہے۔ میں ہر مصیبت سے بچ نکلا ہوں، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو سکتا۔
ایک دن خلیفہ ہارون الرشید کا پیغام پہنچا۔ میں ان کے دربار میں پہنچا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا، "سندباد جہازی! تمہیں یاد ہے کہ تم مہاراجا سراندیپ کا میرے نام ایک خط لائے تھے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ تم میرا جواب ان تک پہنچا دو۔"
خلیفہ کا فرمان تھا اس لیے میں نے خوشی خوشی منظور کر لیا۔
سرکاری ملازموں کو حکم دیا گیا کہ وہ میرے لیے ایک بہترین جہاز کا بندوبست کریں۔ جہاز کا انتظام ہوگیا۔ خلیفہ کی طرف سے بغداد، اسکندریہ اور قاہرہ کے انمول تحفے میرے حوالے کیے گئے۔ میں یہ سب کچھ لے کر سراندیپ پہنچا۔ مہاراجا مجھ سے مل کر بہت خوش ہوا اور جب میں نے تمام تحفے اس کی نذر کے تو وہ اور بھی خوش ہوا۔ یہ تو ایک سفارتی سفر تھا، اس لیے میں نے مہاراجا سے واپسی کی اجازت مانگی اور جہاز لے کر بصرہ روانہ ہو گیا۔
بحری لٹیرے
تین دن کے سفر کے بعد ایک دن ہم پر اچانک بحری لٹیروں نے دھاوا بول دیا۔ پانی کی چھے بڑی بڑی کشتیوں میں سینکڑوں لٹیرے سوار تھے۔ انہیں قزاق بھی کہتے ہیں۔ ان کشتیوں نے ہمارے جہاز کے گرد گھیرا ڈال کر ہمیں اور ہمارے جہاز کو قیدی بنا لیا۔ وہ ہمارے جہاز کو ایک جزیرے میں لے گئے اور وہاں ہم سب کو بیچ دیا۔
مجھے جس تاجر نے خریدا وہ ایک مہربان اور شریف آدمی تھا۔ مجھ سے بڑی نرمی سے پیش آیا۔ ایک دن اس نے مجھے بلا کر پوچھا، "کیا تم تیر چلا سکتے ہو؟"
میں نے جواب دیا، "ہاں۔"
اس نے کہا، "چلو اچھا ہوا، کیوں کہ ہمارے ملک کا دستور ہے کہ جو غلام ہم خریدتے ہیں، انہیں ہم ہاتھیوں کے شکار کے کام پر لگاتے ہیں۔ ہاتھی مار کر ہم ان کے قیمتی دانت حاصل کرتے ہیں اور پھر ان کی آمدنی سے کچھ رقم ان سمندری لٹیروں کو دیتے ہیں۔ میں آج ہی تمہیں جنگل میں لے جاؤں گا۔"
شام کو وہ مجھے جنگل لے کر پہنچا۔
ہاتھیوں کا شکار
رات ہوگی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا دیکھو تم اس درخت پر چڑھ جاؤ۔ جب ہاتھی قریب آیئں تو ایک کو اپنے تیر سے گھائل کر دینا۔ میں صبح آؤں گا۔ میں خاصی دیر تک ہاتھیوں کا انتظار کرتا رہا۔ آخر ایک ہاتھی اس درخت کے قریب آیا جس پر میں بیٹھا تھا۔ میں نے تیر چلایا اور وہ زخمی ہو گیا۔ صبح کو تاجر آیا اور وہ میرے قریب مردہ ہاتھی دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، "مجھے خوشی ہے کہ تمہارا نشانہ اچھا ہے۔ یاد رکھو اگر تم ہاتھی کو نہ مار سکے تو پھر وہ تمہیں ضرور مار دے گا۔"
ہم ہاتھی دانت لے کر واپس چلے گئے۔ اسی روز دوپہر میں میری دو آدمیوں سے ملاقات ہوئی۔ انہیں بھی بحری قزاقوں نے پکڑ کر بیچا تھا اور وہ بھی ہاتھیوں کا شکار کرتے تھے۔ ان میں سے ایک مجھ سے کہنے لگا، "اگر ہم روز روز ہاتھی مارتے رہیں تب بھی ہم موت سے نہیں بچ سکتے۔ ہاتھی تو ایسی مخلوق ہے کہ اگر ایک ہاتھی مارا تو اس کا رشتےدار ہاتھی بدلہ لیتا ہے۔ ان میں اتنی عقل موجود ہے۔"
اس نے مجھ سے بڑے کام کی بات کی تھی۔ میں نے اس پر غور کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک تو مجھے ایک ہی درخت پر دوسری بار نہیں بیٹھنا چاہیے۔ ہر بار درخت بدل لینا چاہیے۔ دوسرے جب ایک سے زیادہ ہاتھی ہوں تو پھر تیر نہیں چلانا چاہیے اور تیسرے اس یقین سے تیر چلانا چاہیے کہ ہاتھی ڈھیر ہو جائے، اگر وہ بچ گیا تو میری خیر نہیں ہوگی۔
مدتوں ہر رات میں ایک ہاتھی مارتا رہا۔ تاجر اس بات سے بہت خوش تھا۔ اس نے میری تعریف کی اور کہا کہ آئندہ ہر دس ہاتھی دانتوں میں سے ایک دانت تمہارا ہو گا۔ جب تم سو دانت جمع کرلو گے تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا اور تم وہ سو ہاتھی دانت بھی اپنے ساتھ لے جانا۔
میری قسمت اچھی تھی۔ میں تقریباً سو ہاتھ دانت جمع کر چکا تھا، مگر ایک دن ایک ہاتھی زندہ بچ کر بھاگ نکلا۔ دوسری رات جنگل میں بڑا ہنگامہ تھا۔ سینکڑوں ہاتھی میری تلاش میں سرگرداں تھے۔
آخری حادثہ
ایک دن تمام ہاتھی اس درخت کے گرد جمع ہو گئے جس پر میں چڑھا ہوا تھا۔ میں نے سوچا، "سندباد جہازی، اب تک تو تمہارا مقدّر چمکتا رہا ہے، مگر آج تمہاری شامت آ گئی ہے۔"
ہاتھی درخت کے نزدیک آتے گئے۔ میں نے صورتحال کو سمجھا اور کوئی تیر نہ چلایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور اندیشی ہی سے میری جان بچی۔ پھر سب ہاتھیوں نے مل کر اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ ڈالا۔ میں دھڑام سے زمین پر گرا۔ ایک ہاتھی نے مجھے سونڈ سے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر بٹھایا اور پھر وہ ایک قطار بنا کر چل دیے۔ وہ کئی وادیوں سے گزرے۔ آخر پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک وادی میں پہنچے اور وہاں رک گئے۔
اس سے پہلے میں نے ایسی کہانیاں سنی تھیں کہ ہاتھیوں کا ایک مرگھٹ ہوتا ہے جہاں جا کر وہ مرتے ہیں، مگر مجھے ان باتوں پر یقین نہ تھا۔ آج یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ سینکڑوں کیا ہزاروں ہاتھی یہاں مر چکے تھے۔
دوسرے ہاتھی میرے چاروں طرف گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ وہ مجھے بھی دیکھ رہے تھے، لیکن کسی نے مجھے چھوا نہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ نگاہوں میں مجھ سے کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ بات کر سکتے تو غالباً مجھ سے یہی کہتے کہ تم ہمیں کیوں مارتے ہو؟ یہاں دیکھو۔ ہزاروں ہاتھی دانت پڑے ہیں۔ ہمارے یہ کس کام کے۔ تمہی لے جاؤ اور لوگوں سے کہو، اگر تمہیں ہاتھی دانت چاہیئں تو ہمیں مت مارو، ادھر سے کچھ ہاتھی دانت اٹھا کر لے جاؤ۔
یہ منظر دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں پشیمانی کی تصویر بن چکا تھا۔ وہ میرے جذبات کو بھانپ گئے۔ ایک طرف سے ہاتھیوں کا گھیرا ٹوٹا اور جس ہاتھی پر میں سوار تھا وہ مجھے لے کر چلا اور اس کے ساتھ دو اور ہاتھی چلے۔ جنگل کے ایک کنارے پر جا کر اس ہاتھی نے اپنی سونڈ سے مجھے اٹھا کر آہستہ سے زمین پر ڈال دیا۔
میں نے الله کا شکر ادا کیا۔ میں ہاتھیوں کا پیغام سمجھ چکا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے آقا تاجر کو اور ہاتھ دانت کا کاروبار کرنے والے دوسرے تاجروں کو ہاتھیوں کے اس مرگھٹ میں لے گیا۔ وہ وہاں ہزاروں ہاتھ دانت دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ میں نے ان سے کہا، "دیکھیے آپ وعدہ کیجیے کہ آپ روزانہ ضرورت سے زیادہ ہاتھح دانت یہاں سے نہیں اٹھائیں گے۔"
انہوں نے وعدہ کیا۔ ہم سب خوشی خوشی واپس آئے۔ تمام تاجروں نے مل کر مجھے تحفوں سے مالا مال کر دیا اور میں سو ہاتھ دانت اور وہ تحفے اپنے ساتھ وطن لے آیا۔ سب چیزیں بیچ کر بے شمار دولت جمع کی۔ یہ دس سال پہلے کی بات تھی۔ یہی میرا آخری سفر تھا۔ اس کے بعد میں نے کبھی سفر نہیں کیا۔ مجھے ان بے زبان ہاتھیوں کا پیغام ہمیشہ یاد رہے گا۔
الله حافظ۔
No comments:
Post a Comment