Tuesday, April 1, 2014

سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر۔۔۔۔۔۔ چوتھا سفر​

چوتھا سفر
ایک دن کچھ تاجر دوست میرے ہاں آئے۔ باتوں باتوں میں بحری سفر کا ذکر آیا۔ اس سے ایک بار پھر میرے دل میں شوق کی آگ بھڑک اٹھی۔ یہ وہ آگ ہے جو بجھے نہیں بجھتی۔ دوسرے ہی دن میں نے تیاریاں شروع کر دیں۔ چند دنوں میں میں مال لے کر بصرہ جا پہنچا اور ایک جہاز میں سوار ہو کر یہ جا وہ جا۔ مشرق ہمیشہ میرے لیے جادو کی سرزمین رہی ہے۔ وہاں کے جزیرے، ان دیکھے لوگ، انوکھی چیزیں، انوکھے رسم و رواج۔ وہ لوگ جو عجیب و غریب باتوں کی تلاش میں رہتے ہیں، بحری سفر ان کی پیاس بجھاتے ہیں۔
ہم وطن سے بہت دور کھلے سمندر میں رواں دوں تھے کہ ایک دن زور کی آندھی آئی اور جہاز ایسا پلٹا کہ ہم سب پانی میں جا گرے۔ جہاز ڈوبنے لگا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، "سندباد، بہت جی لیا تو اب، لیکن آج تیری موت تیرے سر پر کھڑی ہے۔"
ادھر میں نے یہ بات سوچی ادھر ایک تختہ میری طرف بہہ کر آ گیا اور میں اچھال کر اس پر سوار ہو گیا۔ میں نے اس تختے پر بیٹھ کر اوروں کی مدد کی اور وہ بھی کسی نہ کسی لکڑی کے ٹکڑے سے چمٹ گئے۔

یوں بھی ہوتا ہے
اگلے دن ہم موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر بہتے چلے گئے۔ آخر خشکی کے ایک کنارے پر جا لگے۔ ہم میں سے کسی میں اتنا دم نہیں تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل سکے۔ ساری رات کنارے پر ہم بےحس و حرکت پڑے رہے۔ سورج نکلا تو ہم اٹھے۔ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ کچھ وحشی وہاں آ گئے۔ وحشی میں نے اس لیے کہا ہے کہ ان کی شکل انسانوں جیسی تھی ورنہ تھے وہ جانور، نہایت بد شکل، بھدّے اور گھناؤنے۔ انہوں نے ہمیں تھپڑ اور چانٹے مار مار کر کھڑا کیا اور جانوروں کی طرح ہانکتے اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ نے ان سے کچھ بات کی۔ انہوں نے ہمیں زمین پر بٹھایا۔ ہمارے لیے کھانا لایا گیا۔ یہ کھانا دیکھ کر مجھے تو متلی ہونے لگی۔ جنہوں نے یہ کھانا کھایا وہ جادو میں آ گئے۔ اب ان کی بھوک ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ میں ان وحشیوں کی کہانیاں پہلے سن چکا ہوں۔ جب وہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کو پکڑ کر لاتے ہیں تو انہیں یہی غذا دیتے ہیں۔ کھانے والوں کا پیٹ نہیں بھرتا۔ وہ کھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس طرح وہ موٹے ہو جاتے ہیں اور پھر ان وحشیوں کا لقمہ بنتے ہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ کھانا بند کریں، لیکن ان پر جادو چل چکا تھا اور وہ نہ رک سکے۔
میں جی ہی جی میں کڑھتا رہا کہ کس طرح اپنے ساتھیوں کی جان بچاؤں، لیکن وہ وحشی ہر وقت ان کے گرد جمع رہتے تھے اور ہر وقت انہیں کھلاتے ہی رہتے تھے۔ آخر میں نے سوچا کہ اگر میں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو اپنی جان بچانا مجھ پر فرض ہے۔ چنانچہ ایک دن میں ان سے آنکھ بچا کر ایک درخت کے نیچے چھپ گیا، پھر موقع پا کر جنگل کے اندر گھس گیا۔ وہاں مجھے ایک پھل نظر آیا جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پیٹ بھرا اور اپنی جان بچانے کے لیے جتنا تیز چل سکتا تھا چلنے لگا۔ سات دن تک میں چلتا رہا، لیکن کہیں بھی مجھے کوئی انسان یا جانور نظر نہ آیا۔
ساتویں دن ایک جگہ مجھے کچھ انسان نظر آئے۔ میری جان میں جان آئی۔ میں ان کی طرف بڑھا۔ ان لوگوں نے مجھے دیکھا تو اپنی تلواریں سونت لیں۔ میں نے بلند آواز میں کہا، "اللہ کے واسطے میری بات تو سنو۔"
وہ میرے نزدیک آئے تو میں نے اپنی روداد بیان کی۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا، "آج تک تمہارے علاوہ کوئی اور آدمی ان وحشیوں سے بچ کر نہیں آیا۔"
اب میں ان کے ساتھ رہنے لگا۔ یہ لوگ ایک اور جزیرے کے تھے۔ وہ اپنے جزیرے کو چلے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان لوگوں نے اپنے بادشاہ سے میرا ذکر کیا۔ دربار میں میری طلبی ہوئی۔ میں نے اپنے بارے میں اور جو کچھ مجھ پر بیتی تھی، اس کا حال بیان کیا۔ بادشاہ نے بڑی دلچسپی سے سنا۔ روزانہ میری طلبی ہوتی اور روزانہ بادشاہ طرح طرح کے سوالات پوچھتا اور غور سے سنتا۔
اس بادشاہ کا جزیرہ خوشحال تھا۔ بادشاہ اور اس کی تمام رعیت گھوڑوں پر سوار ہوتی تھی، لیکن زین کے بغیر۔ میں سمجھ گیا وہ زین سے قطعی ناواقف ہیں۔ ایک دن میں نے زین کا ذکر بادشاہ سے کیا تو اس نے پوچھا، "زین کیا چیز ہے؟"
میں نے کہا، "بادشاہ سلامت! میں ایک زین بنا کر لاؤں گا تب آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ زین کیا ہے۔"
میں نے ایک اچھی سی زین تیار کی۔ بادشاہ اسے استعمال کر کے بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد اس کے تمام امرا نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے لیے زینیں بناؤں۔ چنانچہ میں نے بے شمار زینیں تیار کر کے انہیں دیں۔ سب نے مجھے انعامات سے نوازا اور میں خاصا دولت مند ہو گیا۔

شادی خانہ آبادی
ایک دن بادشاہ نے مجھے بلوایا اور کہا، "میں اور میری رعیت تمہیں اپنا سمجھتی ہے۔ تم بھی اپنی اپنائیت ثابت کرو۔"
میں نے عرض کیا، "میں اپنے آپ کو آپ کی رعیت میں شمار کرتا ہوں۔ فرمائیے کیا حکم ہے۔"
بادشاہ نے کہا کہ میرے ایک درباری کی ایک حسین و جمیل اور مالدار بیٹی ہے۔ تم اس سے شادی کر لو۔ میں نے ہاں کردی۔ دو چار دنوں میں میری شادی ہو گئی۔ جیسا کہ بادشاہ نے مجھے بتایا تھا، میری بیوی ایک حسین عورت تھی جو مجھ سے محبت کرتی تھی۔ ہم ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ایک دن میری بیوی کے ایک رشتے دار کی بیوی فوت ہوگئی۔ میں تعزیت کے لیے اس کے گھر گیا۔ وہ بےچارا بڑا پریشان تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ بیوی کا غم اسے کھائے جا رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا، "دیکھو بھئی تقدیر نہیں ٹلتی۔ جس کی موت آتی ہے وہ مرتا ہے۔ مجھے آپ کی بیوی کے مرنے کا سخت صدمہ ہوا ہے۔ آپ صبر کریں۔ اللہ تعالی اس کے اجر میں آپ کو ایک اور نیک سیرت اور خوبصورت بیوی دے گا۔"

مُردوں کا غار
اس نے کہا، "تم نہیں جانتے ہماری رسم کیا ہے۔ جب مرد مرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی مُردوں کے غار میں دھکیل دیتے ہیں اور جب بیوی مرتی ہے تو اس کے شوہر کا بھی یہی حشر ہوتا ہے۔"
میں نے کہا، "یہ رسم تو بری رسم ہے۔"
مگر رسم قانون کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی شام لوگ اسے اور اس کی بیوی کی لاش کو شہر کے باہر ایک غار میں لے گئے۔ غار کے منہ سے ایک پتھر ہٹا کر لاش کو اندر پھینک دیا گیا۔ پھر انہوں نے میرے دوست کو رسیوں سے باندھ کر غار میں اتار دیا۔ غار کے سامنے ایک بڑے پتھر کو جما دیا گیا اور سپاہی پہرے پر کھڑے ہو گئے۔
یہ بڑی درد ناک بات تھی۔ میں نے بادشاہ سے اس کا ذکر کیا۔ اس نے کہا، "یہ بڑی قدیم رسم ہے اور میں بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔"
آج نہیں تو کل تیری باری ہے
پھر خود میری پیاری بیوی مختصر سی بیماری کے بعد چل بسی۔ لوگ آئے اور اس کی لاش مُردوں کے غار کی طرف لے گئے۔ پھر میری باری آئی، میں نے احتجاج کی آواز بلند کی یعنی یہ جواز پیش کیا کہ میں اس ملک کا نہیں، اس لیے مجھ پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا، "ہمّت نہ ہارو۔ تم ہم میں سے ایک ہو۔"
وہ مجھے باندھ کر وہاں لے گئے اور غار میں اتار دیا۔ میں نے بڑی عاجزی سے اللہ تعالی سے دعا مانگی، "اے میرے اللہ میں مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ مجھے وہ اپنے قانون کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ اے میرے اللہ! تو مجھے بچا لے۔"
مجھے غار میں کچھ چمک سی نظر آئی۔ دراصل وہ لوگ تمام جواہرات مُردے کے ساتھ غار میں پھینک دیتے ہیں۔ میں نے دیکھا غار میں ہر طرف جواہرات بکھرے پڑے تھے۔ لوگوں کو رسیوں سمیت نیچے ڈال دیا جاتا تھا۔ اس لیے وہاں رسیاں بھی پڑی تھیں۔ پھر میں نے وہاں کچھ حرکت محسوس کی۔ میرے خیال کے مطابق کوئی لومڑی تھی۔ میں نے کوشش کی اسے پکڑوں، مگر اس نے مجھے کاٹا اور بھاگ گئی۔

لومڑی سے چھٹکارے کا ذریعہ
میں نے سوچا کہ اگر لومڑی اندر آتی ہے تو اس غار کے اندر کوئی اور خفیہ راستہ بھی ہو گا۔ لومڑی ایسی ذات ہے کہ ہیرا پھیری سے نہیں رکتی۔ وہ پھر آئے گی اور ضرور آئے گی۔ میں رسّی لے کر اس کی تاک میں بیٹھا کہ اسے قابو کروں گا۔ آخر وہ میرے قابو میں آ گئی اور میں نے اسے رسّی سے جکڑ دیا اور رسّی کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں رکھا۔ وہ ایک طرف بھاگی اور ایک سوراخ کو پہنچی۔ معلوم ہوا سوراخ تنگ ہے، لومڑی تو گزر سکتی ہے میں نہیں گزر سکتا۔ میں دن بھر اس سوراخ کو چوڑا کرنے میں مصروف رہا اور آخر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک پہاڑ کے دامن میں سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں۔ اس مقام کے متعلق مجھے کچھ معلومات تو حاصل تھیں، لیکن میں نے اسے دیکھا نہ تھا۔ جس ڈھلان کے نیچے میں کھڑا تھا وہ دیوار کی طرح عمودی تھی۔ نہ تو کوئی اوپر سے نیچے آ سکتا تھا اور نہ کوئی نیچے سے اوپر جا سکتا تھا۔ قریب ہی ایک ندی سمندر میں گر رہی تھی اور ایک پھل دار درخت بھی تھا۔ میں نے پانی پیا، پھل کھائے اور سوچنے بیٹھ گیا۔ ایک ترکیب سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ یہاں سے ضرور کوئی جہاز گزرے گا، اس لیے اس کا انتظار کیا جائے۔ دوسری بات یہ سوچی کیوں نہ اس غار سے ہیرے جواہرات لائے جائیں۔ اگرچہ اس میں خطرہ بڑا تھا۔ میرے پاس کچھ رسّیوں کے ٹکڑے تھے۔ میں نے سوچا اگر میں سب کو جوڑ کر ایک لمبی رسّی بنا لوں تو غار میں اترنا اور اس سے باہر نکلنا آسان ہو جائے گا۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ کئی بار غار میں اترا اور ڈھیروں جواہرات نکال لایا۔ غار سے کپڑے لا کر ایک بوری بنائی اور اس کو جواہرات سے بھر لیا۔ اب مناسب یہی تھا کہ میں کسی جہاز کا انتظار کروں۔
آخر ایک دن ایک جہاز آ ہی گیا اور یہ حقیقت کھلی کہ جہاز اس ندی سے تازہ پانی بھرنے کے لیے آتے ہیں۔ میں نے کپتان سے بات چیت کی لیکن سارا بھید اسے نہیں بتایا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں کس مصیبت میں ہوں۔ اگر تم مجھے بچا لو تو میں تمہیں اس کا صلہ دوں گا۔ اس نے کہا کہ ہم مصیبت زدہ لوگوں کو بچانے کی اجرت نہیں لیتے۔ اس کا اجر ہمیں اللہ دے گا۔ چنانچہ وہ مجھے بخیر و عافیت وطن لے آیا۔
اب کی بار میں نے ارادہ کیا کہ پھر کبھی بحری سفر نہیں کروں گا، لیکن دوستو! آدمی ارادے کرتا ہے اور پھر توڑ دیتا ہے۔ کل، بشرط زندگانی میں اپنے پانچویں سفر کا حال بیان کروں گا۔

No comments: