تیسرا سفر
پہلے اور دوسرے سفر میں جب مجھے تکلیفیں پیش آتی تھیں تو میں کہتا تھا کہ پھر کبھی سفر کو نہ نکلوں گا، لیکن اس بار تو میں چند ہفتے بھی گھر میں نہ گزار سکا۔ رہ رہ کر طبیت میں خیال آتا تھا کہ چلو الله کی عجیب و غریب دنیا کو دیکھوں۔ آخر سامان سفر تیار کر کے تیسری مرتبہ پھر ایک جہاز میں سفر کے لیے نکلا۔ جہاز بندرگاہوں پر رکتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ ہم ہر بندرگاہ پر خرید و فروخت اور نفع کماتے۔
ایک دن ہم خوش و خرم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ آندھی آئی اور جہاز کو دھکیلتی چلی گئی۔ آندھی تھی یا قیامت، چار دن تک جہاز اس کے تند و تیز جھونکوں میں تنکے کی طرح اڑتا چلا گیا۔ ہوا رکی تو دیکھا ہم ایک جزیرے کے پاس ہیں۔ کپتان آیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کہنے لگا، "آندھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ذرا دھیمی ہوئی ہے، لیکن جہاز کے لیے یہ سخت ناموافق ہے۔ بہتر ہے یہیں رک جاؤ۔ اس جزیرے کو میں جانتا ہوں۔ یہاں کے لوگ ٹھنگنے ہیں۔ ان کی شکلیں بندروں کی طرح ہیں۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں جہاز پر چڑھ آتے ہیں۔ اگر انہیں روکا جائے تو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ اس لیے یاد رکھیے ان سے ٹکّر نہیں لینی۔"
بندر انسان
کپتان نے جہاز کو جزیرے کے ساتھ لگایا تو ہزاروں کی تعداد میں بندر انسان اوپر چڑھ آئے۔ آگے پیچھے، عرشے پر اور نیچے ہر جگہ وہ پھیل گئے۔ تاجر اور ملاح جہاز چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ بندر انسان جہاز کو جزیرے کے ایک اور جانب لے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر ہم سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ ایک ملاح ایک درخت پر چڑھا۔ اسے دور پتھر کا ایک مکان نظر آیا۔ اس نے کہا، "کیا خیال ہے۔ ہمارے لیے وہ مکان ٹھیک رہے گا۔"
ہم اور کر ہی کیا سکتے تھے۔ ادھر کا رخ کیا۔ تھوڑی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ دروازے کے اندر جھانکا تو ایک کمرہ خالی پڑا تھا۔ ہم اندر چلے گئے۔
آدم خور دیو
ملاحوں سے میں ایک آدم خور دیو اور اس پتھر کے مکان کی کہانی سن چکا تھا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہ تو بالکل ویسا ہی مکان ہے۔ اتنے میں دیو بھی آ گیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے۔ اگرچہ اس کی شکل انسانوں جیسی تھی، لیکن اس کا قد کسی بڑے تناور درخت کے برابر تھا۔ آنکھیں انگاروں کی طرح دکھ رہی تھیں۔ اس نے کمرے میں رکھے ہوئے ایک صندوق سے ایندھن نکال کر آگ جلائی اور پھر ہم سب پر نظر ڈالی، پہلے اس نے مجھے اٹھایا، ٹٹولا اور دیکھا کہ موٹا تازہ نہیں۔ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس کی انگلی مجھ سے زیادہ موٹی تھی۔ اس نے مجھے فرش پر رکھ دیا۔ پھر ایک اور آدمی کو اٹھایا۔ اس طرح اس نے سب کو ٹٹولا اور آخر کار ایک کو چن لیا۔ اس شخص کو آگ پر بھونا اور پھر مزے مزے سے کھایا۔ پھر آگ کے پاس ہی لیٹا رہا اور سو گیا۔
دوسرے دن وہ کمرے سے نکلا تو دروازے کو بند کرتا گیا۔ رات کو پھر سے کل کی طرح اس نے ہم سب کو باری باری ٹٹولا اور ایک کو چن کر بھونا اور کھا گیا۔
اگلی صبح جب دیو باہر گیا تو ہم سب نے سوچنا شروع کیا کہ اس ظالم سے چھٹکارا پانے کی کوئی تدبیر سوچنی چاہیے ورنہ ہم سب اس کا لقمہ بنیں گے۔ وہ اتنا بڑا تھا کہ ہم سب اس کے ایک بازو کو بھی مروڑ نہیں سکتے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو ایک تجویز بتائی جو ہم سب کو پسند آئی۔
شام کو وہ آیا۔ اس نے معمول کے مطابق ایک آدمی چنا اور اسے آگ پر بھون کر کھا گیا۔ اب ہم نے چھٹکارے کی سوچی سمجھی اسکیم پر عمل شروع کیا۔ دو آدمیوں نے لوہے کی کچھ سلاخیں آگ پر سرخ کیں۔ دوسرے دو آدمیوں نے جلتی لکڑیوں سے دروازے میں راستہ بنایا۔ باقی آدمی کمرے میں رکھے ہوئے بڑے صندوق کو بڑی خاموشی سے اکھاڑنے میں لگ گئے تاکہ اس سے کسی نہ کسی قسم کی کشتی بنالی جائے۔ سب چیزیں تیار ہوگئیں۔
ہم نے بڑی دلیری سے لوہے کی گرم گرم سلاخیں دیو کی آنکھوں میں گھسیڑ دیں اور پھر صندوق کے تختے اٹھا کر ہم سب سمندر کی طرف سرپٹ بھاگے۔ دیو نے زبردست شور مچایا۔ ہم نے ان تختوں سے بیڑا بنایا اور سمندر میں اتر کر اس پر بیٹھ کر پتواروں سے اسے کھینے لگے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دیو کو اس کے دو دوست کنارے کی طرف لا رہے ہیں۔
انہوں نے ہمیں دیکھا تو بڑے بڑے پتھر اٹھا کر پھینکنے لگے۔ ہر پتھر اتنا بڑا تھا جتنا ایک چھوٹا مکان ہوتا ہے۔ اتفاق سے پہلا پتھر تو ہم سے دور گرا، لیکن دوسرا ہمارے قریب گرا اور کچھ لوگ اس کی زد میں آ کر مر گئے۔ خوش قسمتی سے چند آدمی بچ گئے۔ جن میں میں بھی شامل تھا۔
پھر تیز و تند ہوا چلنے لگی۔ سمندر میں موجیں اٹھنے لگیں۔ کئی دنوں تک ہم موجوں کے تھپیڑے کھاتے بہتے جا رہے تھے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ آخر ایک دن ہم ایک جزیرے پہ جا لگے۔
ایک اژدہا
ہم اس جزیرے پر صرف تین آدمی زندہ بچ سکے تھے۔ جہاز کے تمام ملاح اور تاجر یا تو اس دیو کا لقمہ بن گئے تھے یا اس کی پھینکی ہوئی چٹانوں سے کچل کر مر گئے تھے۔ جزیرے پر کئی درخت نظر آئے، ایک ندی بھی دیکھی۔ ہم جس جگہ اترے تھے اس کے قریب درختوں پر سے پھل چن کر بھوک مٹائی، ندی کا پانی پیا اور سو گئے۔
اچانک ہمیں "ہس ہس" کی سی آواز سنائی دی۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک اژدہا ہم سب کو اپنی کنڈلی میں گھیرے ہوئے ہے۔ تھوڑی دیر ہوئی، اس نے ہم میں سے ایک کو نگل لیا۔ اس کی چیخیں سنائی دیتی رہیں، لیکن ہم کیا کر سکتے تھے۔ رات بھر وہ وہیں رہا۔ ہم ڈر کے مارے ہل تک نہ سکے۔
صبح ہوئی تو وہ کہیں چلا گیا۔ ہم سخت پریشان تھے کہ کیا کریں۔ شام کو آ کر وہ ایک اور آدمی کو نگلے گا۔ بھوک ستا رہی تھی۔ ہم نے کچھ پھل کھائے، پانی پیا اور پناہ کی تلاش میں نکلے۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ کے باوجود کوئی پناہ نہیں ملی۔ سوچا کہ کسی بڑے اور اونچے درخت پر بیٹھے رہنا چاہیے۔ چنانچہ ہم ایک درخت پر چڑھ گئے۔ رات کو اژدہا ہماری تلاش میں آیا۔ اس نے ہمارے درخت کو ڈھونڈ لیا۔ میں تو درخت کی چوٹی پر تھا، میرا ساتھی مجھ سے نیچے تھا۔ اژدہے نے بلند ہو کر اسے دبوچ لیا اور میں اس بےچارے کی چیخ و پکار سن کر اپنا کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔
اب کیا ہوگا
صبح ہوئی تو اژدہا کہیں چلا گیا۔ میں تن تنہا رہ گیا۔ یہ بات یقینی تھی کہ اگر میں نے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں کیا تو آج رات میری باری ہوگی اور میں اس بے رحم اژدہے کا لقمہ بن جاؤں گا۔ میں سوچتے سوچتے سمندر کے کنارے جا نکلا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ وہاں بندر انسان نہیں تھے۔ میں کنارے کے ساتھ ساتھ چلا کہ ہو سکتا ہے کوئی ایسی چیز مل جائے جس کے زریعے سے میں سمندر میں تیر سکوں۔ اتفاق سے کچھ تختے پڑے مل گئے۔ یہ اس جہاز کے تھے جسے بندر انسان دوسری طرف لے گئے تھے۔ میں نے رسیوں سے ان تختوں کو اس طرح جکڑا کہ ایک صندوق سا بن گیا۔ اسی کام میں شام ہوگئی۔ اب اژدہے کی پھنکار سنائی دی۔ میں نے خود کو صندوق میں بند کر لیا۔ اژدہا اپنا منہ صندوق کے چاروں طرف گھماتا رہا، لیکن لکڑی کے تختوں کی وجہ سے وہ مجھے اپنے منہ میں دبوچ نہیں سکتا تھا۔ وہ چلا گیا۔ میں صبح اس صندوق سے باہر نکلا اور اسے مضبوط کیا۔ پھر کچھ پھل اور پانی لے کر اس میں رکھ لیا اور اس کو پانی میں اتار کر خود اس میں بیٹھ گیا۔ چل میری کشتی چل۔
جان ہے تو جہاں ہے
بند صندوق میں سمندر کا سفر۔ الله کی پناہ۔ اوپر چلچلاتی دھوپ تھی اور نیچے موجوں کے تھپیڑے۔ سمندر میں کوئی دیوار تو ہوتی نہیں کہ کہیں میں رکتا، موجیں کبھی صندوق کو ادھر لے جاتیں کبھی ادھر۔ میں ہوا اور موجوں کے رحم و کرم پر تھا۔ خوش قسمتی سے میرے پاس سے گزرتے ہوئے ایک جہاز کے ملاحوں نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ جہاز کو قریب لائے اور مجھے اس آفت سے نکال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے ہوش آیا تو لوگ میرے ارد گرد جمع تھے۔ میں نے اپنی درد بھری بیتی سنائی۔ کپتان، ملاحوں اور تاجروں نے بڑا دلاسا دیا اور کہا کہ وہ مجھے بغداد پہنچا دیں گے۔ لیکن ابھی تجارتی سفر باقی ہے، کئی بندر گاہوں پر جانا ہے۔ کچھ مال فروخت کرنا ہے اور کچھ خریدنا ہے۔ انشاءاللہ ان شہروں سے ہو کر ہم بصرہ جائیں گے۔
میری خوب تواضع کی گئی۔ چند دنوں میں میری کمزوری دور ہو گئی۔ اتنے میں جہاز ایک بندرگاہ پر پہنچ گیا۔ تاجروں نے اپنا مال کنارے پر اتروایا تاکہ خرید و فروخت کریں۔ جہاز کے کپتان نے اپنے ملاحوں سے کہا، "دیکھو، یہیں سندباد کا مال بھی اتار دو۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے بیچ کر اس کی رقم بغداد سندباد کے وارثوں کو پہنچا دوں۔"
میں نے اس کی یہ بات سنی تو حیران رہ گیا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی جہاز ہے۔ میں نے کپتان سے پوچھا، "جناب کپتان صاحب! کیا اس کے مال پر فلاں نشان بنا ہوا ہے؟"
اس نے جواب دیا، "ہاں، لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہے۔ سندباد تو رخ پرندے والے جزیرے پر الله کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس بات کو ایک مدّت گزر چکی ہے۔"
میں نے اسے بتایا کہ میں ہی سندباد جہازی ہوں۔ اپنے مال کی مزید نشانیاں بتائیں۔ اتنے میں سب ملاح ہمارے گرد جمع ہو گئے۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے ساری داستان انہیں سنائی۔ تب انہیں یقین آ گیا کہ سندباد میں ہی ہوں۔ میں بھی اپنا سامان اتروا کر منڈی لے گیا۔ میں نے سارا مال بیچا اور خوب نفع کمایا۔ اس رقم سے میں نے ایسا مال خریدا جو بغداد میں اچھی قیمت پر بک سکے۔
جہاز مزید ایک دو بندرگاہوں پر رکا۔ وہاں بھی خرید و فروخت ہوئی اور الله تعالی کی مہربانی سے مجھے تجارت میں خوب فائدہ ہوا۔ آخر ایک دن ہم بصرہ پہنچ گئے۔ وہاں سے میں بغداد گیا اور پورے مال کو اچھے خاصے منافع پر بیچ دیا۔ ایک بار پھر میں مال و دولت کا مالک ہو گیا۔
دوستو! اگر زندگی رہی تو کل میں آپ کو اپنے چوتھے سفر کا حال سناؤں گا۔
No comments:
Post a Comment