Tuesday, April 1, 2014

بغداد کا قاضی اور یہودی کا سوال

کہتے ہیں کہ اسلام کے عروج کے دور میں بغداد کے قاضی اپنے شاندار گھوڑے پر سوار بازار میں جا رہے تھے کہ ایک غریب یہودی موچی نے ان کو روکا اور ان سے کہا کہ تم کہتے ہو کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ دیکھو اپنی سواری ، اپنا گھر، اپنا منصب اور اپنی عزت و جاہ۔۔۔۔۔کیا یہی قید خانہ ہے۔۔۔۔؟اور میری حالت دیکھو۔۔۔ کس غربت اور کسمپرسی میں زندگی گزار رہا ہوں۔۔۔کیا یہی جنت ہے ؟
آپ نے اسے جواب دیا ارے نادان! اگر میں اللہ کے ہاں کامیاب ہو گیا اور مجھے جنت مل گئی تو یہ سب جس کا تم نے ذکر کیا ہے ، اس کے مقابلے میں ایک قید خانہ سے زیادہ نہیں۔۔۔۔اور اگر تو کفر و شرک پر مر گیا اور جہنم میں ڈالا گیا تو اس کے مقابلے میں تیری یہ حالت جس میں تو آج ہے تیرے لیے جنت سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ارے ناسمجھ! دنیا کی کسی بہت بڑی سلطنت کی بادشاہی بھی جنت کی نعمتوں کے مقابلے میں کسی قید خانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
 جنت اپنے بندوں کے لیے اللہ کا انعام ہے جس کی صحیح تصویر کھینچنے  کے لیے کسی انسانی زبان میں ایسے الفاظ موجود نہیں کہ ان کا بیان کیا جا سکے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ،نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی بشر کے دل پر ان کا خیال گزرا

No comments: