کہتے
ہیں بغداد میں ایک متمول تاجر رہتا تھا۔۔ اس تاجر نے ایک طوطا پالا ہوا تھا جس سے
یہ بہت محبت کرتا۔۔ طوطے کو بھی اپنے مالک سے بہت محبت تھی ۔۔لیکن غم صرف ایک تھا
اور وہ غم تھا پنجرے کی قید۔۔۔ ایک دن تاجر کہیں جا رہا تھا ۔۔اور راستے میں طوطے
کا آبائی علاقہ بھی آتا تھا۔۔وہی علاقہ جہان سے اس طوطے کو پکڑا گیا تھا۔۔
طوطے
نے واقعہ سنا اور غش کھا کر گرا اور وہ بھی جیسے مر گیا۔
تاجر
کو بہت افسوس ہوا ۔۔مگر کیا کر سکتا تھا۔۔ مردہ طوطے کو اٹھایا اور باہر پھینک
دیا۔۔۔پھینکنے کی دیر تھی ۔۔طوطا اڑا ۔۔اور اڑ کر سامنے کی دیوار پر بیٹھ
گیا۔۔۔ تاجر نے حیرت سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے۔۔
طوطا
بولا ۔۔۔گو کہ آپ نے ہمیشہ میرا خیال رکھا اور مجھے خوش رکھنے کی کوشش کی ۔۔لیکن
میں قید تھا۔۔۔ اور اس قید نے مجھے اندر سے ختم کر دیا تھا۔۔میں اپنی
نہیں بلکہ آپ کی مرضی کی زندگی جی رہا تھا۔۔۔ میرے عزیزوں نے آپ کے ذریعے مجھے یہ
ہی پیغام بھیجا کہ اگر میں مر جاوں تو آپ کی قید سے آزاد ہو جاون گا۔۔ کیونکہ جب تک
زندہ رہوں گا آپ مجھے کبھی آزاد نہیں کریں گے۔۔۔ میں نے اپنے عزیزوں کی نصیحت
کےمطابق عمل کیا اور اب دیکھیں میں آ زاد ہوں ۔۔۔ اب جتنی باقی زندگی رہ گئی ہے،
انشاء اللہ وہ آزادی سے ہی گزرے گی۔۔۔
انسان
زمان و مکان کی قید میں زندگی گزارتا ہے۔۔ یہ قید اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ
زندگی کے ڈرامے کو سمجھنے کی بجائے ۔۔۔۔ اس میں اس قدر کھو جائے کہ اسے یہ
یاد ہی نا رہے کہ اسے ایک دن ختم ہونا ہے۔۔ لیکن ایسا ہر ایک کے ساتھ نہیں
ہوتا۔۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ایک مقام پر پہنچ کر انھیں سمجھ آ جاتی ہے کہ ان
کا رول بھی ایک دن ختم ہو جائے گا۔۔ لیکن زمان و مکان کی یہ قید اتنی
سہانی لگتی ہے۔۔۔ کہ جانتے ہوئے بھی ۔۔۔۔۔ وہ اس قید کی، اپنے لئے بقا
مانگتے ہیں۔۔
No comments:
Post a Comment