Tuesday, April 1, 2014

سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر۔۔۔ چھٹا سفر​

چھٹا سفر
بغداد میں رہتے ہوئے میں روز بازار جاتا۔ کئی تاجر ملتے، کئی کپتانوں اور ملاحوں سے ملاقات ہوتی۔ میرے دل میں سفر کی چنگاری پھر سلگ اٹھی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ اب کی بار کچھ سفر خشکی پر کروں اور کچھ سمندر میں۔ چنانچہ میں نے بغداد سے کچھ اونٹ اور گھوڑے خریدے اور ان پر مال اسباب لاد کر خشکی کے راستے ہندوستان کی طرف چلا۔
سینکڑوں شہروں سے میرا گزر ہوا۔ آخر چلتے چلتے میں ہندوستان پہنچ گیا۔ وہاں لوگوں سے معلوم ہوا کہ سمندر کے سفر کے لیے مجھے جنوبی ہندوستان جانا چاہیے۔ چنانچہ میں اسی طرف چلا۔ میں نے مویشی بیچ دیے۔ سمندر کے لیے سفر کا مال خریدا اور ایک جہاز میں سوار ہو گیا۔ ہمارا جہاز کھلے سمندر میں کئی دن اور کئی راتیں چلتا رہا۔ ایک دن طوفان آیا۔ ہوا اتنی تیز تھی کہ اس نے جہاز کو ہانکنا شروع کر دیا۔ چلتے چلتے ہم ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ کپتان چلا چلا کر کہنے لگا، "سب مارے گئے، سب مارے گئے۔"
ہم نے پوچھا، "کیا ہوا؟ یہ کون سا مقام ہے؟"
اس نے ماتم پیٹنا شروع کردیا، "یہ جگہ موت کے غار کی ہے۔ دیکھتے نہیں وہ سامنے جو پہاڑی ہے۔ اس کے نیچے ایک غار ہے، جہاں سمندر کا پانی نیچے اترتا ہے۔ جہاز ہو یا کشتی سب اس میں گم ہوجاتے ہیں۔ کبھی کو زندہ نہیں بچا۔"
تمام ملاح ہاتھ پیر مارنے لگے۔ کبھی چپو چلاتے، کبھی پتوار سنبھالتے، مگر سب کوششیں بےکار ثابت ہوئیں۔ ہمیں نظر آرہا تھا کہ پانی غار میں گھسا جارہا ہے۔ ہم سب نے دعائیں مانگیں، گڑگڑائے، سجدے کیے۔ اتنے میں ایک زور دار دھماکہ سنائی دیا۔ ہم غار کے اندر تھے۔ جہاز کسی چیز سے ٹکرایا اور ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں مر رہا ہوں، مگر میں مرا نہیں تھا۔ مجھے نظر کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔ البتہ پانی کے بہاؤ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ آندھی کا شور بھی سنائی دے رہا تھا۔ پھر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کسی سخت چیز پر پانی کے اوپر حرکت کر رہا ہوں۔ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔ تاریکی میں بہہ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، لیکن یہ خواب نہ تھا، حقیقت تھی۔
سراندیپ
یا تو میں سو گیا تھا یا بےہوش ہوگیا تھا۔ نیند کے دوران مجھے شور و غل سنائی دیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ میں جہاز کے ایک تختے پر پڑا تھا اور کئی لوگ میرے اردگرد جمع تھے۔
میں نے پوچھا، "میں کہاں ہوں؟"
وہ میری زبان نہیں سمجھے۔ کچھ کھسر پسر ہوئی۔ مجمع سے ایک آدمی آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ تم سراندیپ میں ہو۔ میں اللہ کا شکر ادا کیا، کیوں کہ میں اس کے راجا کے بارے میں اور اس ملک کے بارے میں بہت کچھ سن چکا تھا۔ جو شخص ترجمان کے طور پر باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہم لوگ اس دریا سے نہریں نکالنے آئے ہیں جو کھیتوں کو سیراب کرتی ہیں۔ یہ دریا ان پہاڑوں سے آ رہا ہے۔ کبھی کوئی ان پہاڑوں کی پرلی طرف نہیں گیا اور نہ کبھی کوئی اس طرف سے یہاں آیا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ تم یہاں کیسے آ گئے۔
سراندیپ کا راجا
مجھے کیا معلوم تھا کہ میں وہاں کیسے پہنچا۔ میں نے اسے اپنے سفر کا حال سنایا اور خاص طور وہ واقعہ جس میں ہمارا جہاز غار میں گرا تھا۔ اس نے میری باتوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کر کے لوگوں کو بتایا۔ سب نے کہا کہ یہ حیرت انگیز بات ہے۔ اسے مہاراج کے پاس لے کر چلنا چاہیے۔
ان سب نے مجھے تسلی دی۔ میری خاطر تواضع کی اور پھر مجھے راجا سراندیپ کے پاس لے چلے۔ اس کا پایۂ تخت تین دن کی مسافت پر تھا۔ تین دن بعد ہم وہاں پہنچ گئے۔ ان کو اطلاع ہوئی۔ وہ تشریف لائے اور میری سرگزشت سنی۔ پھر ملازموں کو حکم دیا کہ مجھے عزت و احترام سے ٹھہرایا جائے۔ روزانہ مہاراجا مجھے اپنے ہاں بلواتا، کئی سوالات کرتا۔ یہاں تک کہ میں نے اسے اپنے چھے سفروں کے حالات سنادیے اور وہ بہت خوش ہوا۔
ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ بصرے کا ایک جہاز بندرگاہ پر لگا ہے۔ میں نے مہاراجا سے اجازت چاہی۔ اس نے مجھے سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے بےشمار تحفے دیے اور ساتھ ہی خلیفہ ہارون الرشید کے نام ایک خط بھی دیا۔ جس خط کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا تھا، "یہ خط سراندیپ کے مہاراج ادھیراج کی طرف سے میرے دوست، عظیم خلیفہ ہارون الرشید کے نام ہے۔"
خوش قسمتی سے سراندیپ سے بصرہ کا سفر بڑا خوشگوار رہا۔ وطن پہنچ کر میں وہ خط خلیفہ کے دربار میں لے گیا۔ خلیفہ مجھ سے بڑی شفقت سے پیش آئے اور میری داستان بڑی دلچسپی سے سنی۔
دوستو! اگر زندگی رہی تو میں ساتویں سفر کی کہانی آپ کو کل سناؤں گا۔

No comments: