شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نے آپ بیتی میں اپنا ایک قصہ لکھا ہے کہ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو ماں باپ نے میرے لئے ایک چھوٹا سا تکیہ بنادیا تھا جیساکہ عام طور پر بچوں کے لئے بنایا جاتا ہے، مجھے اس تکیے سے بڑی محبت تھی اور ہر وقت میں اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
ایک دن میرے والد صاحب لیٹنا چاہ رہے تھے۔ ان کو تکیے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ ابا جی! میرا تکیہ لے لیجئے۔ یہ کہہ کر میں نے اپنا تکیہ ان کو اس طرح پیش کیا جیساکہ میں نے اپنا دل نکال کر اپنے باپ کو دے دیا، لیکن جس وقت وہ تکیہ میں نے ان کو پیش کیا، اسی وقت والد صاحب نے مجھے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ ”ابھی سے تو اس تکیے کو اپنا تکیہ کہتا ہے“ مقصد یہ تھا کہ تکیہ تو دراصل باپ کا دیا ہوا ہے، لہٰذا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یا اپنا قرار دینا غلط ہے۔ حضرت شیخ الحدیث لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے بہت برا لگا کہ میں نے تو اپنا دل نکال کر والد صاحب کو دیا تھا۔ اس کے جواب میں ابا جان نے ایک تھپڑرسید کردیا لیکن آج سمجھ میں آیا کہ کتنی باریک بات پر اس وقت والد صاحب نے توجہ دلائی تھی اور اس کے بعد سے ذہن کی سوچ بدل گئی۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ذریعے دی ہیں تو وہ ہم اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر بھی خرچ کریں، غریب بچوں پر بھی خرچ کریں، گھر میں کام کرنے والی نوکرانیوں کے بچوں کو بھی دیں۔ مثلاً ابو کوئی چیز لائے اور لاتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ چیز سب میں تقسیم ہو تو ایک حصہ نوکرانیوں کے بچوں کو بھی دیں اور اس تقسیم میں ہم کنجوسی نہ کریں اور دل کھول کر خرچ کریں۔
No comments:
Post a Comment