Tuesday, June 28, 2016

ادھورا علم

چند ہندوستانی تاجر ملک ایران میں نمائش کے لیے ہاتھی لے کر گئے اور اسے تاریک گھر میں داخل کردیا گیا۔ تاکہ اسے کوئی بھی بغیر چراغ نہ دیکھ سکے۔ چار شوقین رات کو ہاتھی دیکھنے آئے، مگر انہیں کہا گیا کہ یہ دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ کہ ہم دیکھیں گے اور بخدا دیکھ کر ہی ٹلیں گے۔ ہمیں چراغ کی حاجت نہیں جو مانگو لے لو مگر ہمیں ہاتھی دکھا دو۔
چنانچہ ان میں ایک آدمی ہاتھی کے قریب گیا تو اس کا ہاتھ اس کی سونڈ(خرطوم) کے ساتھ جا لگا اور وہ باہر آکر کہنے لگا ہاتھی نلکے کی طرح گول ، مخروط اور لمبا ہے۔
پھر دوسرا آدمی اندر گیا اس کا ہاتھ اس کی ٹانگوں پر پڑا اور بولا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے وہ ستون کی طرح ہے۔
تیسرے نے ہاتھی کے کانوں کو چھوا اور کہا کہ ہاتھی تو پنکھے اور چھاج کی طرح ہے۔ ہاں کچھ چوڑا چھوڑا اور نرم سا ہے۔
چوتھے کا ہاتھ ہاتھی کی پشت پر پڑا اور اس نے کہا کہ ہاتھی تو تخت کی مانند ہے۔
کیا آپ نے غور کیا کہ ان کے درمیان یہ اختلاف کیوں ہوا ؟
"اگر ان کے ہاتھ میں شمع ہوتی تو ان میں اختلاف نہ ہوتا۔ دنیا داروں میں جو اختلاف ہے وہ جہالت کی تاریکی کی وجہ سے ہیں۔ اگر وہ نورعلم سے مستفید ہوں تو نہ لڑیں نہ جھگڑیں۔
(حکایاتِ رومی)

Monday, June 27, 2016

انگلیوں سے کھانا

شاہ فیصل کی زندگی کے چند دلچسپ واقعات

ایک سرکاری دورے پر شاہ فیصل برطانیہ تشریف لے گئے۔ کھانے کی میز پر انتہائی نفیس کراکری کے ساتھ چمچ اور کانٹے بھی رکھے ہوئے تھے۔ دعوت شروع ہوئی۔ سب مدعوین نے چمچ اور کانٹے کا استعمال کیا لیکن شاہ فیصل نے سنت نبویؐ کے مطابق ہاتھ ہی سے کھانا تناول کیا۔ ضیافت کے اختتام پر کچھ صحافیوں نے شاہ سے چمچ استعمال نہ کرنے کے بارے میں دریافت کیا۔ شاہ فیصل نے کہا کہ میں اس چیز کا استعمال کیوں کروںجو آج میرے منہ میں ہے اور کل کسی اور کے منہ میں جائے گا۔ یہ ہاتھ کی انگلیاں تو میری اپنی ہیں۔ یہ تو ہمیشہ میرے ہی منہ میں جائیں گی۔ اس لیے میں اپنے ہاتھ سے کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔

(اصل میں یہ سنت رسولﷺ کی پیروی تھی جس کا غیر مسلموں کو ادراک نہیں تھا۔)

یہ نیم عریاں جسم

فاتح بیت المقدس نے جب بیت المقدس فتح کر لیا اور بیت المقدس کے حکمران گائی آف لوزینان کو جنگی قیدی بنا لیا تو صلیبی ملکہ جو کہ مشہور صلیبی حکمران ریمانڈ کی بیوی تھی اور شکست کے باوجود بھی ملکہ کہلانا پسند کرتی تھی سلطان ایوبی کے پاس آئی اور کہا:
"صلاح الدین! کیا آپکو معلوم ہے کتنے لاکھ عیسائی بے گھر ہو گئے ہیں، ان پر یہ حکم آپ کے حکم سے ہوا ہے"
سلطان ایوبی نے کہا "اور جب بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے وہ کس کے حکم سے کرایا جا رہا ہے؟، اگر میں خون کا بدلہ خون سے لوں تو ایک بھی عیسائی باقی نہ رہے۔ آپ کس لئے آئی ہیں؟"
"میرے عزیز سلطان، میں بحث کے لئے نہیں آئی ایک درخواست ہے کہ گائی آف لوزینان کو رہا کر دو"
سلطان ایوبی نے کہا "میں جانتا ہوں آپ اس کے بعد میرے پاس نہیں آئیں گی، میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں آپ اس خطے سے بھی چلی جائیں گی، آپ جب کبھی اس خطے کا رخ کریں گی تو بحیرہ روم کا پانی آپ کے جہازوں کے لئے ابلتا ہوا سمندر بن جائے گا"
ملکہ سبیلا نے کہا "آپکی فوج زیادہ بہتر ہے ہماری فوج کی قیادت ناقص ہے"
سلطان ایوبی نے کہا "حقیقت سے چشم پوشی نہ کرو ملکہ، اپنے آپ کو دھوکہ نہ دو خود فریبی شکست کی علامت ہے، میری فوج کبھی بھی صلیب کی فوج سے زیادہ نہیں ہوئی، کبھی بہتر بھی نہیں ہوئی، میری فوج کوکبھی زرہ نصیب نہیں ہوئی، میرے سالاروں کو ایسی حسین لڑکیاں کبھی نہیں ملیں جو آپکے سالاروں کے خیموں میں رہتی ہیں، میری فوج کا اسلحہ اپ سے بہتر نہیں، البتہ راز کی بات بتا دیتا ہوں میری فوج کے پاس ایک قوت ہے جس سے آپکی فوج محروم ہے، اسے ہم 'ایمان اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں'۔
آپ کی آنکھوں پر شہنشاہیت کی پٹی بندھی ہے، آپ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کریں گی کہ آپکو اس پر بھی ناز ہے کہ آپ ایک عورت ہیں اور حسین عورت ہیں۔ میں یہ کہہ کر اپکو خوش کر سکتا ہوں کہ آپ واقعی حسین ہیں لیکن یہ کہہ کر آپکو مایوس کر دوں گا کہ میں کوئی فیصلہ آپکے حسن سے متاثر ہو کر نہیں کروں گا اور نہ ہی آپ کا یہ نیم عریاں جسم مجھے صراط مستقیم سے ہٹا سکتا ہے"

Friday, June 17, 2016

اپنی قیمت کا اندازہ لگائیے

ايک چھوٹا سا لڑكا دوكان ميں داخل ہوكر كونے ميں لگے ٹيليفون كيبن كی طرف بڑھا۔
ٹيليفون ميں سكے ڈالنا تو اُس كيلئے ايک اچھا خاصا مسئلہ تھا ہی، بات كرنے كيلئے تو اُسے باقاعده سٹول پر كھڑا ہی ہونا پڑا۔

......دوكاندار كيلئے يہ منظر كافی تعجب خیز تھا، اُس سے رہا نہ گيا اور لڑكے كی گفتگو سننے كيلئے اس نے اپنے كان اُدھر لگا ديئے۔

لڑكا کسی عورت سے مخاطب تھا اور اس سے کہہ رہا تھا: “ميڈم، آپ مجھے اپنے باغيچے كی صفائی ستھرائی اور ديكھ بھال كيلئے ملازم ركھ لیجئے”.

جبکہ عورت كا جواب تھاكہ”فی الحال تو اُس كے پاس اس كام كيلئے ايک ملازم ہے”.

لڑكے نے اِصرار كرتے ہوئے اُس عورت سے كہا كہ “ميڈم! ميں آپكا كام آپكے موجوده ملازم سے آدھی اُجرت پر كرنے كيلئے تيار ہوں”۔

اُس عورت نے جواب دیا كہ وه اپنے ملازم سے بالكل راضی ہے اور كسی قيمت پر بھی اُسے تبديل نہيں كرنا چاہتی”۔

اب لڑكا باقاعده التجاء پر ہی اُتر آيا اور عاجزی سے بولا كہ: “ميڈم، ميں باغيچے كے كام كے علاوہ آپکے گھر كے سامنے والی گزرگاہ اور فٹ پاتھ كی بھی صفائی کرونگا اور آپكے باغيچے كو فلوريڈا پام بيچ كا سب سے خوبصورت باغيچہ بنا دونگا”.

اور اِس بار بھی اُس عورت كا جواب نفی ميں تھا۔ لڑكے كے چہرے پر ايک مسكراہٹ آئی اور اُس نے فون بند كر ديا۔

دوكاندار جو يہ ساری گفتگو سن رہا تھا اُس سے رہا نہ گیا اور وہ لڑكے كی طرف بڑھا اور اُس سے كہا: ميں تمہارى اعلٰی ہمتی کی داد ديتاہوں، اور تمہاری لگن، مثبت سوچوں اور اُمنگوں كا احترام كرتا ہوں، ميں چاہتا ہوں كہ تم ميری اس دوكان پر كام كرو”

لڑكے نے دوكاندار كو كہا:”آپ كی پیشکش كا بہت شكريہ ، مگر مجھے كام نہيں چاہيئے، ميں تو صرف اِس بات كی تصديق كرنا چاہ رہا تھا كہ ميں آجكل جو كام كر رہا ہوں كيا اُس كا معيار قابلِ قبول بھی ہے يا نہيں؟

اور ميں اِسی عورت كے پاس ہی ملازم ہوں جِس كے ساتھ ميں ٹيليفون پر گفتگو كر رہا تھا”

اگر آپكو اپنے كام كے معيار پر بھروسہ ہے تو پھر اُٹھائيے ٹيليفون اور پركھيئے اپنے آپكو!

گدھا ابن گدھا

گدھا اِبنِ گدھا

ايک دفع كا ذكر ہے كہ عربوں كے ايک اصطبل ميں بہت سے گدھے رہتے تھے ، اچانک كيا ہوا كہ ايک نوجوان گدھے نے كھانا پينا چھوڑ ديا، بھوک اور فاقوں سے اسكا جسم لاغر و كمزور ہوتا گيا، كمزوری سے تو بيچارے كے كان بھی لٹک كر رہ گئے۔ گدھے كا باپ اپنے گدھے بيٹے كی روز بروز گرتی ہوئی صحت كو ديكھ رہا تھا۔

ايک دن اس سے رہا نہ گيا اس نے اپنے گدھے بيٹے سے اسكی گرتی صحت اور ذہنی و نفسياتی پريشانيوں كا سبب جاننے كيلئے تنہائی ميں بلا كر پوچھا، بيٹے كيا بات ہے، ہمارے اصطبل ميں تو اعلٰی قسم كی جو كھانے كيلئے دستياب ہيں، مگر تم ہو كہ فاقوں پر ہی آمادہ ہو، تمہيں ايسا كونسا روگ لگ گيا ہے، آخر مجھے بھی تو كچھ تو بتاؤ، کسی نے تيرا دل دكھایا ہے يا كوئی تكليف پونہچائی ہے؟

گدھے بيٹے نے اپنا سر اُٹھایا اور ڈبڈباتی آنكھوں سے اپنے گدھے باپ كو ديكھتے ہوئے كہا ، ہاں اے والدِ محترم، ان انسانوں نے تو ميرا دل ہی توڑ كر ركھ ديا ہے۔

كيوں! ايسا كيا كيا ہے ان انسانوں نے تيرے ساتھ؟

"يہ انسان ہم گدھوں كا تمسخر اڑاتے ہيں".

"وہ كيسے؟" باپ نے حيرت سے پوچھا۔

بيٹے نے جواب ديا: كيا آپ نہيں ديكھتے كسطرح بلا سبب ہم پر ڈنڈے برساتے ہيں، اور جب خود انہی ميں سے كوئی شرمناک حركت كرے تو اسے گدھا كہہ كر مخاطب كرتے ہيں. كيا ہم ايسے ہيں؟

اور جب ان انسانوں كی اولاد ميں سے كوئی گھٹیا حركت كرے تو اسے گدھے سے تشبيہ ديتے ہيں۔

اپنے انسانوں ميں سے جاہل ترين لوگوں كو گدھا شمار كرتے ہيں، اے والد محترم كيا ہم ايسے ہيں؟

ہم ہيں كہ بغير سستی اور كاہلی كے ان كيلئے كام كرتے ہيں، ہم ان سب باتوں كو خوب سمجھتے اور جانتے ہيں، ہمارے بھی كچھ احساسات ہيں آخر!

گدھا باپ خاموشی سے اپنے گدھے بيٹے كی ان جذباتی اور حقائق پر مبنی باتوں كو سنتا رہا، اس سے كوئی جواب نہيں بن پا رہا تھا، وہ جانتا تھا كہ اسكا بيٹا اس كم عمری ميں كيسی اذيت ناک سوچوں سے گزر رہا ہے، اسے يہ بھی علم تھا كہ صرف كھڑے كھڑے كانوں كو دائيں بائيں ہلاتے رہنے سے بات نہيں بنے گی، بيٹے كو اس ذہنی دباؤ اور پريشانی سے نكالنے كيلئے كچھ نہ كچھ جواب تو دينا ہی پڑے گا.

لمبی سی ايک سانس چھوڑتے ہوئے اس نے كہنا شروع كيا كہ اے ميرے بيٹے سن: يہ وہ انسان ہيں جنكو اللہ تعالٰی نے پيدا فرما كر ساری مخلوقات پر فوقيت دی ، ليكن انہوں نے ناشكری كی، انہوں نے اپنے بنی نوع انسانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے ہيں وہ ہم گدھوں پر ڈھائے جانے والےظلم و ستم سے ہزار ہا گنا زياده ہيں. مثال كے طور پر يہ ديكھو:

كبھی تو نے ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گڈھا اپنے گڈھے بھائی كا مال و متاع چُراتا ہو؟

يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كسی گدھے نے اپنے ہمسائے گدھے پر شبخون مارا ہو؟

يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنے ہم جنس گدھے كی پيٹھ پيچھے غيبت يا برائياں كرتا ہو؟

يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنے گدھے بھائی يا اُسكے كسی بچے سے گالم گلوچ كر رہا ہو؟

يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنی بيوی اور بچوں كی مار كٹائی كرتا ہو؟

يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ گدھوں كی بيوياں يا بيٹے اور بيٹياں سڑكوں پر يا كيفے وغيره پر فضول وقت گزاری كرتے ہوں؟

يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھی يا گدھا كسی اجنبی گدھے كو دھوکہ دينے يا لوٹنے كی كوشش كر رہے ہوں؟

يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ امريكی گدھے عرب گدھوں كو قتل كرنے كی منصوبہ بندی كر رہے ہوں اور وہ بھی صرف اسلئے كہ ان كے جو حاصل كر سكيں؟

يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ گدھوں كا كوئی گروہ آپس ميں محض جو كے چند دانوں كيلئے باہم دست و گريبان ہو جس طرح يہ انسان آٹا اور چينی كی لائنوں ميں باہم دست و گريبان نظر آتے ہيں۔

يقيناً تو نے يہ انسانی جرائم ہم گدھوں ميں كبھی نہ ديكھے اور نہ سنے ہونگے، جبكہ انسانی جرائم كی فہرست تو اتنی طويل ہے كہ بتاتے ہوئے بھی كليجہ منہ كو آتا ہے۔

يقين كرو يہ انسان جو كچھ مار پيٹ اور پر تشدد برتاؤ ہمارے ساتھ روا ركھتے ہيں وہ محض ہمارے ساتھ حسد اور جلن كی وجہ سے ہے كيونكہ يہ جانتے ہيں كہ ہم گدھے ان سے كہيں بہتر ہيں، اور اسی لئے تو يہ ايک دوسرے كو ہمارا نام پكار كر گالياں ديتے ہيں. جبكہ حقيقت يہ ہے كہ ہم ميں سے كمترين گدھا بھی ايسے كسی فعل ميں ملوث نہيں پايا گيا جس ميں يہ حضرت انسان مبتلا ہيں.

بيٹے يہ ميرى تجھ سے التجا ہے كہ اپنے دل و دماغ كو قابو ميں ركھ، اپنے سر كو فخر سے اُٹھا كر چل، اس عہد كے ساتھ كہ تو ايک گدھا اور ابن گدھا ہے اور ہميشہ گدھا ہی رہے گا۔

ان انسانوں كی كسی بات پر دھیان نہ دے، يہ جو كہتے ہيں كہا كريں، ہمارے لئے تو اتنا فخر ہی كافی ہے كہ ہم گدھے ہو كر بھی نہ كبھی قتل و غارت كرتے ہيں اور نہ ہی كوئی چورى چكاری، غيبت، گالم گلوچ، خيانت، دھشت گردى يا آبروريزی۔

گدھے بيٹے كو يہ باتيں اثر كر گئيں، اس نے اُٹھ كر جو كے برتن ميں منہ مارتے ہوئے كہا كہ اے والد، ميں تيرے ساتھ اِس بات كا عہد كرتا ہوں كہ ميں ہميشہ گدھا اِبنِ گدھا رہنے ميں ہی فخر اور اپنی عزت جانوں گا۔

Thursday, June 16, 2016

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی آنا چاہتا ہوں 

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی آنا چاہتا ہوں 

۵۳ھ کا پر آشوب زمانہ ہے۔ باغیوں نے خلیفتہ المسلمین حضرت عثمان غنیؓ کے مکان کا محاصرہ کر لیا ہے۔ کسی شخص کو اندر جانے یا کھانے پینے کی کوئی چیز پہنچانے کی اجازت نہیں۔ لیکن مشہور صحابی حضرت عبد اللہ ؓ بن سلام کسی تدبیر سے امیر المﺅمنینؓ کی خدمت میں پہنچ جاتے ہیں اور اس بات پر اظہار افسو س کرتے ہیں۔ لیکن پھر فرماتے ہیں۔ میں نے آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریچے میں نمودار ہوئے اور فرمایا عثمانؓ! ان لوگوں نے ہمیں محصور کر لیا ہے؟ میں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ ! فرمایا: اگر تم چاہو تو تمہاری امداد کا بندوبست کیا جائے، ورنہ ہمارے پاس آکر افطار کرو، میں نے کہا یا رسو ل اللہ! میں تو آپ کے پاس ہی آنا چاہتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول لٹکایا۔ میں نے اس میں سے پیا اور اس کی ٹھنڈک میں اپنے دونوں شانوں کے درمیان اور سینے میں اب تک محسوس کر رہا ہوں۔حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو امیر المﺅمنین رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ کو پا جامہ لانے کا حکم دیا جو اب تک زیب بدن نہیں کیا تھا اور پہن کر قران مجید کی تلاوت میں مصروف ہو گئے۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد باغی دیوار پھاند کر اندر آئے اور آپؓ کو شہید کر دیا یہ عصر کا وقت اور جمعہ کا دن تھا۔

Wednesday, June 15, 2016

باپ کا مال

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نے آپ بیتی میں اپنا ایک قصہ لکھا ہے کہ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو ماں باپ نے میرے لئے ایک چھوٹا سا تکیہ بنادیا تھا جیساکہ عام طور پر بچوں کے لئے بنایا جاتا ہے، مجھے اس تکیے سے بڑی محبت تھی اور ہر وقت میں اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔

ایک دن میرے والد صاحب لیٹنا چاہ رہے تھے۔ ان کو تکیے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ ابا جی! میرا تکیہ لے لیجئے۔ یہ کہہ کر میں نے اپنا تکیہ ان کو اس طرح پیش کیا جیساکہ میں نے اپنا دل نکال کر اپنے باپ کو دے دیا، لیکن جس وقت وہ تکیہ میں نے ان کو پیش کیا، اسی وقت والد صاحب نے مجھے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ ”ابھی سے تو اس تکیے کو اپنا تکیہ کہتا ہے“ مقصد یہ تھا کہ تکیہ تو دراصل باپ کا دیا ہوا ہے، لہٰذا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یا اپنا قرار دینا غلط ہے۔ حضرت شیخ الحدیث لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے بہت برا لگا کہ میں نے تو اپنا دل نکال کر والد صاحب کو دیا تھا۔ اس کے جواب میں ابا جان نے ایک تھپڑرسید کردیا لیکن آج سمجھ میں آیا کہ کتنی باریک بات پر اس وقت والد صاحب نے توجہ دلائی تھی اور اس کے بعد سے ذہن کی سوچ بدل گئی۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ذریعے دی ہیں تو وہ ہم اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر بھی خرچ کریں، غریب بچوں پر بھی خرچ کریں، گھر میں کام کرنے والی نوکرانیوں کے بچوں کو بھی دیں۔ مثلاً ابو کوئی چیز لائے اور لاتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ چیز سب میں تقسیم ہو تو ایک حصہ نوکرانیوں کے بچوں کو بھی دیں اور اس تقسیم میں ہم کنجوسی نہ کریں اور دل کھول کر خرچ کریں۔

فقط ایک بسم اللہ ۔

*** ايک مرتبہ حضرت عيسي عليہ السلام کا گذر ايک قبر پر ہوا جس ميں ميت کو عذاب ديا جارہا تھا، دوبارہ وہاں سے گذر ہو اتو ديکھا کہ قبر ميں رحمت کے فرشتے ہیں، عذاب کي تاريکي کے بجائے وہاں اب مغفرت کا نور ہے۔ 


آپ کو تعجب ہوا اللہ تعالي سے اس مسئلہ کا حل کرنے کي دعا کي تو اللہ تعالي نے ان کي طرف وحي بھیجی کہ يہ بندہ گنہگار تھا، جس کي وجہ سے عذاب ميں مبتلا تھا، اس کا بچہ مکتب ميں داخل کرديا گيا، استاد نے اسے پہلے دن بسم اللہ الرحمان الرحيم پڑھائي تب مجھے اپنے بندے سے حيا آئي کہ ميں زمين کے اندر اسے عذاب ديتا ہوں جبکہ اسکا بيٹا زمين کے اوپر مير انام ليتا ہے۔


*** بادشاہ روم قيصر نے حضرت عمر فاروق رضي اللہ عنہ کي طرف ايک خط ميں لکھا کہ ميرے سر ميں درد رہتا ہے، کوئي علاج بتائیں۔ 
حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے اس کے پاس ٹوپي بھیجی کہ اسے سر پر رکھا کرو، سر کا درد جاتا رہے گا۔ 
چنانچہ قيصر جب وہ ٹوپي سر پر رکھتا تو درد ختم ہو جاتا اور جب اتارتا تو درد دوبارہ لوٹ آتا۔ 
اسے بڑا تعجب ہوا، تجسس سے ٹوپي چيري تو اس کے اندر ايک رقعہ پايا جس پر بسم اللہ الرحمان الرحيم تحرير تھا۔ 
يہ بات قيصر روم کے بادشاہ کے دل ميں گھر کر گئي، کہنے لگا دين اسلام کس قدر معزز اس کي تو ايک آيت بھی باعث شفا ہے، پورا دين باعث نجات کيوں نہ ہوگا اور اسلام قبول کرليا۔ 

امام احمد بن حنبل کو حوصلہ دینے والا

امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ مشہور بزرگ گزرے ہیں، يہ اپنے وقت کے امام تھے، کسي بات پر(مسئلہ خلق قرآن میں) بادشاہ وقت ان سے ناراض ہو گيا اور ضد میں آکر ان کو کوڑے لگوائے۔

امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ کو کوڑے مارنے کا واقعہ تاريخ اسلام کے مشہور واقعات ميں سے ہے، امام رحمہ اللہ اس آزمائش ميں کامياب ہوئے تو بعد ميں کبھي کبھي فرماتے:
اللہ ابوا الہيثم پر رحم فرمائيں ، اللہ اس کي مغفرت فرمائيں، اللہ اس سے در گزر فرمائيں، ان کے بيٹے نے ان سے پوچھا کہ يہ ابوا الہيثم کون ہيں جن کيلئے آپ دعا کرتے رھتے ہيں؟
فرمايا آپ اسے نہيں جانتے ہيں؟
کھا  : نہيں۔
فرمايا جس دن مجھے کوڑے مارنے کيلئے نکالا گيا تھا تو ميں نے ديکھا کے پيچھے سے ايک آدمي ميرے کپڑے کھينچ رھا ہے، ميں نے م کر ديکھا۔
تو اس نے پوچھا آپ مجھے جانتے ہيں؟
ميں نے کہا نہيں۔
کہنے لگا ميں مشہورجيب تراش اور ڈاکو ابوالہيثم ہوں، سرکاري ريکارڈ ميں يہ بات محفوظ ہے کہ مجھے اب تک اٹھاراہ ہزار کوڑے مارے گئے ہيں، ليکن ميں نے حقير دنيا کي خاطر اور شيطان کي اطاعت پر پوري استقامت کا مظاہرہ کيا، یہ کوڑے مجھے اپنے گناہ سے نہ روک سکے۔ آپ تو دين کے ايک بلند ترين مقصد کيلئے قيد ھوئے ہيں، اس لئے کوڑے کھاتے ھوئے رحمن کي اطاعت پر صبر واستقامت سےکام ليجيئے گا۔
اس کي بات سے امام احمد کا حوصلہ مضبوط ھوا، معلوم نہيں ابوا الہيثم کو اپنا يہ جملہ بعد ميں ياد بھي رھا تھا کہ نہيں ، ليکن امام احدم کو ياد رہا کہ زندگي کي ايک کھٹن منزل ميں کسي کے جملے سے حوصلہ ملا تھا۔
مرد مومن کي شان يہي ہوتي ہے  ، وہ احسان اور نيکي فراموش نہيں کرتا۔ وہ احسان اور نيکي کو ہميشہ ياد رکھتا ہے، امام کو زندگي بھر جب کبھي ماضي کے وہ لمحات ياد آتے تو دعائوں کے پھول لے کر يادوں کے مزار پر نچھاور کرليتے۔

تیرا جہل میرے علم سے بہتر

ماہ رمضان میں حجاج کہیں جارہا تھا اور بے روزہ تھا۔ دوپہر کا کھاناآیا توکہا۔ اگر کوئی مسافر یہاں موجود ہے تو اسے بلا لاو۔ اس کے ملازم ایک بدو کو پکڑ کر لے آئے۔

حجاج نے اسے کھانے کی دعوت دی تو وہ کہنے لگا کہ میں آج اللہ کی دعوت سے لطف اندوز ہورہا ہوں یعنی اس نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی اور میں نے قبول کرلی۔
حجاج: ”لیکن آج کا دن تو سخت گرم ہے۔“
بدو:”اتنا گرم نہیں جتنا یوم محشر“
حجاج: ”تم آج افطار کرکے عید کے بعد گنتی پوری کرسکتے ہو۔
بدو: ”کیا آپ ضمانت دے سکتے ہیں کہ میں عید کے بعد تک زندہ رہوں گا۔“
حجاج: ”اللہ تمہیں سلامت رکھے تمہاری لاعلمی میرے علم سے ہزار درجے بہتر ہے۔

Friday, June 3, 2016

فتح قسطنطنیہ


فتح قسطنطنیہ  (بلاد روم/ استنبول) تاریخی اسلام کا ایک درخشاں باب ہے۔ یہ شہر 29 مئی 1453 عیسوی میں 21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح نے 54 روزہ محاصرے کے بعد فتح کیا تو پورے عالم اسلام میں فرحت و انبساط کی ایک لہر دوڑ گئی، عثمانیوں کے عزت و احترم میں زبردست اضافہ ہوا اور محمد دوئم ایک بہادر اور جہاندیدہ رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ اس جوش و خروش کی بنیادی وجہ شہر سے متعلق سرکارِ دو عالم ﷺ کی متعدد احادیث اور بشارتیں تھیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو بلاد روم پر حملہ کرے گا، بخشا بخشایا ہے۔
فرمایا کہ میری امت یہ شہر ضرور فتح کرے گی۔
فرمایا مجھے خواب میں دیکھایا گیا کہ میری امت کے کچھ لوگ یہ شہر فتح کررہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین سے لیکر عثمانی ترکوں تک مسلمان ایک ہزار سال تک اس شہر کو فتح کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ سلطان محمد دوئم کی قسمت کے ستارا جاگا اور فاتح کا لقب ہمیشہ کے لئے انکے نام کے ساتھ منسوب ہوگیا۔ اس شہر پر سب سے پہلا حملہ 669 عیسوی میں امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ و تعالی عنہ کے دور میں ہوا۔ آپ نے ایک لشکر جری تیار کرکے شہر کی طرف روانہ کیا جس میں سیدنا حسین (رض)، ابو ایوب انصاری (رض) اور یزید ابن معاویہ سمیت ہزاروں اصحاب رسول ﷺ اور تابعین نے شرکت کی۔ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا لیکن شہر کی مظبوط فصیل صحابہ کرام اور شہر کے درمیان حائل رہی۔ ناکامی کے باوجود مختلف ادوار میں کوششیں جاری رہیں۔  1402 عیسوی میں ترک سلطان بایزید یلدرم نے شہر کا محاصرہ کیا اور قریب تھا کہ وہ شہر میں داخل ہوجاتے لیکن مشرقی سرحد پر تیمور لنگ کے حملوں کی وجہ سے انہیں محاصرہ اٹھا کر واپس آنا پڑا۔

بایزید یلدرم کے پر پوتے اور سلطان مراد اول کے بیٹے سلطان محمد دوئم 19 برس کی کم عمری میں تخت نشین ہوئے تو جہاں انہیں اندرونی خلفشار کا سامنا تھا وہی بازنطینی حکمران بھی انکے گرد سازشوں کے جال بن رہی تھے۔ ان کٹھن اور نامساعد حالات میں انہوں نے فتح قسطنطنیہ کو اپنا مقصد حیات بنالیا اور اپنی حکومت کے پہلے دو سال فتح کی منصوبہ بندی میں صرف کردئے۔ غیر تو غیر، انکے اپنے مشیر اور اعلی حکومتی عہدیدار بھی ان ارادوں اور منصوبوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے، لیکن سلطان جوان تھے اور جنون اپنی انتہا پر تھا۔ انہوں نے باضابطہ محاصرے سے قبل آبنائے باسفورس کے دوسری طرف ایک حصار بناکر بازنطین کی تجارت روک دی اور توپوں کاایک بڑا کارخانہ لگا کر ماہر کاریگر اوربن سے اس زمانے کے سب سے طاقتور توپ تیار کروائیں۔

منصوبے کے مطابق 29 اپریل 1453 عیسوی کی صبح شہر کا محاصر کیا گیا لیکن ابنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج “شاخ زریں” کے دہانے پر بازنطینی افواج نے ایک زنجیر لگا دی، جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز شہر کی فصیل کے کمزور حصے کے قریب نہیں جاسکتی تھیں۔ یوں شہر پر تمام ابتدائی حملے بری طرح ناکام ثابت ہوئے اور ترک افواج کو زبردست جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب جیسے جیسے محاصرا طویل ہوتا جارہا تھا، شہر والوں کے لئے یورپ سے امداد کے امکانات بھی بڑھتے جارہے تھے۔

کہتے ہیں کہ مایوسی کی اس صورتحال میں سلطان اور انکے شیخ کو خواب میں بشارتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور فصیل کے قریب جلیل القدر صحابی حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کی قبر مبارک ظاہر ہوگئی۔ ابو ایوب انصاری ہزار سال قبل شہر کے پہلے محاصرے کے دوران شہید ہوگئے تھے۔ ان واقعات نے سلطان کے جذبوں کو دوبارہ جوان کردیا۔ اس نے جہاں شہر کے دوسری جانب غلطہ کےعلاقے سے بحری جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر انہیں شاخ زریں میں اتارنے کا کارنامہ انجام دیا تو وہیں زیرزمین سرنگ بناکر دیوار کے قریب بارودی مواد نصب کروادئے۔ یوں دیوار گرگئی اور ساتھ ہی بازنطینی رومی سلطنت بھی۔

چشم تصور میں لائیں کہ ترک جانثار، آغا، پاشا، علماء اور سب سے آگے سلطان محمد فاتح شہر میں داخل ہورہے ہیں۔ واللہ وہ لمحہ کتنا خوبصورت ہوگا۔ آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نظارہ کناں ہیں، یہ سوچ کر ترکوں کی جان نکلی جاتی ہوگی۔ سلطان نے شہر میں داخل ہوکر آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیا جسکی وجہ جہاں شاہ قسطنطین کی طرف معاہدے کی پیشکش کا انکار تھا وہیں دو صدیاں قبل اندلس میں درجنوں مساجد کو امان کے معاہدوں کے باوجود کلیسا میں تبدیل کرنے کے اقدامات بھی تھے۔ ارتھوڈکس کلیسا کو برقرار رکھا گیا اور سرکاری خزانے سے دوران محاصرہ عیسائیوں اور یہودیوں کے تباہ ہونے والے گھروں اور عبادت گاہوں کی تعمیر نو بھی کی گئی۔

سلطان محمد فاتح نے اپنے تیس سالہ دور حکومت میں فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور آگے بڑھتے ہوئے سربیہ، بوسنیہ اور یونان کے مختلف علاقوں کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کرلیا۔ وہ ترک، عربی، فارسی، عبرانی، یونانی اور لاطینی پر زبانوں پر مکمل عبور رکھتے اور کئی زبانوں میں شاعری کرتے۔ انہیں ریاضی، فلکیات اور فلسفے کے علم میں بھی گہری دلچسپی تھی۔

یورپی مورخین فتح قسطنطنیہ کو” قرون وسطی ” کے خاتمے اور جدید تاریخ کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس فتح کے ساتھ ہی مسلمان دنیا جمود کا شکار ہوگئی۔ دوسری طرف یورپ نے اس بدترین شکست سے نصیحت پکڑی اورانکی آئندہ پانچ صدیاں نشاۃ ثانیہ کے عنوان سے ماخوذ ہوگئیں۔

اقبال نے اس فتح کو کچھ یوں یاد کیا

خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدئ امت کی سطوت کا نشانِ پائیدار
صورتِ خاکِ حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستان مسند آرائے شہِ لولاک ہے
نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں! ملتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر

وہ زمیں ہے تو مگر اے خواب گاہِ مصطفی
دید ہے کعبے کو تیری حجِ اکبر سے سوا
خاتمِ ہستی میں تو تاباں ہے مانندِ نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
تجھ میں راحت اس شہنشاہِ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی
نام لیوا جس کے شاہنشاہِ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے ، وارث مسندِ جم کے ہوئے