Thursday, April 28, 2016

خوشی خوشی زندگی گذار دینا بھی ایک عظیم کارنامہ حیات ہے


در محفل خود راہ مدہ همچو منے را
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را 
۔۔۔۔۔ 

لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی، یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مر جائیے اور اس سے زیادہ مشکل کوئی کام نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی، اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا: 

غالبا قدیم چینیوں نے زندگی کے مسئلہ کو دوسری قوموں سے بہتر سمجھا تھا۔ ایک پرانے چینی مقولے میں سوال کیا گیا ہے "سب سے زیادہ دانش مند آدمی کون ہے؟،، پھر جواب دیا ہے "جو سب سے زیادہ خوش رہتا ہے"۔ 
اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے تو یقین کیجیے کہ زندگی کا سب سے بڑآ کام سیکھ لیا۔ اب اس کے بعد اس سوال کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ آپ نے اور کیا کیا سیکھا؟ خود بھی خوش رہیے اور دوسروں سے بھی کہتے رہیے کہ اپنے چہروں کو غمگین نہ بنائیں۔ 
زمانہ حال کے ایک فرانسیسی اہلِ قلم آندری ژید کی ایک بات مجھے بہت پسند آئی جو اُس نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھی ہے۔ خوش رہنا محض ایک طبعی احتیاج ہی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔۔ یعنی ہماری انفرادی زندگی کی نوعیت کا اثر صرف ہم ہی تک محدود نہیں رہتا، دوسروں کو بھی متعدی ہوتا ہے، یا یوں کہیے کہ ہماری ہر حالت کی چھوت دوسروں کو بھی لگتی ہے۔ اس لیے ہمارا اخلاقی فرض ہوا کہ خود افسردہ خاطر ہو کر دوسروں کو افسردہ خاطر نہ بنائیں 

در محفل خود راہ مدہ همچو منے را
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را 
۔۔۔۔۔ 
غبارِ خاطر سے اقتباس صفحہ نمبر 97 ، 98

Monday, April 25, 2016

مولانا شبلی نعمانی اور طبلچی

عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی کتاب "ذکرِ آزاد"، جو مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ گزرے ہوئے انکے اڑتیس برسوں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، میں مولانا شبلی نعمانی کا ایک دلچسپ واقعہ مولانا آزاد کی زبانی بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

"علامہ شبلی نعمانی

جیل میں ایک دن مولانا [ابوالکلام آزاد] نے مرحوم شبلی نعمانی کے متعلق ایک دلچسپ لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے، مولانا شبلی نہایت زندہ دل صاحبِ ذوق آدمی تھے، حسن پرست بھی تھے اور موسیقی وغیرہ فنونِ لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے مگر مولوی تھے، عام رائے سے ڈرتے تھے اور بڑی احتیاط سے اپنا ذوق پورا کرتے تھے۔

ایک دفعہ موصوف دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ خواجہ حسن نظامی ملنے آئے اور کہنے لگے، آج میرے ہاں قوالی ہے، دہلی کی ایک مشہور طوائف۔۔۔۔(میں نام بھول گیا ہوں) گائے گی۔ محفل بالکل خاص ہے،میرے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا۔

مولانا شبلی نے دعوت قبول کر لی، کشمیری شال اوڑھی، وضع بدلی، بند گاڑی میں بیٹھے اور خواجہ صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔ واقعی کوئی تیسرا آدمی مدعو نہ تھا، قوالی شروع ہوئی اور مولانا نے اپنے آپ کو محتسبوں سے محفوظ پا کر ضرورت سے زیادہ آزادی سے کام لیا۔ دل کھول کر گانے کی اور گانے والی کی تعریف کی۔ طوائف سے ہنستے بھی رہے اور اسے چھیڑتے بھی رہے۔

طوائف کا طبلچی ایک لحیم شحیم سن رسیدہ آدمی تھا۔ سر پر پٹے تھے اور منہ پر چوکور بڑی سی داڑھی، پٹے اور داڑھی خضاب سے بھونرا ہو رہے تھے۔ محفل جب برخاست ہونے لگی تو طبلچی دونوں ہاتھ بڑھائے مولانا کی طرف لپکا اور بڑے جوش سے مولانا کے ہاتھ پکڑ لیے، چومے، آنکھوں سے لگائے اور جوش سے کہنے لگا، "کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں کہ عمر بھر کی آرزو آج پوری ہوئی، مولانا سبحان اللہ، ماشاءاللہ، آپ نے "الفاروق" لکھ کر وہ کام کیا ہے جو نہ کسی سے ہوا نہ ہو سکے گا۔ بخدا آپ نے قلم توڑ دیا ہے، بندے کی کتنی تمنا تھی کہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہو، سو آج بائی جی اور خواجہ صاحب کی بدولت یہ سعادت اس گنہگار کو نصیب ہوگئی۔"

مولانا آزاد نے فرمایا، علامہ شبلی بڑے ذکی الحس تھے، اس غیر متوقع واقعہ نے انکی ساری خوشی کرکری کر دی۔ شرم سے عرق عرق ہو گئے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں؟ طبلچی کو کیا جواب دیں؟ کس طرح محفل سے غائب ہو جائیں؟ بے جان بت کی طرح بیٹھے رہ گئے۔ خواجہ صاحب نے موقع کی نزاکت محسوس کی اور طائفے کو رخصت کر دیا مگر علامہ کو سخت ذہنی صدمہ پہنچ چکا تھا، ہفتوں شگفتہ نہ ہو سکے۔

مولانا نے فرمایا، یہ واقعہ خود علامہ شبلی نے ان سے بیان کیا تھا۔ بیان کرتے وقت بھی متاثر تھے اور بار بار کہتے تھے، کاش "الفاروق" میرے قلم سے نہ نکلی ہوتی اور نکلی تھی تو اسے پڑھنے والا طبلچی اس قوالی سے پہلے ہی ناپید ہو چکا ہوتا، یہ نہیں تو مجھے موت آ گئی ہوتی کہ اس ذلت سے بچ جاتا۔"

(اقتباس از ذکرِ آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی)

بیٹا اور باپ .. مال اور محبت پدری

بیٹا اور باپ .. مال اور محبت پدری

ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ! ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ نہیں  ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﻝ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ہے
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﻼؤ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ.
ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ہے ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﺠﯿﺪﮦ ہوﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻠﮯ...

ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺗﮭﯽ.. ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ کچھ  ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﺟﮭﻮﻧﮑﮯ ﮐﯽﻃﺮﺡ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ.

ﺍﺩﮬﺮ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﺍﺋﻞ علیہ السلام  ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ہوﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭ ﺗﻌﺎﻟﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ہے ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ مسئلہ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺌﯿﮯ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮﮮﺁ ﺭﮨﮯ ہیں.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮮ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧﺁﭖ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﻌﺪ میں ﺳﻨﺎ ﺟﺎئیگا ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﺳﻮﭼﺘﮯ ہوﮮ ﺁﺋﮯ ہیں.

ﻭﮦ ﻣﺨﻠﺺ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺗﮭﮯ
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﮯﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ہوﮮ ﻣﯿﺮﮮﮐﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﮯ ﺁﭖ کے ﺭﺏ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﻦ لئے اور آپ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ کو بتا بهی دیا. ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻨﺎﺋﯿﮟ.
ﺍﻥ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﻧﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ کئے

‏( ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ‏)

ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ! ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﭘﯿﺪﺍ ہوﺍ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﻤﺒﺨﺘﯽ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﺒﮭﯽ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ہوﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ، ﺗﻮ ﺭﻭﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، ﮨﻢ ﺳﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ.ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﮨﻢ ﮐﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ.
ﺗﻮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ہو ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻃﺒﯿﺐﮐﮯ ﭘﺎﺱ ،ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺩﻡ کرنے ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ،ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ. حالانکہ ﻣﻮﺕ ﺍﻟﮓ ﭼﯿﺰ ہے ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺍﻟﮓ ﭼﯿﺰ ہے.
ﭘﮭﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﮔﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﭼﮭﺎؤﮞ ﻣﻞ ﺟﺎئے
ﭨﮭﻨﮉ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺗﻮﮌﮮ ، ﺗﻐﺎﺭﯾﺎﮞ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮔﺮمی ﻣﻞ ﺟﺎئے
ﺟﻮ ﮐﻤﺎﯾﺎ ﺗﯿﺮﮮ لئے
ﺟﻮ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﺗﯿﺮﮮ لئے
ﺗﯿﺮﯼ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ لئے ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻥ ﺭﺍﺕﺍﺗﻨﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺧﺘﮧ ﮨﻮ گئیں
ﭘﮭﺮ

ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺧﺰﺍﮞ ﻧﮯ ﮈﯾﺮﮮ ﺩﺍﻝ ﻟﺌﮯ
ﺗﺠﮫ ﭘﺮ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﮔﺌﯽ
ﻣﯿﮟ ﺟﮭﮏ ﮔﯿﺎ
ﺗﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﺍﺏ ﻣﺠﮯ ﺍﻣﯿﺪ ہوئی
ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﮨﺮﺍ ﺑﮭﺮﺍ ہو ﮔﯿﺎ ہے
ﭼﻞﺍﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﮭﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ
ﮔﺰﺍﺭﻭﮞ ﮔﺎ
ﻣﮕﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﺁﺗﮯ ہی
ﺗﯿﺮﮮ ﺗﯿﻮﺭ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ
ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﺌﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﯿﻨﮧ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﺎ
ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﮧ کوئی ﻧﻮﮐﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﮩﯿﮟﺑﻮﻟﺘﺎ

ﭘﮭﺮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ 30 ﺳﺎﻟﮧ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﻼ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮ ہوں
ﻧﻮﮐﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻮئی ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺩﮮ ﮨﯽ ﺩﯾﺘﺎ ہے
ﺗﻮ ﻧﻮﮐﺮ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﭨﯽ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮ.

ﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﭘﺮ ﭘﮍﮔﺌﯽ

ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺗﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ

ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ فرمایا
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ

أنت ومالك لأبيك‏.‏ 

رواه ابن ماجه عن جابر أن رجلا قال يا رسول الله إن لي مالا وولدا، وإن أبي يريد أن يجتاح مالي، فذكره، 
ورواه عنه الطبراني في الأوسط<صفحة 239> والطحاوي، ورواه البزار عن هشام بن عروة مرسلا وصححه ابن القطان من هذا الوجه، 
وله طرق أخرى عند البيهقي في الدلائل، والطبراني في الأوسط والصغير بسند فيه المكندر ضعفوه عن جابر، قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال‏:‏ يا رسول الله إن أبي أخذ مالي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم اذهب فأتني بأبيك‏:‏ فنزل جبريل على النبي صلى الله عليه وسلم فقال إن الله عز وجل يقرئك السلام، ويقول لك إذا جاءك الشيخ فسله عن شيء قاله في نفسه ما سمعته أذناه، فلما جاء الشيخ قال له النبي صلى الله عليه وسلم ما بال ابنك يشكوك تريد أن تأخذ ماله، قال سله يا رسول الله هل أنفقته إلا على إحدى عماته أو خالاته أو على نفسي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم إيه، دعنا من هذا، أخبرني عن شيء قلته في نفسك ما سمعته أذناك، فقال الشيخ والله يا رسول الله ما يزال الله يزيدنا بك يقينا، لقد قلت في نفسي شيئا ما سمعته أذناي، فقال قل وأنا أسمع، فقال قلت‏:‏ 
غذوتك مولودا، ومنتك يافعا * تُعل بما أجني عليك وتنهل 
إذا ليلة ضافتك بالسقم لم أبت * لسقمك إلا ساهرا أتململ 
كأني أنا المطروق دونك بالذي * طرقت به دوني، فعينيَ تهمل 
تخاف الردى نفسي عليك، وإنها * لتعلم أنَّ الموت وقت مؤجل 
فلما بلغت السن والغاية التي * إليها مدى ما كنت فيك أؤمل 
جعلت جزائي غلظة وفظاظة * كأنك أنت المنعم المتفضل 
فليتك إذا لم ترع حق أبوتي * فعلت كما الجار المجاور يفعل 
تراه معدَّا للخلاف، كأنه * برد على أهل الصواب موَكَل 
ويروى بدل البيت الأخير قوله البيت‏:‏ 
فأوليتنى حق الجوار، فلم تكن * عليّ بمال دون مالك تبخل 
قال فحينئذ أخذ النبي صلى الله عليه وسلم بتلابيب ابنه، وقال أنت ومالك لأبيك، 
وذكر<صفحة 240> في الكشاف في تفسير سورة الإسراء بلفظ شكا رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أباه، وأنه يأخذ ماله، فدعا به فإذا شيخ يتوكأ على عصا فسأله، فقال إنه كان ضعيفا وأنا قوي، وفقير وأنا غني، فكنت لا أمنعه شيئا من مالي، واليوم أنا ضعيف وهو قوي، وأنا فقير وهو غني، وهو يبخل على بماله، فبكى عليه الصلاة والسلام وقال‏:‏ ما من حجر ولا مدر يسمع هذا إلا بكى، ثم قال للولد أنت ومالك لأبيك، وقال مخرجه لم أجده،

Wednesday, April 20, 2016

عورت کے چہرے پر ڈاڑھی

عورت کے چہرے پر ڈاڑھی 
عباسی خلیفہ متوکل کی ایک کنیز بہت خوبصورت تھی خلیفہ اس پر جان دیتا تھا .
ایک دن وہ حمام سے نکلی تو اسے کچھ سستی معلوم ہوئی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر تن گئی لیکن جب ہاتھ نیچے کرنا چاہا تو ایسا نہ کرسکی۔ دونوں ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ گئے۔
خلیفہ کو یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا فوراً اطباءجمع کیے گئے سب نے دیکھ کر یہی کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
وزیر نے عرض کیا کہ کوفے میں ابن صاعد نام کا ایک حاذق طبیب ہے جو اس کا علاج کرسکتا ہے. چنانچہ ابن صاعد کو طلب کیا گیا. اس نے کنیز کی جب یہ حالت دیکھی تو خلیفہ سے کہا کہ یہ اچھی تو ہوجائے گی مگر ایک شرط ہے۔ خلیفہ نے شرط پوچھی تو اس نے کہا کہ میرا ایک شاگرد ہے وہ اس کے پورے بدن پر تیل ملے گا جو میں نے خود تیار کیا ہے۔ خلیفہ نے خفگی سے کہا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میری کنیز کے بدن پر کوئی غیرمرد مالش کرے۔ ابن صاعد نے کہا صرف اسی طریقے سے ہی اس کا علاج ہوسکتا ہے۔ خلیفہ کو مجبوراً یہ شرط منظور کرنا پڑی۔
ابن صاعد کے حکم سے کنیز برہنہ کردی گئی اور دفعتاً اس کے سامنے ابن صاعد کا شاگرد بلایا گیا کنیز نے جب اجنبی مرد کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہوگئی‘ رگوں میں خون نے جوش مارا اور وہ اپنے کپڑوں کی طرف دوڑی اور جلدی سے سترپوشی کی اب اس کے ہاتھ ٹھیک ہوچکے تھے۔ خلیفہ کو بہت خوشی ہوئی اس نے ابن صاعد کو انعام دینے کا حکم دیا مگر ابن صاعد نے کہا کہ میں اس وقت انعام لوں گا جب کہ میرے شاگرد کو بھی انعام دیا جائے گا کیونکہ اصلی انعام کا مستحق وہی ہے۔
خلیفہ کے بلانے پر شاگرد حاضر ہوا اس کی لمبی ڈاڑھی کو دیکھ کر خلیفہ کو تعجب ہوا. مگر اسی وقت ابن صاعد نے آگے بڑھ کر شاگرد کے منہ پر لگی ڈاڑھی کو کھینچ لیا۔ ڈاڑھی الگ ہوگئی خلیفہ نے دیکھا کہ اب اس کے سامنے مرد نہیں عورت کھڑی ہے۔ خلیفہ یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ ابن صاعد نے ایک عورت کے چہرے پر ڈاڑھی لگوا کر اس کی عزت رکھی ہے اور کنیز کو اجنبی مرد کے سامنے نہیں کیا۔ ابن صاعد اور اس عورت کو خلیفہ کی طرف سے بہت سا انعام عطا کیا گیا۔

Tuesday, April 19, 2016

مولانا قاسم نانوتوی کی دوستی


حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سره-------------------------
امیر شاہ خان صاحب مرحوم راوی ہیں کہ جب منشی ممتاز علی کا مطبع میرٹھ میں تھا، اس زمانے میں ان کے مطبع میں مولانا نانوتوی رحمة اللہ علیہ بھی ملازم تھے اور ایک حافظ جی بھی نوکر تھے۔ یہ حافظ جی بالکل آزاد تھے، رندانہ وضع تھی، چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے، ڈاڑھی چڑھاتے تھے، نماز کبھی نہ پڑھتے تھے، مگر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ سے ان کی نہایت گہری دوستی تھی۔ وہ مولانا رحمة اللہ علیہ کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔ مولانا رحمة اللہ علیہ ان کے کنگھاکرتے تھے اور وہ مولانا رحمة اللہ علیہ کے کنگھا کرتے تھے۔ اگر کبھی مٹھائی وغیرہ مولانا رحمة اللہ علیہ کے پاس آتی تو اُن کا حصہ ضرور رکھتے تھے، غرض بہت گہرے تعلقات تھے۔ مولانا رحمة اللہ علیہ کے مقدس دوست ایسے آزاد شخص کے ساتھ مولانا رحمة اللہ علیہ کی دوستی سے ناخوش تھے، مگر وہ اس کیکچھ پرواہ نہ کرتے تھے۔ایک مرتبہ جمعہ کا دن تھا، حسب معمول مولانا رحمة اللہ علیہ نے حافظ جی کو نہلایا، اور حافظ جی نے مولانا رحمة اللہ علیہ کو۔ جب نہاچکے تو مولانا رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: حافظ جی! مجھ میں اورتم میں دوستی ہے اور یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ تمہارا رنگ اور ہو اور میرا رنگ اور، اس لیے میں بھی ت
مہاری ہی وضع اختیار کرلیتا ہوں، تم اپنے کپڑے لاؤ، میں بھی وہی کپڑے پہنوں گا اور میری یہ ڈاڑھی موجود ہے تم اس کو بھی چڑھا دو اورمیں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ نہ کپڑے اُتاروں گا نہ ڈاڑھی،وہ یہ سن کر آنکھوں میں آنسو بھرلائے، اور کہا کہ” یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ مجھے اپنے کپڑے دیجیے، میںآ پ کے کپڑے پہنوں گا اور یہ ڈاڑھی موجود ھے اس کو آپ اُتاردیں۔ چنانچہ مولانا رحمة اللہ علیہ نے ان کو کپڑے پہنائے اور ڈاڑھی اُتاردی اور وہ اس روز سے پکے نمازی اور نیک وضع بن گئے۔

Thursday, April 14, 2016

عالمگیر کی بیٹی کی شعر گوئی


عارفین نے ایک ایرانی بادشاہ کا واقعہ تحریرفرمایاہے کہ اس کی زبان سے ایک مرتبہ ایک مصرع نکل گیا ع۔"دُرابلق کسے کم دیدہ موجود"
کہ چت کبرا موتی کسی نے بہت کم دیکھا ہے ،اس نے اپنے ملک کے نامور شعراء کو جمع کیا اوراس پر مصرع ثانی لگانے کی پیش کش کی ،تمام شعرا نے بڑا ذہن کھپایا مگروہ مصرعِ ثانی لگانے میں ناکام رہے چونکہ یہ بھی وقت وقت کی بات ہوتی ہے ،ذہن نہیں چلتا اورکبھی ذہن بڑی سرعت سے مائل ہوجاتا ہے
ایرانی بادشاہ کے شعراء جب کامیاب نہ ہوپائے تو اس نے ہندستان میں عالمگیرکو لکھا کہ اس کادوسرا مصرع بنوادیجئے ،یہاں کے شعراء نے بھی کوشش کی مگروہ بھی کامیاب نہ ہوسکے ،بادشاہ کی ایک بیٹی ،مخفی جن کا تخلص تھا،اس نے والد گرامی کی پریشانی دیکھ کر معلوم کیا کہ کیا معاملہ ہی؟ اس نے کوشش کی اوروہ کامیاب ہوگئی 
دُرابلق کسے کم دیدہ موجود
مگراشک بتانِ سرمہ آلود
کہ چت کبرا گھوڑاکسی نے بہت کم دیکھاہے مگر نازنینوں کی سرمہ آلودآنکھوں سے ٹپکنے والا آنسوکہ وہ سرمہ کی سیاہی اورآنکھ کے پانی کی وجہ سے چت کبرا ہوجاتا ہے اورآنسوکو موتی سے تشبیہ دی ہی۔بادشاہ بہت خوش ہوا اورایرانی بادشاہ کو لکھ بھیجا …ایرانی بادشاہ کی مسرت کا کیاپوچھنا …اس نے فوراً اپنا قاصد ہندوستان بھیجا اوردرخواست کی کہ اپنے ملک کے اس شاعر کو ایران بھیج دیجئے ہم اس کو ایوارڈ دینا چاہتے ہیں ،اس کا اعزازکرنا چاہتے ہیں،بادشاہ کو بڑی تشویش ہوئی کیونکہ لڑکیوں کو پردہ میں رکھنے کا مزاج تھا اورعورت پردہ ہی کی چیزبھی ہے

عالمگیر کی بیٹی نے جب اپنے والد کا اضطراب وبے چینی دیکھی ،باغیرت بیٹی نے ،ایک شعر لکھا اوردرخواست کی کہ ایرانی قاصد کو یہ شعر دیدیجئے وہ شعر تھا ؎
درسخن من مخفی منم چوں بوئے گل در برگِ گل 
ہرکہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا 
کہ میں اپنے شعر میں اس طرح چھپی ہوئی ہوں جیسے پھول کی پتی میں خوشبو ہوتی ہے جو مجھے دیکھنا چاہے وہ میرے کلام ،میری سخن اورمیری بات میں مجھے دیکھ سکتا ہی۔
اللہ تعالیٰ کوبھی جو انسان دیکھنا چاہے وہ اس کے کلام (قرآن پاک )کی تلاوت کرے ،اسی میں اللہ تعالیٰ چھپاہوا ہے اورانسان کو اس میں اللہ ملے گا ۔

زلف مسلسل

ایک مرتبہ کوئ دل جلا شاعرغم غلط کرنے کے لیۓ کوٹھے پہ گیا۔
رقّاصہ کا قد بہت لمبا تھا جسے دیکھ کر شاعر نے فی البديہ کہا :
طولِ شبِ فرقت سے بھی دو ہاتھ بڑی ہے
:رقّاصہ نے اپنے قد کا مزاق اڑتے سنا تو بہت غصّے سے دل جلے کی جانب دیکھا۔ وہ سٹپٹا گیا اور فوراً بولا
وہ زلفِ مسلسل جو ترے رخ پہ پڑی ہے

حافظ شیرازی اور تیمور لنگ





















حافظ شیرازی اور تیمور لنگ
۔
شیراز بڑا تاریخی شہر ہے علم و ادب کے اعتبار سے بھی اسے ایک بلند مقام حاصل ہے.شيخ سعدی اور حافظ نے اسی سرزمین میں علم و دانش کے چراغ جلائے تھے..امیر تیمور گورگاں بلا شبہ ایک عظیم فاتح گزرا ہے......اس کی ساری زندگی میدان جنگ میں فتوحات حاصل کرتے ہوئے گزری ہے....وہ بیک وقت نہات سفاک اور ظالم اور نہایت رحم دل بھی تھا.....بہت زیادہ دیندار نہ سہی لیکن نماز کا بڑی سختی سے پابند تھا .....اس کے لشکر کے ساتھ کئی گاڑیوں پر کئی ٹکڑوں پر مشتمل مسجد بھی ہوا کرتی تھی ......اور ایک گاڑی اتنی بڑی ہوتی تھی کہ اسے بیک وقت اٹھارہ بیل مل کر کھینچا کرتے تھے.....جہاں کہیں بھی لشکر پڑاؤ کرتا وہاں مسجد کے ٹکڑوں کو اتار کر جوڑا جاتا اور اس مسجد میں کئی سو آدمی نماز پڑھ سکتے تھے....کہتے ہیں کہ جب تیمور اصفہان پہنچا تو شہروالوں نے خراج دے کر شہر تیمور کے حوالے کر دیا .....تیمور نے تین ہزار تاتاری سپاہیوں کو شہر میں مختلف مقامات پر تعینات کر دیا.......لیکن پھر چند سر پھرے ایرانیوں نے اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں میں جذبہ شہادت بیدار کیا اور کہا کہ تاتاری غاصب اور بے دین ہیں لہٰذا انہیں مار بھگائو.....ان تقاریر کے جواب میں جوان خون نے جوش مارا اور جو ہتھیار بھی میسر ہوسکے ان سے لیس ہو کر جو تاتاری شہر میں تھے ان کا قتل عام شروع کردیا......تین ہزار تاتاریوں میں صرف چند سپاہی جان بچا کر لشکر میں واپس جا سکے......تیمور کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو اس نے شہر پر حملے کا حکم دیا اور کہا کہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ سب کو قتل کر دیا جائے.......اور کہا کہ ہر سپاہی ایک آدمی کا سر لے کر آئے......ستر ہزار کا لشکر تھا اور جب قتل عام کے بعد سروں کی گنتی ہوئی تو ستر ہزار سےکہیں زیادہ سر تھے اس طرح تیمور نے اپنے تین ہزار سپاہیوں کا بدلہ پورے اصفہان سے لیا..... اس وقعہ سے تیمور کی دہشت پورے ایرانمیں پھیل گئی...... اس کے بعد تیمور نے شیراز کا رخ کیا..جس وقت تیمور شیراز پہنچا حافظ شیرازی شہرمیں موجود تھے. ان کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہوئی تھی اور ان کے اشعار زبان زدِ عام تھے....تیمور کو شعرو شاعری سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی لیکن اس نے حافظ کا کلام لوگوں سے سنا تھا اور ان کے بہت سے اشعار تیمور کو زبانی یاد تھے.شیراز میں قیام کے دوران تیمور کو کسی نے بتایا کہ فارسی کا عظیم شاعر شیراز میں موجود ہے...تیمور حافظ کے نام پر چونک اٹھا اور فوراً اسے دربار میں طلب کر لیا.....حکمِ حاکم کےمصداق حافظ کو تیمور کے دربار میں جانا پڑا......کہا جاتا ہے کہ حافظ بہت خوش پوش تھے اور اچھے سے اچھا لباس پہنا کرتے تھے...لیکن جب وہ دربارِتیمور میں پہنچے تو معمولی کپڑے پہن رکھے تھے اور بظاہر ایک غریب آدمی نظر آتے تھے.تیمور کو حافظ کی شاعری کس حد تک پسند تھی اس کا تو پتہ نہیں لیکن تیمور کو حافظ کے ایک شعر پر سخت اعتراض تھا.....پس جب حافظ سلام کے بعد تیمور کے سامنے مؤدب ہو کر کھڑے ہوئے تو تیمور نے تیوریوں پر بل ڈال کر پوچھا کیا یہ شعر تمہارا ہے؟
"اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا 
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا"
. ترجمہ: اگر میرا محبوب میری دلداری پر آمادہ ہوجائے تو میں اس کے رخسار پر چمکنے والے تل پر سمرقند و بخارا نچھاور کردوں حافظ کو تمیور کی زبان سے اپنا شعر سن کر سخت حیرانی ہوئی پھر سر جھکا کر ادب سے بولا "جی ہاں شہنشاہ یہ میرا ہی شعر ہے"تیمور بڑی تلخی سے بولا:"سمرقند کو ہم نے سینکڑوں قیمتی جانیں گنوا کر بزور شمشیر حاصل کیا ہے اور اب دوسرے شہروں سے نوادرات لے جا کر اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے ہیں...اور تم کہاں کے ایسے رئیس ہو جو اس عظیم شہر کو شیراز کی دو کوڑی کی چھوکری کو بخشے دےرہے ہو.?"حافظ نے تیمور کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو انہیں خفگی کے آثار نظر آئے. وہ بہت گھبرائے اور سمجھ گئے کہ آج برے پھنسے جان بچنا مشکل ہے. پھر انہوں نے ہمت سے کام لیا اور ذرا توقف سے بولے:
"اے امیر تاتار اور شاہ شاہاں! میری ان شاہ خرچیوں اور غلط بخشیوں کا ہی تو نتیجہ ہے کہ آج امیر کے دربار میں آنے کے لیے میرے پاس ڈھنگ کا کوئی لباس بھی نہیں رہا اور ایک مفلس اور فقیر کی طرح حاضر دربار ہوا ہوں."
حافظ شیرازی کی ذہانت نے ان کی جان بچا لی اور ان کے برجستہ جواب سے تیمور کا غصہ کافور ہو گیا اور وہ بہت خوش ہوا اور انہیں بہت سا انعام و اکرام دے کر دربار سے رخصت کیا حالانکہ تمام درباری حافظ شیرازی کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے.....
(ماخوذ از: امیر تیمور گورگاں)

حافظ کے مذکورہ سابق شعر کا شعری ترجمہ :
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بہ خال ہںدوش بخستم سمرقند و بخارا را

حافظ شیرازی
ترجمہ ١ : احتشام حقی
سنبھال اے ترک شیرازی! پھرے یہ دل نہ یوں مارا
سمرقند و بخارا خالِ کافر پہ تِرے وارا

ترجمہ ٢ :ڈاکٹر خالد حمید
اگر منظور دل میرا ہو، اُس تُرک دل آرا کو
فدائے خال و قد کردوں سمرقند و بخارا کو