Tuesday, June 27, 2017

با ادب با نصیب.. بے ادب بے نصیب

ایک بار جناب بہلول دانا رحمتہ اللّه علیہ کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے - ایک تاجر کا وھاں سے گذر ھوا --- وہ آپ کے پاس آیا اور سلام کر کے مودب سامنے بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی.. " حضور ! تجارت کی کونسی ایسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ھو.. "
جناب بہلول نےفرمایا.. " کالا کپڑا لے لو.. "
تاجر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قدموں چلتا واپس چلاگیا.. جا کر اس نے علاقے میں دستیاب تمام سیاہ کپڑا خرید لیا..
کچھ دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا.. ماتمی لباس کے لئے سارا شہر سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکل کھڑا ھوا.. اب کپڑا سارا اس تاجر کے پاس ذخیرہ تھا.. اس نے مونہہ مانگے داموں فروخت کیا اور اتنا نفع کمایا جتنا ساری زندگی نہ کمایا تھا اور بہت ھی امیر کبیر ھو گیا..
کچھ عرصے بعد وہ گھوڑے پر سوار کہیں سے گذرا.. جناب بہلول وھاں تشریف رکھتے تھے.. وہ وہیں گھوڑے پر بیٹھے بولا.. " او دیوانے ! اب کی بار کیا لوں.. ؟"
بہلول دانا رحمتہ اللّه علیہ نے فرمایا.. " تربوز لے لو.. "
وہ بھاگا بھاگا گیا اور ساری دولت سے پورے ملک سے تربوز خرید لئے.. ایک ہی ہفتے میں سب خراب ہو گئے اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا..
اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملاقات جناب بہلول دانا رحمتہ اللّه علیہ  سے ھوگئی تو اس نے کہا.. " یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کِیا..? "
جناب بہلول دانا رحمتہ اللّه علیہ نے فرمایا.. " میں نے نہیں ' تیرے لہجوں اور الفاظ نے سب کیا.. جب تونے ادب سے پوچھا تو مالا مال ہوگیا.. اور جب گستاخی کی تو کنگال ہو گیا.. "
اس کو کہتے ہیں...

باادب با نصیب.. بے ادب بے نصیب.....

Friday, June 23, 2017

نیکی کی قیمت

ﻧﻴﮑﻲ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﻳﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮩﺎﻧﻲ
ﺍﻳﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﻲ ﺷﮩﺮ ﻣﻴﮟ ﺍﻳﮏ ﺑﮩﺖ ﮨﻲ ﻏﺮﻳﺐ ﻟﮍﮐﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ - ﻟﮍﮐﺎ ﻏﺮﻳﺐ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﻲ ﺑﺎﮨﻤﺖ ﺑﮭﻲ ﺗﮭﺎ - ﻭﮦ ﺍﭘﻨﻲ ﺭﻭﺯ ﻣﺮّﮦ ﺯﻧﺪﮔﻲ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﻴﮱ ﻣﺰﺩﻭﺭﻱ ﮐﻴﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ - ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﻭﮦ ﮔﻠﻲ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﻣﻴﮟ ﭼﮭﻮﭨﻲ ﻣﻮﭨﻲ ﭼﻴﺰﻳﮟ ﺑﻴﭻ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﻴﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺎﺋﻲ ﮐﺎ ﺧﺮﭼﮧ ﻧﮑﺎﻟﺘﺎ ﺗﮭﺎ - ﺍﻳﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﺍﻳﮏ ﻣﺤﻠﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺷﺪﻳﺪ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ - ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﻳﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﻴﮱ ﺍﭘﻨﻲ ﺟﻴﺐ ﻣﻴﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻻ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺷﺪﻳﺪ ﻣﺎﻳﻮﺳﻲ ﮨﻮﺋﻲ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﻳﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﻴﺐ ﻣﻴﮟ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﻳﮏ ﮨﻲ ﺳﮑﮧ ﺑﺎﻗﻲ ﺭﮦ ﮔﻴﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺍﻳﮏ ﺳﮑﮯ ﺳﮯ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﻴﻨﮯ ﮐﻲ ﮐﻮﺋﻲ ﺑﮭﻲ ﭼﻴﺰ ﻧﮩﻴﮟ ﺧﺮﻳﺪﻱ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﻲ ﮨﮯ - ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻴﺼﻠﮧ ﮐﻴﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﻲ ﻗﺮیبی ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻏﺬﺍ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﻲ ﺟﺎﮰ - ﺍﺗﻔﺎﻗﻲ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻳﮏ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﻳﺎ - ﺍﻳﮏ ﺟﻮﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺎاﺩﺏ ﻟﮍﮐﻲ ﻧﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ - ﻟﮍﮐﮯ نے ﺟﺐ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﻲ ﮐﻮ ﺩﻳﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻮﺍﺱ ﮐﮭﻮ ﺑﻴﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﻴﮱ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﮐﻲ ﺑﺠﺎﮰ ﺻﺮﻑ ﭘﺎﻧﻲ ﮐﺎ ﺍﻳﮏ ﮔﻼﺱ ﮨﻲ ﻃﻠﺐ ﮐﻴﺎ - ﻟﮍﮐﻲ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﺌﻲ ﺗﮭﻲ ﮐﮧ ﻳﮧ ﻟﮍﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﻴﮱ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﺍﻳﮏ ﮔﻼﺱ ﻻ ﮐﺮ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺩﻳﺎ - ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻴﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﻲ ﮐﻲ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﭘﻴﺴﮯ ﺩﻭﮞ ؟
ﻟﮍﮐﻲ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻳﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺩﻳﻨﮯ ﮐﻲ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﮯ - ﮨﻤﺎﺭﻱ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﻴﮟ ﻳﮧ ﺳﮑﮭﺎﻳﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﻴﮑﻲ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺻﻠﮧ ﻣﺖ ﻣﺎﻧﮕﻮ - ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﻲ ﮐﺎ ﺑﮍﮮ ﻣﯚﺩﺑﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﻴﮟ ﺷﮑﺮﻳﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﻴﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﮔﻴﺎ -
ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﻲ ﺑﻴﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﻲ - ﺍﺱ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻲ ﺑﻴﻤﺎﺭﻱ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮ ﻟﻲ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ ﻟﻴﮱ ﺷﮩﺮ ﺑﮭﻴﺞ ﺩﻳﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﺷﺎﻳﺪ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﺱ ﮐﻲ ﺑﻴﻤﺎﺭﻱ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﻴﮟ ﮐﺎﻣﻴﺎﺏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﻴﮟ -
ﺍﺱ ﻟﮍﮐﻲ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﻴﮱ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﺑﻼﻳﺎ ﮔﻴﺎ - ﺟﺐ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺮﻳﺾ ﻓﻼﮞ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺁﻳﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻳﮏ ﻋﺠﻴﺐ ﺳﻲ ﮐﻴﻔﻴﺖ ﻃﺎﺭﻱ ﮨﻮ ﮔﺌﻲ - ﺗﻴﺰﻱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺮﻳﺾ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﻲ ﻃﺮﻑ ﮔﻴﺎ - ﺟﻴﺴﮯ ﮨﻲ ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﻴﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﻲ ﮨﻲ ﻧﻈﺮ ﻣﻴﮟ ﻟﮍﮐﻲ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﻴﺎ -
ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻤﻠﮯ ﮐﻮ ﻓﻮﺭﻱ ﺣﮑﻢ ﺩﻳﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﺮﻳﺾ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻟﺠﮯ ﮐﮯ ﻟﻴﮱ ﻓﻮﺭﻱ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﺿﺮﻭﺭﻱ ﺍﻗﺪﺍﻣﺎﺕ ﮐﻴﮯ ﺟﺎﺋﻴﮟ - ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻲ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺩﻳﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﮐﻲ ﮔﺌﻲ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮍﻱ ﻣﺤﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻼﺝ ﮐﻴﺎ ﮔﻴﺎ -
ﺁﺝ ﺍﺱ ﻣﺮﻳﻀﮧ ﮐﺎ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﻴﮟ ﺁﺧﺮﻱ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ - ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮐﺎ ﺑﻞ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﻴﮱ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮯﺣﺪ ﭘﺮﻳﺸﺎﻥ ﺗﮭﻲ ﺍﻭﺭ ﻳﮧ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﻲ ﺗﮭﻲ ﮐﮧ ﺷﺎﻳﺪ ﺳﺎﺭﻱ ﻋﻤﺮ ﺍﺱ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮐﺎ ﺑﻞ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﻴﮟ ﮐﺮ ﭘﺎﮰ ﮔﻲ - ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺑﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﻨﮕﻮﺍﻳﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﺍﻳﮏ ﺟﻤﻠﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﻳﮏ ﭘﻴﮑﭧ ﻣﻴﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﮐﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺭﺳﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﻳﺎ -
ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻴﮟ ﺟﺐ ﻳﮧ ﻟﻔﺎﻓﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺮﻳﺸﺎﻧﻲ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﻴﮟ ﺍﺱ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ - ﻭﮦ ﻳﮧ ﺩﻳﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﻴﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﻲ ﮐﮧ ﺑﻞ ﭘﺮ ﺍﻋﺪﺍﺩ ﮐﻲ ﺑﺠﺎﮰ ﭼﻨﺪ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﺩﺭﺝ ﮨﻴﮟ - ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺎ -
ﺑﻞ ﭘﺮ ﺩﺭﺝ ﺗﮭﺎ " ﺍﺱ ﺑﻞ ﮐﻲ ﺍﺩﺍﺋﻴﮕﻲ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻲ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﺍﻳﮏ ﮔﻼﺱ ﮐﻲ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﻴﮟ ﮨﻮ ﭼﮑﻲ ﮨﮯ "
" ﻣﻴﺮﮮ ﺧﻴﺎﻝ ﻣﻴﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻳﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﻴﮑﻲ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﻴﮱ ﻗﻴﻤﺖ ﻣﻘﺮﺭ ﻧﮩﻴﮟ ﮐﻲ ﺟﺎﺗﻲ "

Thursday, June 15, 2017

دو جہنمی بندوں کو جنت کا انعام

حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی کہتے ہیں کہ ایک واقعہ قاری محمد طیب صاحب نے لکھا ہے ۔۔۔ پہلے تو میں اس واقعہ کو نقل کرنے سے گھبراتا تھا لیکن جب ان کے بیانات میں پڑھا تو اس کے بعد سنانے کی ہمت ہو گئی، ویسے میں نے بعد میں یہی واقعہ فوائد الفواد میں بھی پڑھا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دو بندوں کا حساب کتاب لیں گے، ان کے نامہ اعمال میں نیکیاں نہیں ہوں گی، اللہ تعالیٰ ان کو جہنم میں جانے کا حکم فرما دیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ ان کو کہیں گے کہ جاؤ جہنم میں، تو ان میں سے ایک تو جہنم کی طرف بھاگ پڑے گا اور دوسرا آہستہ آہستہ چلے گا اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھے گا، پھر چلے گا اور پھر مڑ کے دیکھے گا، کچھ دیر کے بعد اللہ تعالیٰ ان دونوں کو بلائیں گے ۔۔۔ اللہ بھاگنے والے سے فرمائیں گے کہ ہم نے تمہیں کہا: جاؤ جہنم میں اور تم بھاگ ہی پڑے؟ وہ کہے گا: اے اللہ! میں دنیا میں تو آپ کے حکم ماننے میں کوتاہی کر جاتا تھا، اب آپ نے جہنم میں جانے کا حکم دیا تو میں نے سوچا کہ اس حکم کو تو پورا کر ہی لوں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اگر تو سمجھتا ہے کہ میرا حکم اتنا معزز ہے کہ اس پر عمل ہونا چاہیے تو پھر اس کی وجہ سے میں نے تیرے گناہوں کی مغفرت کر دی، لہٰذا اب تو جنت میں چلا جا۔۔۔ پھر اللہ تعالیٰ دوسرے آدمی سے فرمائیں گے کہ تم آہستہ آہستہ بھی جا رہے تھے اور پیچھے مڑ مڑ کر بھی دیکھ رہے تھے، اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ کہے گا: یا اللہ! زندگی بھر تیری رحمت میرے ساتھ رہی اور کبھی بھی آپ کی رحمتوں نے مجھے مایوس نہیں ہونے دیا، اگر آپ نے حکم دے دیا کہ جاؤ جہنم میں مگر میں قدم آگے اٹھاتا تھا اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا کہ شاید تیری رحمت جوش میں آ جائے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اچھا! اگر تجھے میری رحمت پر اتنا بھروسہ ہے تو میں نے تیرے لیے بھی اپنی جنت کے دروازے کھول دیے ہیں تو بھی اس میں داخل ہو جا..!

Wednesday, June 14, 2017

زندگی کس قدر خوبصورت ہے ۔

کہتے ہیں کہ ایک شخص کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ لگی اور وہ اٹھنے بیٹھنے تک سے قاصر ہو گیا۔ اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو چکا تھا۔ اسے ہسپتال میں جس کمرے میں رکھا گیا، اس میں ایک دوسرا مریض بھی تھا جس کا بستر کھڑکی کے پاس تھا۔ مفلوج شخص سارا دن بستر پر پڑا چھت کو گھورتا رہتا تھا اور زندگی سے مایوسی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔

دوسرا مریض زندگی اور زندہ دلی سے بھرپور تھا۔

دوسرا مریض دن میں ایک دو مرتبہ بستر اونچا کر کے کچھ دیر بیٹھتا اور کھڑکی سے باہر دیکھتا۔

پہلا ہفتہ
پہلا مریض: کاش میں اس حادثے میں مرجاتا۔ یوں معذور تو نہ پڑا ہوتا۔

دوسرا مریض، کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے: آہا، کیا بہترین نظارہ ہے، آج تو گھنے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ جھیل میں لہریں اٹھ رہی ہیں اور بطخیں تیرتے دیکھ کر روح تازہ ہوئی جا رہی ہے۔ یہ چھوٹا سا گپلو گپلو سا بچہ اپنی ماں سے ہاتھ چھڑا کر بطخوں سے کھیلنے لگا ہے۔ دوسرے بچے بھی خوشی سے بھاگ دوڑ رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی سی بوندیں پڑ رہی ہیں۔ کاش میں کچھ بہتر ہو جاؤں تو اس پارک کے بینچ پر بیٹھ کر پوری شام گزارا کروں گا۔

دوسرا ہفتہ
پہلا مریض: ایک مفلوج شخص کی بھی کیا زندگی ہو گی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں کبھی بھی صحت مند نہیں ہو پاؤں گا اور چھت کو گھورتے گھورتے ایک دن مر جاؤں گا۔

دوسرا مریض: آج تو سرخ اور پہلے رنگ کے نئے پھول کھلے ہیں۔ لوگ ان کے پاس سے ٹہلتے ہوئے گہری گہری سانسیں لے رہے ہیں۔ یہ لو، اس وجیہہ مرد نے ایک پھول توڑ دیا ہے اور اس کو اپنی ساتھی کو نذر کر دیا ہے۔ یہ دونوں کتنے خوش ہیں۔ اپنی زندگی سے کتنا لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

تیسرا ہفتہ
پہلا مریض: پتہ نہیں کبھی میں بھی پارک میں چل پاؤں گا کہ نہیں۔

دوسرا مریض: یہ بوڑھا کتنا خوش قسمت ہے۔ وہیل چیئر پر پارک میں آیا ہے۔ دو کم عمر بچے اس کی وہیل چیئر کو دھکیل رہے ہیں۔ بوڑھا بمشکل کھڑا ہو کر چند قدم چلا ہے۔ اس کے چہرے سے خوشی ٹپکی پڑ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اس نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور اسی طرح ہنستے مسکراتے آخری سانسیں بھی لے گا۔ کئی لوگ زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کشید کرنے کا فن جانتے ہیں۔

چوتھا ہفتہ
پہلا مریض: کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں دوبارہ مکمل طور پر ٹھیک ہو جاؤں گا اور اس پارک میں خود بھی جا سکوں گا۔ اب تو میرے پاؤں بھی دوبارہ حرکت کرنے لگے ہیں۔

دوسرا مریض: یہ چھوٹا سا خاندان آج پکنک کا سامان لے کر آیا ہے۔ خاتون نے چادر بچھا دی ہے اور اس پر کھانا سجا دیا ہے۔ بچے ارد گرد کھیل رہے ہیں۔ خوشی سے ان کے چہرے دمک رہے ہیں۔ مرد گاڑی سے چیزیں لا لا کر چادر پر رکھ رہا ہے۔ سکون اور خوشی اسی کا نام ہے۔

دن ایسے ہی گزرتے رہے۔ آہستہ آہستہ پہلے مریض کی صحت بہتر ہونے لگی اور زندگی میں وہ دوبارہ دلچسپی لینے لگا۔ ایک دن کھڑکی والا مریض سوتے میں ہی چپ چاپ فوت ہو گیا۔ اب تک مفلوج مریض بھی کچھ صحت یاب ہو چکا تھا لیکن وہ کھڑکی کے باہر کے نظاروں کو بہت یاد کرنے لگا تھا جن کے بارے میں اب اسے کوئی نہیں بتاتا تھا۔ وہ اتنا صحت یاب ہوا کہ خود سے بیٹھنے کے قابل ہو گیا تو ایک دن اس نے نرس سے درخواست کی کہ اس کو کھڑکی والے بستر پر منتقل کر دیا جائے۔

نرس نے اس کا بستر منتقل کر دیا اور وہ بے تابی سے اٹھ بیٹھ کہ باہر دیکھ سکے۔ مگر اس کو یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ اب کھڑکی اور پارک کے درمیان ایک اونچی دیوار بن چکی تھی جس کے دوسری طرف دیکھنا ممکن نہ تھا۔

پہلا مریض: ہسپتال والوں نے پچھلے دنوں یہ دیوار بنا کر ظلم کیا ہے۔

نرس حیرت سے: یہ دیوار تو پچھلے بیس سالوں سے یہیں موجود ہے۔

پہلا مریض: کھڑکی والا مریض تو مجھے اسی کھڑکی سے پارک کے نظارے دیکھ دیکھ کر ان کے بارے میں بتایا کرتا تھا جس سے میرے دل میں زندہ رہنے کی خواہش دوبارہ جاگی۔

نرس، سوچتے ہوئے: شاید وہ مریض تمہیں مایوسی سے نکال کر زندگی کی خوبصورتیوں کی طرف واپس لانا چاہتا تھا۔ ورنہ وہ تو یہاں دماغ کی رسولی کا شکار ہو کر اپنی زندگی کے آخری دن گزارنے آیا تھا اور اس رسولی نے اس کو مکمل طور پر اندھا کر دیا تھا۔ شاید مرتے مرتے اس کی یہی ایک نیکی ہی اسے جنت میں لے جانے کے لیے کافی ہو کہ اس نے تمہیں ایک نئی زندگی دے دی ہے۔

Tuesday, June 13, 2017

جوانوں کے سنگ

ایک صاحب تھے جو شادی کی تلاش میں کہیں لمبے نکل گئے اور شادی کی عمر نکل گئی۔ آخر ایک لڑکی پسند آ گئی تو رشتہ بھیج دیا۔ لڑکی نے دو شرطیں رکھیں اور شادی پر تیار ہوگئی۔ پہلی یہ کہ ہمیشہ جوانوں میں بیٹھو گے۔ دوسرے یہ کہ ہمیشہ دیوار پھلانگ کے گھر آیا کرو گے۔

شادی ہوگئی۔ بابا جی جوانوں میں ہی بیٹھتے اور گپیں لگاتے۔ جوان ظاہر ہے صرف لڑکیوں کی اور پیار محبت کی ہی باتیں کرتے ہیں۔ منڈیوں کے بھاؤ سے انھیں دلچسپی نہیں اور نہ ایسے موضوعات سے کچھ لینا دینا۔ باباجی کا موڈ ہر وقت رومینٹک رہتا۔ گھر جاتے تو ایک جھٹکے سے دیوار پھلانگ کر گھر میں دھم سے کود جاتے۔

آخر ایک دن بابا جی کے پرانے جاننے والے مل گئے۔ وہ انھیں گلے شکوے کر کے اور گھیر گھار کے اپنی پنڈال چوکڑی میں لے گئے۔ اب وہاں کیا باتیں ہونا تھیں۔ یار گھٹنوں کے درد سے مر گیا ہوں۔  بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں۔ یار میرا تو وضو ہی نہیں رہتا۔ پیشاب کا قطرہ نکل جاتا ہے۔ میری تو بھائی جان ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ کھل گیا ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے جھٹکہ نہ لگے۔ یار مجھے تو نظر ہی کچھ نہیں آتا۔ کل پانی کے بجائے مٹی کا تیل پی گیا تھا۔ ڈرپ لگی ہے تو جان بچی ہے۔ بابا جی جوں جوں ان کی باتیں سنتے گئے توں توں ان کا مورال زمین پر لگتا گیا۔ جب ٹھیک پاتال میں پہنچا تو مجلس برخاست ہوگئی اور بابا جی گھسٹتے پاؤں کے ساتھ گھر کو روانہ ہوگئے۔

گھر پہنچ کر دیوار کو دیکھا تو گھر کی دیوار کے بجائے وہ دیوارِ چین لگی۔ ہمت نہ پڑی دیوار کودنے کی کہ کہیں بابے پھجے کی طرح چُک نہ نکل آئے۔ آخر ماڈل تو دونوں کا ایک ہی تھا۔ بابا جی نے کنڈی کھٹکھٹائی۔ کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ۔ اندر سے بیوی بولی: اسی لیے بولا تھا جوانوں میں بیٹھا کر۔ لگتا ہے آج بڈھوں کی مجلس اٹینڈ کر لی ہے اسی لیے ہمت جواب دے گئی ہے۔

نتیجہ: انسان بوڑھا نہیں ہوتا مجلس اسے بوڑھا کر دیتی ہے۔ ماہرین نفسیات لکھتے ہیں کہ معلم اسی لیے جلد بوڑھے نہیں ہوتے کہ وہ بچوں کی مجلس میں رہتے ہیں۔ یوں وہ ماحول ان پر ٹائم اینڈ سپیس کے اثرات کو نیوٹرل کر دیتا ہے۔

جوانوں کے سنگ رہیں
ہمیشہ....... ینگ رہیں

Monday, June 12, 2017

صرف تین منٹ چاہئے ۔

ہمیں مرے ہوئے تین منٹ ہو چکے تھے لیکن ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا‘ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا‘ ہم بھی مر سکتے ہیں!

میرے ساتھ ایک اسمارٹ قسم کا خوبصورت مردہ بیٹھا تھا‘ اس کے بازو‘ ٹانگیں‘ گردن‘ چھاتی پیٹ اور کمر بتا رہی تھی‘ اس نے زندگی کا زیادہ تر وقت جم میں گزارا ہو گا. یہ دنیا کی متوازن اور بہترین خوراک کھاتا ہو گا اور اس نے اپنے جسم کو ہر قسم کی آلودگی،بیماری اور بدپرہیزی سے بھی بچا کر رکھا ہو گا. میں نے اس سے پوچھا ’’ تم نے کبھی سگریٹ پیا‘‘ اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔
میں نے پوچھا ’’ شراب‘ چرس‘ گانجا‘‘
اس کا سر انکار میں ہلتا رہا‘ میں نے پوچھا تم نے کبھی رش ڈرائیونگ کی‘ پانی میں اندھی چھلانگ لگائی‘ تم سڑک پر پیدل چلتے رہے ہو یا تم لوگوں سے الجھ پڑتے ہو‘‘ اس نے انکار میں سر ہلایا اور دکھی آواز میں بولا ’’ میں نے زندگی میں کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا‘‘
میں نے پوچھا ’’ تمہاری عمر کتنی تھی‘‘ اس نے جواب دیا ’’ صرف 32 سال‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا ’’ پھر تم کیسے مر گئے‘‘
اس کا دکھ بڑھ گیا‘ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں اپنے آپ سے مسلسل پوچھ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘‘
میں نے پوچھا ’’ تم مرے کیسے تھے‘‘
اس نے چیخ کر جواب دیا ’’ میں اپنے لائونج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا‘ مجھے اچانک سینے میں درد محسوس ہوا۔ میں نے چائے کا کپ میز پر رکھا‘ دُہرا ہوا اور اس کے بعد سیدھا نہیں ہو سکا‘ میں مر گیا‘‘۔
میں نے پوچھا ’’ تمہاری اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘
اس نے میری طرف دیکھا اور بولا ’’ تین منٹ کی زندگی!! میں صرف تین منٹ کے لیے واپس جانا چاہتا ہوں. میرے والد میرے ساتھ خفا تھے، میں اپنی بیوی سے بدتمیزی کرتا تھا، میں نے اپنے بچوں کو کبھی پیار نہیں کیا، میں ملازموں کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتا تھا اور میں نے اپنے لان میں گلاب کے پھول لگوائے تھے لیکن میں ان کے پاس نہ بیٹھ سکا. میں نے ہمیشہ اپنے جسم کو اللہ تعالیٰ کی کبریائی سے مقدم رکھا. میں تین منٹ میں سب سے معافی مانگنا چاہتا ہوں اور میں اپنے گلابوں کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘

ہم سب سناٹے میں آ گئے. پہلوان کی بات ابھی جاری تھی کہ دوسرا بول پڑا۔
یہ ایگزیکٹو قسم کا سیریس مردہ تھا. اس کے چہرے پر کامیاب بزنس مین کا اعتماد تھا. کامیابی انسانی چہرے پر اعتماد کی چند لکیریں چھوڑ جاتی ہے، یہ لکیریں کامیاب لوگوں کو عام اشخاص سے مختلف بنا دیتی ہیں. آپ دنیا کے مختلف کامیاب لوگوں کی تصویریں لیں، یہ تصویریں میز پر رکھیں اور غور سے دیکھیں. آپ کو تمام چہروں پر خاص قسم کا اعتماد ملے گا اور وہ خاص اعتماد اس کے چہرے پر بھی موجود تھا!
میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے؟‘‘
اس نے افسوس سے سر ہلایا اور جواب دیا ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں. میں دنیا کے بہترین ڈاکٹر، اعلیٰ ترین اسپتال اور مہنگی ترین دوائیں افورڈ کر سکتا تھا. میں نے دنیا کی مہلک ترین بیماریوں کی ویکسین لگوا رکھی تھی. میں امریکا اور یورپ کی بہترین لیبارٹریوں سے ہر چار ماہ بعد اپنے ٹیسٹ کرواتا تھا۔
ہفتے میں دو بار اسٹیم باتھ لیتا تھا، میں ڈائیٹ چارٹ کے مطابق خوراک کھاتا تھا. ہر ہفتے فل باڈی مساج کرواتا تھا. میں کام کا سٹریس بھی نہیں لیتا تھا. میں نے ہمیشہ بلٹ پروف گاڑی اور ذاتی جہاز میں سفر کیا‘ میرے پاس پانچ ہزار لوگ ملازم تھے. یہ لوگ میرا سارا سٹریس اٹھا لیتے تھے اور میں صرف عیش کرتا تھا مگر پھر مجھے کھانسی آئی‘ میں نیچے جھکا‘ فرش پر گرا اور مر گیا اور میں پچھلے تین منٹ سے یہ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں نے تو کبھی مرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا‘‘
میں نے اس سے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘
اس نے تڑپ کر جواب دیا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں واپس جا کر اپنی ساری دولت ویلفیئر کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں‘ میں اس سے فری میڈیکل کالج‘ ملک کا سب سے بڑا تھیلیسیمیا اسپتال یا پھر ملک کی سب سے بڑی سائنس یونیورسٹی بنانے کا حکم دوں گا اور پھر واپس آ جائوں گا۔

ابھی اس کی بات جاری تھی تیسرا مردہ بول پڑا‘ یہ مردہ چال ڈھال اور شکل شباہت سے سیاستدان دکھائی دیتا تھا‘ دنیا کے تمام سیاستدانوں کے چہروں پر مکاری ہوتی ہے‘ اس کے چہرے پر بھی مکاری موجود تھی.
میں نے پوچھا ’صاحب آپ بھی فوت ہو گئے‘‘
وہ دکھ میں ڈوبی آواز میں بولا ’’ ہاں اور میں اسی بات پر حیران ہوں‘ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں تو وہ شخص تھا جس کے ایک نعرے پر لوگ جان دیتے تھے‘ میری گرفتاری‘ میری قید پر میرے ورکر خود سوزی کر لیتے تھے‘ لوگ مجھ سے ٹکٹ لینے کے لیے گیارہ ہزار وولٹ کے کھمبے پر چڑھ جاتے تھے۔
میرے جوتے اٹھا کر سینے سے لگا لیتے تھے اور میں اس وقت تک کوئی چیز کھاتا تھا اور نہ ہی پیتا تھا میرے ڈاکٹر جب تک اس کی تصدیق نہیں کر دیتے تھے. میں ہمیشہ بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے رہا اور میں تقریر بھی بلٹ پروف کیبن میں کھڑے ہو کر کرتا تھا‘ میں ہر مہینے

عمرے کے لیے جاتا تھا اور ہر دوسرے دن دو لاکھ روپے خیرات کرتا تھا مگر آج اچانک میرے سر میں درد ہوا‘ میں نے کنپٹی دبائی‘ میرے دماغ میں ایک ٹیس سی اٹھی‘ میں نے چیخ ماری اور میں مر گیا۔
میرے ڈاکٹر مجھے زندہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر میں اب آپ کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘
میں نے اس سے بھی پوچھا ’’ آپ کی اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے‘‘
اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ تین منٹ کی زندگی‘
میں اس دنیا کے تمام سیاستدانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں‘ آپ موت سے نہیں بچ سکتے چنانچہ عوام اور اپنے درمیان سے بلٹ پروف شیشے ہٹا دیں‘ خدمت اور تبدیلی وہی ہے جو آپ آج لے آئے‘ اگر آج کی ٹرین مس کر دی تو دوبارہ نہیں پکڑ سکیں گے‘ آپ خادم ہیں تو خدمت کریں نعرے نہ لگائیں‘‘
وہ خاموش ہوا تو چوتھا مردہ بول پڑا۔
یہ مسکین مردہ تھا‘ نائین ٹو فائیو والا مسکین شخص‘ یہ لوگوں کی وہ کلاس ہے جو کندھے پر کوہلو کا شہتیر لے کر پیدا ہوتی ہے اور زندگی ایک دائرے میں گزار دیتی ہے‘ یہ قانون کے اس قدر پابند ہوتے ہیں کہ یہ قانون کی لکیر پر اپنا اور کسی دوسرے کا پائوں نہیں آنے دیتے‘ یہ ناک کی سیدھ میں زندگی گزارتے ہیں اور ناک ٹیڑھی ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی زندگی‘
میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے‘‘
اس نے کہا ’’ یہ ہی تو پریشانی ہے‘ میں نے زندگی میں کبھی غلطی نہیں کی‘ حرام کو ہاتھ تک نہ لگایا‘ پونے آٹھ بجے دفتر پہنچا‘ چھٹی کے بعد آدھ گھنٹہ دفتر بیٹھا‘ ہمیشہ فائلیں گھر لے کر آیا اور اپنے عزیز ترین شخص کو بھی کوئی رعایت نہیں دی‘ پانچ وقت نماز پڑھی‘ پورے روزے رکھے‘ اپنے ضمیر کو ہمیشہ مطمئن رکھا۔
نفس کو خواہشوں کے ڈنگ سے بچا کر رکھا مگر میں اس کے باوجود مارا گیا‘
میں نے پوچھا ’’ تم کیسے مارے گئے‘‘
اس نے جواب دیا ’’ میں چھت سے اپنی قمیض اتارنے گیا‘ آوارہ گولی آئی‘ سر میں لگی اور میں بیالیس سیکنڈ میں زندگی کی حد کراس کر گیا‘‘
میں نے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘
اس نے فوراً جواب دیا ’’ میں بھی تین منٹ کی اضافی زندگی چاہتا ہوں‘ میں ان تمام سائلوں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں جنھیں میں نے جعلی ضابطوں اور جھوٹے اصولوں کی ٹکٹکی پر لٹکائے رکھا‘ میں اپنے کولیگز کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوں‘ ضابطے انسانوں کے لیے ہیں‘ انسان ضابطوں کے لیے نہیں‘ آپ کو کسی کے جائز کام کے لیے ضابطے کی ساری کتاب بھی قربان کرنی پڑے تو کر جائیں کیونکہ آپ نے اصول پسندی کی اس جھوٹی ضد کے باوجود اچانک مر جانا ہے‘‘
ابھی اس کی بات جاری تھی کہ مولوی صاحب کا مردہ سیدھا ہو گیا۔
ان کے ماتھے پر زہد اور تقویٰ کا محراب تھا‘ گردن عجز اور انکساری کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھی‘
میں نے انھیں پوچھا ’’ حضور آپ بھی مر چکے ہیں‘‘
مولوی صاحب بولے ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں نے زندگی میں سیکڑوں جنازے پڑھائے‘ اپنی ہر تقریر میں موت‘ میدان حشر اور حساب کا ذکرکیا لیکن اس کے باوجود مجھے یقین تھا میں نہیں مروں گا‘ اللہ تعالیٰ مجھے سو سال سے زائد عمر دے گا اور میں جب تک موت کے فرشتے کو اجازت نہیں دوں گا یہ میرے بستر کے قریب نہیں پھٹکے گا مگر ہوا اس سے الٹ‘ میں موٹر سائیکل سے گرا اور ٹرک میرے اوپر سے گزر گیا اور مجھے بھی اب صرف تین منٹ چاہئیں۔
میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو اللہ‘ کتاب اور رسولؐ کی سخت ضرورت ہے اللہ سے اپنی غلطیوں‘ گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگو‘ نماز نہیں پڑھتے تو بھی نماز کے وقت قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کرو اور صرف تین سیکنڈ کے لیے اللہ سے کہو‘ یا اللہ میں حاضر ہو گیا‘ مجھے معاف کر دے‘ قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھو اور رسولؐ کی کوئی ایک سنت پوری زندگی سنوارنے کے لیے کافی ہے‘