3 شعبان مولانا #ابوالکلام_آزاد رحمہ اللہ کا یوم وفات ہے، اس مناسبت سے آغا شورش کاشمیری کا مضمون 'مولانا ابوالکلام آزاد کا سفر آخرت' پیش خدمت ہے.
مولانا آزاد محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتا کر لیتے، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متجر، ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اپنے لیے سوچتے ہیں. وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے. انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کے لیے جی رہے تھے. ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا. وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں. ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا. انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گزارتے رہے.
آزادی کے بعد یہی سانچے 10 سال کی مسافت میں ان کے لیے جان لیوا ہو گئے. 12 فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہوگئے ہیں. اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے. پنڈت جواہر لعل نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے. ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی. مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے. ڈاکٹروں نے کہا کہ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد وہ رائے دے سکیں گے کہ مولانا خطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں.
ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تاثر عام ہوگیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے. ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا. مولانا کے بنگلے میں ڈاکٹر راجندر پرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہر لعل نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علما کے علاوہ ہزارہا انسان جمع ہو گئے. سبھی پریشان تھے. 19 فروری کو موت کا خدشہ یقینی ہوگیا.
کسی کے حواس قائم نہ تھے. پنڈت جواہر لعل نہرو رفقا سمیت اشک بار چہرے سے پھر رہے تھے. ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر تھا. ہندوستان بھر کی مختلف شخصیتیں آچکی تھیں.
جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی. عشا کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی. مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا محمد میاںؒ، مفتی عتیق الرحمنؒ، سید صبیح الحسنؒ، مولانا شاہد فاخریؒ اور بیسیوں علما وحفاظ تلاوت کلام الہیٰ میں مشغول تھے.
آخر ایک بجے شب سورہ یٰسن کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22 فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی. (انا ﷲ وانا الیه راجعون)
اس وقت بھی سیکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے. جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا. دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے. تمام ہندوستان میں سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے. ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہوگئی. دہلی میں ہو کا عالم تھا، حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی. ایک ہی شخص تھا جس کے لیے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے. بہ الفاظ دیگر مولانا تاریخ انسانی کے تنہا مسلمان تھے جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے. پنڈت جواہر لعل نہرو موت کی خبر سنتے ہی 10 منٹ میں پہنچ گئے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے. انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں 'اچھا بھائی خدا حافظ' کہا تھا.
ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیوں کر 24 گھنٹے زندہ رہا.
ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا: 'ڈاکٹر صاحب اﷲ پر چھوڑیے'. اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 'مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے؟ اب معاملہ اﷲ کے سپرد ہے'.
میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے. ایک آدھ منٹ کے لیے ہوش میں آئے. کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں. پنڈت نہرو کے 2 منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے. ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے. آن واحد میں ہندوستانی کابنیہ کے شہ دماغ پہنچ گئے. ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں.
مسٹر مہابیر تیاگی سراپا درد تھے. ڈاکٹر رادھا کرشنن نے آبدیدہ ہو کر کہا: 'ہندوستان کا آخری مسلمان اٹھ گیا، وہ علم کے شہنشاہ تھے'.
کرشن مین سکتے میں تھے. پنڈت پنٹ یاس کے عالم میں تھے. مرار جی دیسائی بے حال تھے. لال بہادر شاستری بلک رہے تھے. ڈاکٹر ذا کرحسین کے حواس معطل تھے. مولانا قاری طیب غم سے نڈھال تھے. مولانا حفظ الرحمن کی حالت دگر گوں تھی. ادھر زنانہ میں مولانا کی بہن آرزو بیگم تڑپ رہی تھیں.
اب کوئی آرزو نہیں باقی
ان کے گرد اندرا گاندھی، بیگم ارونا آصف علی اور سیکڑوں دوسری عورتیں جمع تھیں. اندرا کہہ رہی تھیں: 'ہندوستان کا نور بجھ گیا'. اور ارونا رورہی تھیں: 'ہم ایک عظمت سے محروم ہوگئے'.
پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھنچے رہے، ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہوگی، لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے، اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے. صبح 4 بجے میت کو غسل دیا گیا اور کفنا کر 9 بجے صبح کوٹھی کے پورٹیکو میں پلنگ پر ڈال دیا گیا.
سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے، پھر وزیراعظم نے، اس کے بعد غیر ملکی سفرا نے. کئی ہزار برقع پوش عورتیں مولانا کی میت کو دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں. ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا: 'مولانا آپ بھی چلے گئے! ہمیں کس کے سپرد کیا ہے؟'
ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں. ایک عجیب عالم تھا، چاروں طرف غم و اندوہ اور رنج و گریہ کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں.
پنڈت جواہر لعل نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضا کار کی طرح عوام کے ہجوم میں گھس جاتے اور انہیں بے ضبط ہجوم کرنے سے روکتے. پنڈت جی نے یمین ویسار سیکورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا:
'آپ کون ہیں؟'
'سیکورٹی افسر'.
'کیوں؟'
:آپ کی حفاظت کے لیے'.
'کیسی حفاظت؟ موت تو اپنے وقت پر آکے رہتی ہے، بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے؟'
شری پربودھ چندر راوی تھے کہ پنڈت جی نے یہ کہا اور بلک بلک کر رونے لگے. ان کے سیکورٹی افسر بھی اشک بار ہوگئے.
ٹھیک پون بجے میت اٹھائی گئی. پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفرا نے دیا. جب کلمہ شہادت کی صداؤں میں جنازہ اٹھا تو عربی سفرا بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے. جوں ہی بنگلے سے باہر کھلی توپ پر جنازہ رکھا گیا تو کہرام مچ گیا. معلوم ہوتا تھا پورا ہندوستان روہا ہے. مولانا کی بہن نے کوٹھی کی چھت سے کہا: 'اچھا بھائی خدا حافظ'.
پنڈت پنٹ نے ڈاکٹر راجندر پرساد کا سہارا لیتے ہوئے کہا: 'مولانا جیسے لوگ پھر کبھی پیدا نہ ہوں گے اور ہم تو کبھی نہ دیکھ سکیں گے'.
مولانا کی نعش کو کوٹھی کے دروازہ تک چارپائی پر لایا گیا. کفن کھدر کا تھا. جسم ہندوستان کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا. اس پر کشمیری شال پڑا تھا اور جنازہ پر نیچے دہلی کی روایت کے مطابق غلاف کعبہ ڈالا گیا تھا۔ پنڈت نہرو، مسٹر دھیبر صدر کانگریس، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز، پروفیسر ہمایوں کبیر، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے.
ان کے پیچھے دوسری گاڑی میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر کی موٹر تھی. ان کے بعد کاروں کی ایک لمبی قطار تھی جس میں مرکزی وزرا، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر اور غیر ملکی سفرا بیٹھے تھے.
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے. تمام راستہ پھولوں کی موسلادھار بارش ہوتی رہی. دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اٹ گیا۔ جب لاش لحد تک پہنچی تو ایک طرف علما و حفاظ قرآن مجید پڑھ رہے تھے دوسری طرف اکابر فضلا سرجھکائے کھڑے تھے.
اس وقت میت کو بری فوج کے ایک ہزار نوجوانوں، ہوائی جہاز کے 300 جانبازوں اور بحری فوج کے 500 بہادروں نے اپنے عسکری بانکپن کے ساتھ آخری سلام کیا. مولانا احمد سعید دہلوی صدر جمعیت علمائے ہند نے 2:50 پر نماز جنازہ پڑھائی، پھر لحد میں اتارا، کوئی تابوت نہ تھا اور اس طرح روئے کہ ساری فضا اشک بار ہوگئی. تمام لوگ رو رہے تھے اور آنسو تھمتے ہی نہ تھے. مولانا کے مزار کا حدود اربعہ 'بوند ماند' کے تحت درج ہے.
مختصر یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کیے گئے. مزار کھلا ہے، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرہ ہے، اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں. راقم جنازہ میں شرکت کے لیے اسی روز دہلی پہنچا. مولانا کو دفنا کر ہم ان کی کوٹھی میں گئے. کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لعل نہرو آ گئے اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے. پھر پھولوں کی اس روش پر گئے جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے. ایک گچھے سے سوال کیا: 'کیا مولانا کے بعد بھی مسکراؤ گے؟'
راقم آگے بڑھ کر آداب بجا لایا. کہنے لگے: 'شورش تم آگئے؟ مولانا سے ملے؟' راقم کی چیخیں نکل گئیں. مولانا ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکے تھے اور ملاقات صبح محشر تک موقوف ہوچکی تھی.
No comments:
Post a Comment