Sunday, May 29, 2016

محبت کی یادگار ، ایک بے مثال عمارت

ﻟﻮﮒ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ !
_____________________________________
ﻣﮕﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ
ﮐﮧ ﻋﺜﻤﺎﻧﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﷺ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮬﮯ،
ﺫﺭﺍ ﭘﮍﮬﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﺸﻖ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﻣﻨﻮﺭ ﮐﯿﺠﺌﮯ ۔
ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ
ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺳﯿﻊ ﻋﺮﯾﺾ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺳﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮬﯿﮟ،
ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﺮ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮬﺮ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﮯ ﮬﻮﮮٔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﻦ،
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﺎﺏ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮﺍ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﻈﯿﺮ ﻣﺸﮑﻞ ﮬﮯ،
ﺧﻠﯿﻔﺌﮧ ﻗﺖ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻓﺮﻣﺎﻧﺮﻭﺍ ﺗﮭﺎ ،
ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﺷﻌﺒﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮬﯿﻦ ﺗﺮﯾﻦ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﻦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮑﮭﺎﮮٔ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﯾﮑﺘﺎ ﻭ ﺑﯿﻤﺜﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﮮ،
ﺍﺱ ﺍﺛﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮎ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺧﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺴﻮﺍﺭ ﺑﻨﺎﮮٔ ﮔﯽ،
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ ﮐﯽٔ ﺳﺎﻝ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮬﺎ ،
25 ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﻮﯼٔ ﺟﻮ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻌﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮑﺘﺎ ﮮٔ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﺧﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺎ ﻋﻤﻞ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ،
ﯾﮧ ﻟﮓ ﺑﮭﮓ 500 ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ
ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯽٔ ﮐﺎﻧﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﮟ، ﻧﮯٔ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﮐﭩﻮﺍﯾٔﯿﮟ،
ﺗﺨﺘﮯ ﺧﺎﺻﻞ ﮐﯿﮯٔ ﮔﯿﮯٔ، ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮩﻢ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢﷺ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯٔ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﺘﯽ ﺑﺴﺎﯼٔ ﮔﯽٔ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﺭ ﺳﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮧ ﮬﻮ،
ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ
ﮐﭩﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺎﺗﺎ،
ﻣﺎﮬﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﺎ ﻭﺿﻮ ﺭﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮬﮯ،
ﮬﺠﺮۃ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻟﭙﯿﭧ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﺩ ﻏﺒﺎﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﮮٔ، ﺳﺘﻮﻥ ﻟﮕﺎﮮٔ ﮔﯿﮯٔ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺽ ﺍﻟﺠﻨۃﺍﻭﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﻧﮧ ﮔﺮﮮ ،
ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﭼﻠﺘﺎ ﺭﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋﺎﻟﻢ ﮔﻮﺍﮦ ﮬﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺳﮯ ﮐﻮﯼٔ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﮬﻮﯼٔ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮬﻮﮔﯽ

Saturday, May 28, 2016

مولانا جلال الدین رومی

مولانا رومؒ کا خاندانی نام محمد تھا۔ جلال الدین لقب اور عرفیت مولائے روم۔ آپ 604ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ مولانا رومؒ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ تک براہ راست پہنچتا ہے۔ مولانا رومؒ کے پردادا حضرت حسین بلخیؒ بہت بڑے صوفی اور صاحبِ کمال بزرگ تھے۔ امرائے وقت ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ خوارزم شاہ جیسے با جبروت حکمران نے اپنی بیٹی کی شادی مولانا رومؒ کے دادا سے کر دی تھی۔ علم و فضل کے ساتھ اس خاندان کو دنیاوی عزت و توقیر بھی حاصل تھی۔
مولانا جلال الدین رومیؒ کے والد کا نام شیخ بہاء الدین تھا۔ ان کے مریدوں میں سید برہان الدین ایک نامور عالم تھے۔ اس لئے مولانا رومؒ کی تربیت کی ذمہ داری سید برہان الدین کے سپرد کی گئی۔ مولانا رومؒ نے اکثر ظاہری علوم ان ہی بزرگ سے حاصل کئے۔ تقریباً انیس سال کی عمر میں مولانا رومؒ اپنے والدِ محترم کے ساتھ قونیہ تشریف لے آئے۔ کچھ دن بعد آپ سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ شفیق و مہربان باپ سے جدائی ایک بڑا جانگداز سانحہ تھا مگر اللہ نے مولانا رومؒ کو صبر و ضبط کا حوصلہ عطا فرمایا۔ آپ نے اس غم سے نجات کے لئے خود کو کتابوں میں گم کر دیا پھر 629ھ میں جب مولانا رومؒ کی عمر پچیس سال تھی، آپؒ نے مزید تحصیلِ علم کے لئے شام کا رخ کیا۔ یہاں آپ سات سال تک مقیم رہے اور مسلسل اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ پھر قونیہ واپس آ گئے۔ ان ہی دنوں آپ کے استادِ معظم سید برہان الدین بھی تشریف لے آئے۔
پھر مولانا رومؒ کا امتحان لیا گیا۔ جب سید صاحب کو یقین ہو گیا کہ ان کا شاگرد ظاہری علوم کی تکمیل کر چکا ہے تو پھر ایک دن فرمایا۔
"مخدوم زادے! اب وقت آ گیا ہے کہ میں تمہارے والد کی امانت تمہیں لوٹا دوں۔" اس کے بعد سید برہان الدینؒ نے آپ کو اپنا مرید کیا اور تقریباً نو سال تک روحانی تعلیم دیتے رہے۔ سید برہان الدین ایک با ہوش بزرگ اور بیاعدی طور پر ایک عالم و فاضل شخص تھے۔ اس لئے طویل تربیت کے بعد بھی مولانا رومؒ کی زندگی پر عقل کا رنگ غالب رہا۔ دراصل سید صاحب یہی چاہتے تھے اور وہ اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے تھے۔
مولانا جلال الدین رومیؒ فطری طور پر ذہین ترین شخص تھے۔ والد محترم کی تعلیم و تربیت اور پھر سید برہان الدینؒ کی خصوصی توجہ نے مولانا کو درجۂ کمال تک پہنچا دیا تھا۔ اب آپ کا یہ عالم تھا کہ کسی علمی تقریب میں خطاب کرنے کھڑے ہو جاتے تو لوگ پتھر کی طرح ساکت و جامد ہو جاتے اور مولانا کی تقریر اس طرح سنتے کہ انہیں اپنے گرد و پیش کی بھی خبر نہ رہتی۔ یہ تاریخِ انسانی کا عجیب پہلو ہے کہ ہر دور میں حاسد اور تنگ نظر لوگوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔ اگر عام انسانی طبقوں میں ایسے لوگ پائے جائیں تو یہ عمل زیادہ خطرناک نہیں ہوتا مگر جب علماء کے دل و دماغ بھی اس بیماری کا شکار ہو جائیں تو پھر زمین پر بے شمار فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ جب مولانا رومؒ علماء کی صفوں میں نمودار ہوئے اور آپ نے اپنے کمالات کا مظاہرہ کیا تو مخلوق خدا اس قدر گرویدہ ہوئی کہ دوسرے اہلِ کمال کی عظمتوں کے چراغ دھندلے ہونے لگے۔ یہ بات علماء کی ایک جماعت کو سخت ناگوار گزری۔ پھر حسبِ روایت مولانا رومؒ کی تحقیر کرنے کے لئے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا گیا۔
پھر جب مولانا رومؒ ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرنے کھڑے ہوئے تو اچانک ایک شخص مجمع سے اٹھا اور بآواز بلند کہنے لگا۔
"محترم مولانا! آپ اپنے پسندیدہ موضوع پر ہفتوں اور مہینوں کی تیاری کے بعد تقریر کرتے ہیں، یہ تو کوئی کمال نہیں ہے۔ اس طرح تو کوئی شخص بھی اپنے علم کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ پھر آپ میں کیا خوبی ہے؟"
"میں نے کبھی اپنے کمالات کا دعویٰ نہیں کیا۔" مولانا رومؒ نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ "میں تو ایک ادنیٰ طالب علم ہوں اور میری زندگی کا مقصد مخلوقِ خدا کی خدمت ہے۔ ویسے اگر آپ اپنی طرف سے کسی موضوع کا انتخاب کر لیں تو میں اس موضوع پر بھی تقریر کرنے کی کوشش کروں گا۔" مولانا رومؒ کا جواب سن کر ہزاروں انسانوں کے مجمع پر گہرا سکوت چھا گیا۔
وہ شخص دوبارہ اٹھا اور منصوبے کے مطابق اس نے کہا۔ "مولانا! آج آپ سورۂ "والضحیٰ" کی تفسیر بیان کریں گے۔" یہ کہہ کر وہ شخص اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ اس شخص کا خیال تھا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ کسی فی البدیہہ موضوع پر تقریر کرنے سے عاجز رہیں گے اور پھر ہزاروں انسانوں کی موجودگی میں ان کی محترم شخصیت ایک تماشا بن کر رہ جائے گی۔
ایک لمحے کے لئے مولانا رومؒ کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ابھرا۔ پھر آپ نے اپنے اللہ کی کبریائی بیان کی اور حضور اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود و سلام بھیجا۔ اس کے بعد انسانی ہجوم سے مخاطب ہوئے۔
"قرآن کریم کی اس سورۂ مقدسہ میں استعمال ہونے والا پہلا حرف "واؤ" ہے۔ آج میں اسی حرفِ مقدس کی تشریح کروں گا۔" یہ کہہ کر مولانا رومؒ نے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور پھر مسلسل چھ گھنٹے تک صرف اس بات کی وضاحت کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ "والضحیٰ" میں حرف "و" کیوں استعمال کیا ہے؟ پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مولانا رومؒ کی زبان مبارک سے علم کا سمندر ابل رہا ہے، جس کی تیز موجوں میں سب کچھ بہہ جائے گا۔ ابھی آپ کی تقریر ختم ہونے بھی نہیں پائی تھی کہ وہی شخص اپنی جگہ سے دیوانہ وار اٹھا اور اس نے مولانا رومؒ کے قدموں پر سر رکھ دیا۔
"واللہ! آپ عظیم ہیں۔ آج پورے روم میں آپ کا کوئی ثانی موجود نہیں۔ یہاں کے لوگ آپ کے علم و فضل سے حسد رکھتے ہیں۔ میں بھی اسی لعنت کا شکار ہو گیا تھا۔ خدا کے لئے مجھے معاف فرما دیجیے۔"
مولانا رومؒ نے اس شخص کو اٹھا کر گلے سے لگایا اور پھر ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جو آپ کے خلاف در پردہ سازشیں کر رہے تھے۔ "میں ہر اس شخص کو معاف کرتا ہوں جو مجھ سے بے سبب عداوت رکھتا ہے۔ اللہ ان کے سینوں میں بھڑکتی ہوئی آتشِ حسد کو ٹھنڈا کر دے اور انہیں اپنے فضل و کرم سے ہدایت بخش دے۔"
یہ مولانا کی اعلیٰ ظرفی کا عظیم الشان مظاہرہ تھا جس نے بے شمار لوگوں کو آپ کا عقیدت مند بنا دیا۔
٭٭………٭٭………٭٭

Friday, May 27, 2016

بدو اور مہدی

بدو اور مہدی
عباسی خلیفہ مہدی شکارکے لئے نکلا، دوران شکار اس کا گھوڑا بدک کر ایک بدو کے خیمے میں جا گھسا، مہدی نے کہا:’’ بدو! میری مہمانی کے لئے کچھ ہے؟‘‘ بدو نے جو کی روٹی پیش کی،وہ کھا گیا، پھر بدو نے کچھ دودھ دیا تو وہ بھی پی گیا، پھر چمڑے کے برتن میں اسے نبیذ﴿ شیرئہ کھجور﴾ پیش کیا تو وہ اسے بھی پی گیا، جب سب کھا پی چکا تو بدو سے کہنے لگا.
مہدی:’’جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘
بدو:’’نہیں‘‘
مہدی: ’’میں امیر المومنین کا خصوصی خادم ہوں‘‘
بدو:’’اللہ تجھے تیرے عہدے میں برکت دے‘‘ بد و نے اسے دوسرا جام پلایا
مہدی:﴿تھوڑی دیر کے بعد﴾’’بدو! جانتے ہومیں کون ہوں؟‘‘
بدو :’’ابھی تو آپ نے بتایا ہے کہ آپ امیر المومنین﴿ خلیفہ وقت﴾ کے خصوصی خادم ہیں۔‘‘
مہدی: نہیں، میں تو امیر المومنین کا ساربان ہوں‘‘۔
بدو: ’’خدا کرے آپ کے شہر سر سبز و شاداب ہوں، آپ کی مرادیں پوری ہوں‘‘ یہ کہہ کر اس نے مہدی کو تیسرا جام پلایا، مہدی جب پی چکا تو اس نے پھر کہا:
مہدی:’’جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘
بدو: ’’آپ نے ابھی بتایا ہے کہ آپ خلیفۂ وقت کے ساربان ہیں‘‘۔
مہدی:’’نہیں، میں خود امیرالمومنین ہوں‘‘۔
بدونے یہ سنتے ہی چمڑے کا پیالہ اپنی جگہ رکھا اور کہا:’’ دفع ہوجا! اگر میں نے تجھے چوتھا جام پلایا تو تونبوت کا دعویٰ کر دے گا کہ اللہ کا رسول ہے‘‘
یہ سن کر مہدی اس قدر ہنسا کہ اس پر بیہوشی کی سی کیفیت طاری ہو گئی، تھوڑی دیر کے بعد مہدی کے ہمراہیوں اور شہسواروں نے خیمہ گھیرے میں لے لیا،بڑے بڑے امرائ و شرفائ خیمے میں داخل ہوئے، یہ منظر دیکھ کر خوف کے مارے بدو کا رنگ فق ہو گیا، مہدی نے کہا:’’گھبرانے کی ضرورت نہیں‘‘، پھر اس نے بدو کے لئے لباس اور بڑے انعام کا فرمان جاری کیا۔﴿الا بشیھی: المستطرف، ۲ / ۳ ۳۲﴾

جرات اور چالاکی ۔ خربوزہ میں سر

جمال الدین ابن واصل کچھ عینی شاہدین سے ایک دلچسپ روایت نقل کرتے ہیں کہ کہ فرانس کے بادشاہ لوئیس نہم کے مصر پر حملہ کے دوران جو کہ ساتویں صلیبی جنگ (1249 م 647 ھ )کے نام سے مشہور ہے۔


اہل منصورۃ میں سے ایک شخص نے ایک تربوز میں سوراخ کیا اور اس میں اپنا سر داخل کر کے پانی میں تیرتا رہا یہاں تک کہ اس کنارے تک پہنچا جہاں فرنگی لشکر ٹھہرا ہوا تھا ، تاکہ کنارے پر کھڑے لوگوں کو دھوکہ دے سکے کہ ایک خوش رنگ تربوز ان کی جانب رواں ہے، اور جونہی ایک لالچی سپاہی اس تربوز کو کھانے اور اس کی مٹھاس سے لطف اندوز ہونے کیلئے پانی کے درمیان پہنچا ، تو پانی میں چھپے اس دلیر جانباز نے اسے اچک کر گرفتار کر لیا اور اور تیرتا ہوا دشمن کے تیروں کی زد سے دور نکل آیا جہاں اسے قید کی حالت میں المنصورۃ معسکر لے آیا جہاں مسلمانوں کا لشکر خیمہ زن تھا۔

مُفرج الكروب في أخبار بني أيوب

Wednesday, May 25, 2016

بغداد کے بدنام زمانہ چور ابن سباط کی کارستانیاں اور جنید بغدادی کا دست محبت

درس وفا

ابو الکلام آزاد

ہجرت کی تیسری صدی قریب الاختتام ہے۔ بغداد کے تخت خلافت پر المعتضد باللہ عباسی متمکن ہے۔معتصم کے زمانے سے دارالخلافہ کا شاہی اور فوجی مستقر سامرہ میں منتقل ہو گیا ہے۔پھر بھی سر زمین بابل کے اس نئے بابل میں پندرہ لاکھ انسان بستے ہیں۔ایران کے اصطخر ، مصر کے ریمس اور یورپ کے روم کی جگہ اب دنیا کا تمدنی مرکز بغداد ہے۔

دنیا کی اس ترقی یافتہ مخلوق کا جسے انسان کہتے ہیں۔ کچھ عجیب حال ہے کہ یہ جتنا کم ہو تا ہے۔اتنا ہی نیک اور خوش ہو تا ہے اور جتنا زیادہ بڑھتا ہے اتنا ہی نیکی اور خوشی اس سے دور ہو نے لگتی ہے۔اس کا کم ہو نا خود اس کے لیے اور خدا کی زمین کے لیے بر کت ہے۔یہ جب چھوٹی چھوٹی بستیوں میں گھاس پھوس کے چھپر ڈال کر رہتا ہے تو کیسا نیک ، کیسا خوش اور کس درجہ حلیم ہو تا ہے ؟ محبت اور رحمت اس میں اپنا آشیانہ بناتی ہے اور روح کی پاکیزگی کا نور اس کے جھونپڑوں کو روشن کرتا ہے۔لیکن جونہی یہ جھونپڑیوں سے باہر نکلتا ہے اس کی بڑی بڑی بھیڑیں ایک خاص رقبہ میں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو اس کی حالت میں کیسا عجیب انقلاب ہو جا تا ہے ؟ ایک طرف تجارت بازاروں میں آتی ہے۔ صنعت و حرفت کارخانے کھولتی ہے۔ دولت سر بفلک عمارتیں بناتی ہے حکومت و اما رات شان و شکوہ کے سامان آراستہ کرتی ہے۔

لیکن دوسری طرف نیکی رخصت ہو جاتی ہے۔ محبت اور فیاضی کا سراغ نہیں ملتا اور امن و راحت کی جگہ انسانی مصیبتوں اور شقاوتوں کا ایک لا زوال دور شروع ہو جا تا ہے۔ وہی انسان کی بستی جو پہلے نیک اور محبت کی دنیا اور راحت کی برکت کی بہشت تھی۔ اب افلاس و مصیبت کا مقتل اور جرموں اور بدیوں کی دوزخ بن جاتی ہے۔وہی انسان جو جھونپڑیوں کے اندر محبت و فیاضی کی گرم جو شی تھا۔ اب شہر کے سر بفلک محلوں کے اندر بے مہری و خود غرضی کا پتھر ہوتا ہے۔جب وہ اپنے عالی شان مکانوں میں عیشِ نعمت کے دستر خوانوں پر بیٹھتا ہے تو اس کے کتنے ہی ہم جنس سڑک پر بھوک سے ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ جب وہ عیش و راحت کے ایوانوں میں حسن و جمال کی محفلیں آراستہ کر تا ہے تو اس کے ہمسایہ میں یتیموں کے آنسو نہیں تھمتے اور کتنی ہی بیوائیں ہو تی ہیں۔جن کے بد نصیب سروں پر چادر کا ایک تار بھی نہیں ہو تا۔زندگی کی قدرتی یکسانی کی جگہ اب زندگی کی مصنوعی مگر بے رحم تفاوتیں ہر گوشے میں نمایاں ہو جاتی ہیں۔

پھر جب انسانی بے مہری اور خود غرضی کے لازمی نتائج ظاہر ہو نے لگتے ہیں۔کمزوری افلاس اور بے نوائی سے مجبور ہو کر بد بخت انسان جرم کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو اچانک دنیا کی زبانوں کا سب سے زیادہ بے معنی لفظ وجود میں آ جا تا ہے۔یہ قانون اور انصاف ہے۔اب بڑی بڑی شاندار عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں اور ان کے دروازے پر لکھا جا تا ہے۔

انصاف کے اس مقدس گھر میں کیا ہو تا ہے ؟ یہ ہو تا ہے کہ وہی انسان جس نے اپنی بے رحمی اور تغافل سے مفلس کو چوری پر اور نیک انسانوں کو بد اطوار بن جانے پر مجبور کر دیا تھا ، قانون کا پُر ہیبت جبہ پہن کر آتا ہے اور فرشتوں کا سا معصوم اور راہبوں کا ساسنجیدہ چہرہ بنا کر حکم دیتا ہے کہ مجرم کو سزا دی جائے۔کیوں ! اس لیے کہ اس نے چوری کی ہے اس بد بخت نے چوری کیوں کی ؟اس لیے کہ وہ انسان ہے اور انسا ن بھوک کا عذاب بر داشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ وہ شو ہر ہے اور شو ہر اپنی بیوی کو بھو ک سے ایڑیاں رگڑتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا۔اس لیے کہ وہ ایک باپ ہے اور باپ کی طاقت سے باہر ہے کہ اپنے بچوں کے ان آنسوؤں کا نظارہ کر سکے ، جو بھوک کی اذیت سے ان کے معصوم چہروں پر بہہ رہے ہوں۔

پھر اگر بد قسمت انسان قید خانہ اور تازیانہ کی سزائیں جھیل کر بھی اس قابل نہیں ہو جاتا کہ بغیر غذا کے زندہ رہ سکے ،تو مقدس انصاف اصلاح اور انسانیت کا آخری قدم اٹھاتا ہے اور کہتا ہے اسے سولی کے تختے پر لٹکا دو یہ گو یا انسان کے پاس اس کے ابنا ء جنس کی مصیبتوں اور شقاوتوں کا آخری علاج ہے۔

یہ ہے انسان کی شہری اور متمدن زندگی کا اخلاق وہ خود ہی انسان کو برائی پر مجبور کر تا ہے اور خود ہی سزا بھی دیتا ہے ،پھر ظلم اور بے رحمی کے اس تسلسل کو انصاف کے نام سے تعبیر کر تا ہے۔اس انصاف کے نام سے جو دنیا کی سب سے زیادہ مشہور مگر سب سے زیادہ غیر مو جود حقیقت ہے۔

چوتھی صدی ہجری کا بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر اور انسانی تمدن کا سب سے بڑا مرکز تھا۔

اس لیے ضروری تھا کہ انسانی آبادی اور تمدن کے یہ تمام لازمی نتائج مو جود ہو تے گندگی میں مکھیاں اور دلدل میں مچھر اس تیزی سے پیدا نہیں ہو تے۔ جس تیزی سے شہروں کی آب و ہوا جرم اور مجرموں کو پیدا کرتی ہے۔ بغداد کے قید خانے مجرموں سے بھرے ہوئے تھے۔ پھر بھی اس کی آبادیوں میں مجرموں کی کوئی کمی نہ تھی۔

بغداد میں آج کل جس طرح حضرت شیخ جنید بغدادی کی بزرگی و درویشی کی شہرت ہے۔اسی طرح ابن سباط کی چوری اور عیاری بھی مشہور ہے۔پہلی شہرت نیکی کی ہے۔ دوسری بدی کی ، دنیا میں بدی ، نیکی کی ہر چیز کی طرح اس کی شہرت کا مقابلہ کر نا چاہتی ہے۔اگر چہ نہیں کر سکتی۔

دس برس سے ابن سباط مدائن کے محل میں قید ہے۔ اس کے خوفناک حملوں سے لو گ محفوظ ہو گئے ہیں تاہم اس کی عیاریوں اور بے باکیوں کے افسانے لو گ بھولے نہیں۔ وہ جب کبھی دلیرانہ چوری کا حال سنتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں۔یہ دوسرا ابن سباط ہے۔اس دس بر س کے اندر کتنے ہی ابن سباط پیدا ہو گئے مگر پرانے ابن سباط کی شہرت کا کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔بغداد والوں کی بو ل چال میں وہ جرائم کا شیطان اور برائیوں کا عفریت تھا۔

ابن سباط کے خاندانی حالات عوام کو بہت کم معلوم ہیں۔جب وہ پہلی مرتبہ سوق النجارین میں چوری کر تا ہو ا گرفتار ہو ا تو کو توالی میں اس کے حالات کی تفتیش کی گئی۔ معلوم ہو ا یہ بغداد کا باشندہ نہیں ہے۔اس کے ماں باپ طوس سے ایک قافلے کے ساتھ آرہے تھے راہ میں بیمار پڑ گئے اور مر گئے۔ قافلے والوں کو رحم آیا اور اپنے ساتھ بغداد پہنچا دیا۔یہ اب سے دو برس پیشتر کی بات ہے یہ دو برس اس نے کہاں اور کیوں کر بسر کیے ؟ اس کا حال کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ گرفتاری کے وقت اس کی عمر پندرہ سولہ برس تھی۔ کوتوالی کے چبوترے پر لٹا کر اس کو تازیانے مارے گئے اور چھوڑ دیا گیا۔

اس پہلی سزا نے اس کی طبعیت پر کچھ اس بر ی طرح اثر ڈالا وہ اب تک ایک ڈرا سہما کم سن لڑکا تھا۔اب اچانک ایک دلیرانہ اور بے باک مجرم کی روح اس کے ان ر پیدا ہو گئی۔گو یا اس کی تمام شقاوتیں اپنے ظہور کے لیے تازیانے کی ضرب کی منتظر تھیں۔مجرمانہ اعمال کے تمام بھید اور بدیوں ، گناہوں کے تمام مخفی طریقے ، جو کبھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں گزرے تھے۔اب اس طرح اس پر کھل گئے۔گو یا ایک تجربہ کار اور مشاق مجرم کا دماغ اس کے سر میں اتار دیا گیا۔تھوڑے ہی دنوں کے اندر وہ ایک پکا عیار اور چھٹا ہوا جرائم پیشہ انسان تھا۔

اب وہ چھوٹی چھوٹی چوریاں نہیں کرتا تھا۔ پہلی مر تبہ جب اس نے چوری کی تھی تو دو دن کی بھوک اسے نانبائی کی دکان پر لے گئی تھی۔لیکن اب وہ بھوک سے بے بس ہو کر نہیں بلکہ جرم کے ذوق سے وارفتہ ہو کر چوری کرتا تھا۔اس لیے اس کی نگاہیں نانبائی کی روٹی پر نہیں بلکہ صرافوں کی تھیلیوں اور سودا گر کے ذخیروں پر پڑتی تھیں۔ دن ہو یا رات ، بازار کی منڈی ہو یا امیر کا دیوان خانہ ہر وقت اور ہر جگہ اس کی کارستانیاں جا ری رہتیں۔ اس کے اندر ایک فاتح کا جوش تھا۔سپہ سالار کا عزم تھا ، سپاہی کی مردانگی تھی۔ مدبر کی سی دانش مندی تھی۔لیکن دنیا نے اس کے لیے یہی پسند کیا کہ وہ بغداد کے بازاروں کا چور ہے اس لیے اس کی فطرت کے تمام جو ہر اسی راہ میں نمایاں ہو نے لگے ، افسوس فطرت کس فیاضی سے بخشی ہے۔ مگر انسان کس بے دردی سے برباد کرتا ہے۔

کچھ دنوں بعد ابن سباط کی دراز دستیاں حد سے بڑھ گئیں تو حکومت کو خصوصیت کے ساتھ توجہ ہو ئی۔آخر ایک دن گرفتار کر لیا گیا۔ اب یہ کمسن لڑکا نہ تھا۔ شہر کا سب سے بڑا چور تھا۔ عدالت نے فیصلہ کیا کہ ایک ہاتھ کاٹ ڈالا جائے۔ فوراً تعمیل ہوئی اور جلاد نے ایک ہی ضرب میں اس کا پہنچا الگ کر دیا۔

ابن سباط کے ہاتھ کا کٹنا نہ تھا بلکہ سیکڑوں نئے ہاتھوں کو اس کے شانوں سے جوڑ دینا تھا۔معلوم ہو تا ہے دنیا کے سارے شیطان اور عفریت اس واقعہ کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ جوں ہی اس کا ہاتھ کٹا۔انہوں نے اپنے سیکڑوں ہاتھ اس کے حوالے کر دئیے۔ اب اس نے عراق کے تمام چور اور عیار جمع کر کے اپنا اچھا خاصا جتھا بنا لیا اور فوجی سازو ساما ن کے ساتھ لوٹ مار شروع کر دی۔تھوڑے ہی عرصہ کے اندر اس کے دلیرانہ حملوں نے تمام عراق میں تہلکہ مچا دیا۔وہ قافلوں پر حملے کرتا۔ دیہاتوں میں ڈاکے ڈالتا۔ محل سراؤں میں نقب لگاتا۔سر کاری خزانے لو ٹ لیتا اور پھر یہ سب کچھ اس ہوشیاری اور فرزانگی کے ساتھ کر تا کہ اس پر یا اس کے ساتھیوں پر کوئی آنچ نہ آتی۔ہر موقعہ صاف بچ کر نکل جا تا۔

لو گ جب اس کے مجرمانہ قصے سنتے تو دہشت و حیرت سے مبہوت رہ جاتے۔ یہ ڈاکو نہیں ہے۔ جرم کی ایک خبیث روح ہے۔وہ انسان کو لوٹ لیتی ہے مگر انسان اسے چھو نہیں سکتا ، یہ بغداد والوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔

مگر ظاہر ہے یہ حالت کب تک جاری رہ سکتی تھی۔ آخر وہ وقت آگیا کہ ابن سباط تیسری مر تبہ قانون کے پنجے میں گرفتار ہو جائے۔

ایک موقع پر جب اس نے اپنے تمام ساتھیوں کو بحفاظت نکال دیا تھا اور خود نکل بھاگنے کی تیاری کر رہا تھا۔ حکومت کے سپاہی پہنچ گئے اور گرفتار کر لیا۔اس مر تبہ وہ ایک رہزن اور ڈاکو کی حیثیت سے گرفتار ہو ا تھا۔ اس کی سزا قتل تھی۔ ابن سباط نے جب دیکھا کہ جلاد کی تلوار سر پر چمک رہی ہے تو اس کے مجرمانہ خصائل نے چانک ایک دوسرا رنگ اختیار کر لیا۔وہ تیار ہو گیا کہ اپنے بچاؤ کے لیے اپنے ساتھیوں کی جانیں قربان کر دے۔اس نے عدالت سے کہا کہ اگر اسے قتل کی سزا نہ دی جائے تو وہ اپنے جتھے کے تمام چور گرفتار کر ادے گا۔عدالت نے منظور کر لیا۔اس طرح ابن سباط خود تو قتل سے بچ گیا۔لیکن اس کے سو سے زیادہ ساتھی اس کی نشاندہی پر مو ت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ ان سو چوروں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے قتل ہو نے سے پہلے ابن سباط کے نام پر لعنت نہ بھیجی ہو۔ بد عہدی اور بے وفائی ایسی برائی ہے جسے برے بھی سب سے بڑی برائی سمجھتے ہیں۔

ابن سباط نے اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ جرم سے بھی بڑھ کر برائی کا کو ئی ایک درجہ رکھتا تھا۔

بہر حال ابن سباط مدائن کے قید خانے میں زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔اس کی آخری گرفتاری پر دس برس بیت چکے ہیں۔دس برسوں کا زمانہ اس کے لیے کم مدت نہیں ہے کہ ایک مجرم کی سیاہ کاریاں بھلا دی جائیں۔ لیکن ابن سباط جیسے مجرم کے کارنامے مدتوں تک نہیں بھلائے جا سکتے۔دس برس گزرنے پر بھی اس کے دلیرانہ جرائم کا ذکر بچہ بچہ کی زبان پر ہے لو گوں کو یہ بات تو بھولے سے بھی یاد نہیں آتی کہ ابن سباط ہے کہاں اور کس حالت میں ؟ کیونکہ یہ معلوم کرنے کی انہیں ضرورت بھی نہیں ہے البتہ وہ اس کے دلیرانہ کارنامے بھولنا نہیں چاہتے کیونکہ اس تذکرہ میں ان کے لیے لطف اور دلچسپی ہے انہیں ابن سباط کی نہیں اپنی دلچسپیوں کی فکر ہے۔

انسان کی بے مہریوں کی طرح اس کی دلچسپیوں کا بھی کیسا عجیب حال ہے ؟ وہ عجیب عجیب اور غیر معمولی باتیں دیکھ کر خوش ہو تا ہے۔لیکن اس کی پرواہ نہیں کر تا کہ اس کی دلچسپی کا تماشہ کیسی کیسی مصیبتوں اور شقاوتوں کی پیدائش کے بعد ظہور میں آسکا ہے ؟اگر ایک چور دلیری کے ساتھ چو ری کر تا ہے تو ی اس کے لیے بڑی ہی دلچسپی کا واقعہ ہے وہ اس کی صورت دیکھنے کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے۔وہ گھنٹوں اس پر رائے زنی کر تا ہے اور وہ تمام اخبار خرید لیتا ہے جس پر اس کی تصویر چھپی ہو یا اس کا تذکرہ کیا گیا ہو۔ لیکن اس واقعہ میں چور کے لیے کیسی شقاوت ہے ؟ اور جس مسکین کا مال چوری ہو گیا ہے اس کے لیے کیسی مصیبت ہے ؟ اس کے سوچنے کی وہ کبھی زحمت گوارا نہیں کر تا۔

اگر ایک مکان میں آگ لگ جائے تو انسان کے لیے یہ بڑا ہی دلچسپ نظارہ ہو تا ہے۔ سارا شہر امڈ آتا ہے جس کسی کو دیکھو بے تحاشہ دوڑا جا تا ہے۔ لو گ اس نظارہ کے شوق میں اپنا کھا نا پینا تک بھول جاتے ہیں۔اگر چند زندہ انسانوں کے جھلسے ہوئے چہرے آگ کے شعلوں کے اندر نمودار ہو جائیں اور ان کی چیخیں اتنی بلند ہو ں کہ دیکھنے والوں کے کان تک پہنچ سکیں۔تو پھر اس نظارہ کی دلچسپی انتہائی حد تک پہنچ جاتی ہے۔تماشائی جوشِ نظارہ میں مجنوں ہو کر ایک دوسرے پر گرنے لگتے ہیں لیکن انسانی دلچسپی کے اس جہنمی منظر میں اس مکان اور اس کے مکینوں کے لیے کیسی ہلاکت اور تباہی ہے ؟ اور جان و مال کی کیسی المناک بربادیوں کے بعد آگ اور مو ت کی ہولناک دلچسپی وجود میں آسکی ہے ؟ اس بات کے سوچنے کی نہ تو لو گوں کو فرصت ملتی ہے نہ وہ سوچنا چاہتے ہیں۔

اگر انسان کے ابناء جنس میں سے ایک بد بخت مخلوق سولی کے تختہ پر لٹکا دیا جائے تو یہ ان تمام نظاروں میں سے جن کے دیکھنے کا انسان شائق ہو سکتا ہے سب سے زیادہ دلکش نظارہ ہے۔اتنا دلکش نظارہ کی گھنٹوں کھڑے رہ کر لٹکتی ہو ئی نعش دیکھتا رہتا ہے۔ مگر اس کی سیری نہیں ہوتی۔ لو گ درختوں پر چڑھ جاتے ہیں ایک دوسرے پر گرنے لگتے ہیں صفیں چیر چیر کر نکل جا نا چاہتے ہیں کیوں ؟ اس لیے کہ اپنے ہم جنس کو جانکنی میں تڑپنے اور پھر ہو ا میں معلق جھولتے دیکھ لینے کی لذت حاصل کر لیں ! لیکن جس انسان کے پھانسی پانے سے انسانی نظارہ کا یہ سب سے زیادہ دل کش تماشا وجود میں آیا۔خود اس پر کیا گزری ؟اور کیوں وہ اس منحوس اور شرمناک مو ت کا مستحق ٹھہرا ؟ سیکڑوں ہزاروں تماشائیوں میں سے ایک کا ذہن بھی اس غیر ضروری اور غیر دلچسپ پہلو کی طرف نہیں جا تا۔

گرمیوں کا مو سم ہے ، آدھی رات گزر چکی ہے مہینہ کی آخری راتیں ہیں۔ بغداد کے آسمان پر ستاروں کی مجلس شبینہ آراستہ ہے۔ مگر چاند برآمد ہو نے میں ابھی دیر ہے۔ دجلہ کے پار کرخ کی تمام آبادی نیند کی خاموشی اور رات کی تاریکی میں گم ہے۔

اچانک تاریکی میں ایک متحرک تاریکی نمایا ں ہو ئی۔ سیاہ لبادے میں ایک لپٹا ہو ا آدمی خاموشی اور آہستگی کے ساتھ جا رہا ہے۔وہ ایک گلی سے مڑ کر دوسری گلی میں پہنچا اور ایک مکان کے سائبان کے نیچے کھڑا ہو گیا۔اب اس نے سانس لی۔گو یا یہ مدت کی بند سانس تھی ،جسے اب آزادی سے ابھرنے کی مہلت ملی ہے پھر اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی '' یقیناً تین پہر رات گزر چکی ہے '' وہ اپنے دل میں کہنے لگا۔ ''مگر کیا بد نصیبی ہے کہ جس طرف رخ کیا ناکامی ہی ہو ئی۔کیا پو ری رات اسی طرح ختم ہو جائے گی ؟''

یہ خوفناک ابن سباط ہے جو دس برس کی طول طویل زندگی قید خانہ میں بسر کر کے اب کسی طرف نکل بھا گا ہے اور نکلنے کے ساتھ ہی اپنا قدیم پیشہ از سر نو شروع کر رہا ہے۔ یہ اس کی نئی مجرمانہ زندگی کی پہلی رات ہے۔اس لیے وقت کے بے نتیجہ ضائع جانے پر اس کا بے صبر دل پیچ و تاب کھا رہا ہے۔

اس نے ہر طرف کی آہٹ لی۔زمین سے کان لگا کر دور دور تک کی صداؤں کا جائزہ لیا اور مطمئن ہو کر آگے بڑھا۔ کچھ دور چل کر اس نے دیکھا ایک احاطہ کی دیوار دور دور تک چلی گئی ہے اور وسط میں بہت بڑا پھاٹک ہے کرخ کے اس علاقہ میں زیادہ تر امراء کے باغ تھے ،یا سودا گروں کے گودام تھے اس نے خیال کیا یہ احاطہ یا تو کسی امیر کا باغ ہے یا سودا گروں کا گودام وہ پھاٹک کے پاس پہنچ کر رک گیا۔ اور سوچنے لگا اندر کیوں کر جائے ؟ اس نے آہستگی سے دروازہ پر ہاتھ رکھا۔ لیکن اسے نہایت تعجب ہو ا کہ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ صرف بھڑا ہوا تھا ایک سیکنڈ کے اندر ابن سباط کے قدم احاطہ کے اندر پہنچ گئے۔

اس نے دہلیز سے قدم آگے بڑھایا تو ایک وسیع احاطہ نظر آیا۔اس کے مختلف گوشوں میں چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے تھے اور وسط میں ایک نسبتاً بڑی عمارت تھی۔یہ درمیانی عمارت کی طرف بڑھا۔ عجیب بات ہے کہ اس کا دروازہ بھی اندر سے بند نہ تھا۔چھوتے ہی کھل گیا۔ گویا وہ کسی کی آمد کا منتظر تھا۔یہ ایک ایسی بیباکی کے ساتھ جو صرف مشاق مجرموں ہی کے قدموں میں ہو سکتی ہے۔ اندر چلا گیا اندر جا کر دیکھا تو ایک وسیع ایوان تھا۔ لیکن سامانِ راحت و زینت میں سے کو ئی چیز بھی نہ تھی۔قیمتی اشیاء کا نام و نشان نہ تھا۔ صرف ایک کھجور کے پتوں کی پرانی چٹائی بچھی تھی اور ایک طرف چمڑے کا تکیہ پڑا تھا۔ البتہ ایک گوشہ میں پشمینہ کے موٹے کپڑے کے بہت سے تھا ن اس طرح بے ترتیب پڑے تھے۔ گو یا کسی نے جلد ی میں پھینک دئیے ہیں اور ان کے قریب ہی بھیڑ کی کھال کی چند ٹوپیاں بھی پڑی تھیں۔اس نے مکان کی موجودات کا یہ پورا جائزہ کچھ تو اپنی اندھیرے میں دیکھ لینے والی آنکھوں سے لے لیا تھا اور کچھ اپنے ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر۔ لیکن اس کا ہاتھ ایک ہی تھا یہ بغداد والوں کی بول چال میں '' ایک ہاتھ کا شیطان تھا '' جو اب پھر قید و بند کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہو گیا ہے۔دس برس کی قید کے بعد ابن سباط کو آج پہلی مرتبہ موقع ملا تھا کہ اپنے دل پسند کام کی جستجو میں آزادی کے ساتھ نکلے۔جب اس نے دیکھا اس مکان میں کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے اور یہ پہلا قدم بیکار ثابت ہو گا تو اس کے تیز اور بے لگام جذبات سخت مشتعل ہو گئے وہ دل ہی دل میں اس مکان والوں کو گالیاں دینے لگا ،جو اپنے مکان میں رکھنے کے لیے قیمتی اشیاء فراہم نہ کر سکے۔ایک مفلس کا افلاس خود اس کے لیے اس قدر درد انگیز نہیں ہو تا جس قدر اس چور کے لیے جو رات کے پچھلے پہر مال و دولت کی تلاش کر تا ہو ا پہنچتا ہے۔ اس میں شک نہیں ، پشمینہ کے بہت سے تھان یہاں موجود تھے اور وہ کتنے ہی موٹے اور ادنیٰ قسم کے کیوں نہ ہوں۔ مگر پھر بھی اپنی قیمت رکھتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ابن سباط تنہا تھا اور صرف تنہا ہی نہ تھا۔ بلکہ دو ہاتھوں کی جگہ صرف ایک ہاتھ رکھتا تھا۔وہ ہزار ہمت کرتا ، مگر اتنا بڑا بوجھ اس کے سنبھالے سنبھل نہ سکتا تھا۔ وہ تھانوں کی موجودگی پر معترض نہ تھا۔ ان کے وزن کی گرانی اور اپنی مجبوری پر متاسف تھا۔اتنی وزنی چیز چرا کر لے جانا آسان نہ تھا۔

'' ایک ہزار لعنت کرخ اور اس کے تمام باشندوں پر '' وہ اندر ہی اندر بڑبڑانے لگا۔

'' نہیں معلوم کون احمق ہے جس نے یہ ملعون تھان جمع کر رکھے ہیں ؟ غالباً کو ئی تاجر ہے لیکن یہ عجیب طرح کا تاجر ہے۔ جسے بغداد میں تجارت کرنے کے لیے کوئی اور چیز نہیں ملی۔اتنا بڑا مکان بنا کر گدھوں خچروں کی جھول بنانے کا سامان جمع کر دیا۔ اس نے اپنے ایک ہی ہاتھ سے ایک تھان کی ٹٹول ٹٹول کر پیمائش کی '' بھلا یہ ملعون بوجھ کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے ؟'' ایک تھان کے اٹھانے کے لیے گن کر دس گدھے ساتھ لانے چاہئیں۔

لیکن بہر حال کچھ نہ کچھ کر نا ضروری تھا۔ رات جا رہی تھی اس نے سو چا جلدی سے ایک دو تھان جو اٹھائے جا سکتے ہیں اٹھا لے۔مشکل یہ تھی کہ مال کم قیمت مگر بہت زیادہ وزنی تھا۔کم لیتا ہے تو بیکار ہے۔زیادہ لیتا ہے تو لے جا نہیں سکتا۔عجب طرح کی کشمکش میں گرفتار تھا۔بہر حال کسی نہ کسی طرح یہ مرحلہ طے ہو ا۔ لیکن اب دوسری مشکل پیش آئی۔ صوف کا کپڑا بے حد موٹا تھا۔ اسے مروڑ دے کر گرہ لگا نا آسان نہ تھا۔دونوں ہاتھوں سے بھی یہ کام مشکل تھا۔ چہ جائے کہ ایک ہاتھ سے ؟ بلا شبہ اس کے پاس ہاتھ کی طرح پاؤں ایک نہ تھا ، دو تھے۔ لیکن وہ بھاگنے میں مدد دے سکتے تھے۔ صوف کی گٹھڑی باندھنے کے لیے سود مند نہ تھے۔اس نے بہت سی تجویزیں سوچیں۔ طرح طرح کے تجربے کیے دانتوں سے کام لیا۔ کٹی ہو ئی کہنی سے سرا دبایا۔ لیکن کسی طرح بھی گٹھڑی میں گرہ نہ لگ سکی ، وقت کی مصیبتوں میں تاریکی کی شدت نے اور زیادہ اضافہ کر دیا تھا۔ اندرونی جذبات کے ہیجان اور بیرونی فعل کی بے سود محنت نے ابن سباط کو بہت جلد تھکا دیا۔وقت کی کمی ، عمل کا قدرتی خوف ، مال کی گرانی ، محنت کی شدت اور فائدہ کی قلت اس کے دماغ کے لیے تمام مخالف تاثرات جمع ہو گئے تھے۔

اچانک وہ چونک اٹھا۔اس کی تیز قوت سماعت نے کسی کے قدموں کی نرم آہٹ محسوس کی۔ ایک لمحہ تک خاموشی رہی۔ پھر ایسا محسوس ہو ا ، جیسے کوئی آدمی دروازہ کے پاس کھڑا ہے۔ابن سباط گھبرا کر اٹھ کھڑا ہو ا۔ مگر قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کر سکے۔ دروازہ کھلا اور روشنی نمایاں ہو ئی۔ خوف اور دہشت سے اس کا خون منجمد ہو گیا۔جہاں کھڑا تھا وہیں قدم گڑھ گئے۔نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک شخص کھڑا ہے۔ اس کے ہا تھ میں ایک شمعدان ہے اور اسے اس طرح اونچا کر رکھا ہے کہ کمرے کے تمام حصے روشن ہو گئے ہیں۔اس شخص کی وضع و قطع سے اس کی شخصیت کا اندازہ کر نا مشکل تھا۔ ملگجے رنگ کی ایک عبا اس کے جسم پر تھی ، جسے کمر کے پاس ایک موٹی رسی لپیٹ کر جسم پر چست کر لیا تھا۔سر پر سیاہ قلنسوہ (اونچی دیوار کی ٹوپی ) تھی اور اس قدر کشادہ تھی کہ اس کے کنارے ابروؤں کے قریب تک پہنچ گئے تھے۔جسم نہایت نحیف تھا۔اتنا نحیف کہ صوف کی موٹی عبا پہننے پر بھی اندر کی ابھری ہڈیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں اور قد کی درازی نے جس میں کمر کے پاس خفیف سی خمیدگی پیدا ہو گئی تھی۔یہ نحافت اور زیادہ نمایا ں کر دی تھی۔ لیکن یہ عجیب بات تھی کہ جسم کی اس غیر معمولی نحافت کا کوئی اثر اس کے چہرے پر نظر نہیں آتا تھا۔اتنا کمزور جسم رکھنے پر بھی اس کا چہرہ کچھ عجیب طرح کی تاثیر و گیرائی رکھتا تھا ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے ہڈیوں کے ایک ڈھانچے پر ایک شاندار اور دلآویز چہرہ جوڑ دیا گیا ہے۔رنگت زرد تھی۔ رخسار بے گوشت تھے۔جسمانی تنو مندی کا نام و نشان نہ تھا۔ لیکن پھر بھی چہرے کی مجموعی ہیئت میں کوئی ایسی شاندار چیز تھی کہ دیکھنے والا محسوس کرتا تھا۔ایک نہایت طاقتور چہرہ اس کے سامنے ہے۔خصوصاً اس کی نگاہیں ایسی روشن ایسی مطمئن ایسی ساکن تھیں کہ معلوم ہو تا تھا ، دنیا کی ساری راحت اور سکون انہی دو حلقوں کے اندر سما گئی ہے۔

چند لمحوں تک یہ شخص شمع اونچی کیے ابن سباط کو دیکھتا رہا۔پھر اس طرح آگے بڑھا اسے جو کچھ سمجھنا تھا۔ سمجھ چکا ہے۔اس کے چہرے پر ہلکا سا زیر لب تبسم تھا ایسا دلآویز اور ایسا شیریں تبسم جس کی موجودگی انسانی روح کے سارے اضطراب اور خوف دور کر سکتی ہے۔اس نے شمع دان ایک طرف دکھ دیا اور ایک ایسی آواز میں جو شفقت و ہمدردی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ابن سباط سے کہا:

'' میرے دوست ! تم پر خد ا کی سلامتی ہو۔جو کام تم کرنا چاہتے ہو ، یہ بغیر روشنی اور ایک رفیق کے انجام نہیں پا سکتا۔ دیکھو یہ شمع روشن ہے اور میں تمہاری رفاقت کے لیے موجود ہوں۔روشنی میں ہم دونوں اطمینان اور سہولت کے ساتھ یہ کام انجام دے لیں گے۔ ''

وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ جیسے کچھ سوچنے لگا ہے۔پھر اس نے کہا '' مگر میں دیکھتا ہوں تم بہت تھک گئے ہو۔ تمہاری پیشانی پسینہ سے تر ہو رہی ہے۔ یہ گرم موسم بند کمرہ تاریکی اور تاریکی میں ایسی سخت محنت ، افسوس ، انسان کو اپنے رزق کے لیے کیسی کیسی زحمتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ دیکھو ! یہ چٹائی بچھی ہے۔ یہ چمڑے کا تکیہ ہے۔ میں اسے دیوار کے ساتھ لگا دیتا ہوں۔ '' اس نے تکیہ دیوار کے ساتھ لگا کر رکھ دیا '' بس ٹھیک ہے اب تم اطمینان کے لیے ٹیک لگا کر یہاں بیٹھ جاؤ اور اچھی طرح سستا لو۔ اتنی دیر میں تمہارا ادھورا کام پو را کیے دیتا ہوں۔ '' اس نے یہ کہا اور ابن سباط کے کاندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھ کر اسے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ پھر جب اس کی نظر دوبارہ اس کی عرق آلود پیشانی پر پڑی ، تو اس نے اپنی کمر سے رومال کھولا اور اس کی پیشانی کا پسینہ پونچھ ڈالا۔ جب وہ پسینہ پونچھ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں باپ کی سی شفقت اور ہاتھوں میں بھائی کی سی محبت کام کر رہی تھی۔

صورتحال کے یہ تمام تغیرات اس تیزی سے ظہور میں آئے کہ ابن سباط کا دماغ مختل ہو کر رہ گیا۔ وہ کچھ سمجھ نہ سکا کہ معاملہ کیا ہے ؟ ایک مدہوش اور بے ارادہ آدمی کی طرح اس نے اجنبی کے اشارہ کی تعمیل کی اور چٹائی پر بیٹھ گیا۔ اب اس نے دیکھا کہ واقعی اجنبی نے کام شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے وہ گٹھڑی کھولی جو ابن سباط نے باندھنی چاہی تھی۔ مگر نہیں بندھ سکی تھی۔پھر دو تھان کھول کر بچھا دیے اور جس قدر بھی تھان مو جود تھی۔ ان سب کو دو حصوں میں منقسم کر دیا۔ ایک حصہ میں زیادہ تھے۔ایک میں کم۔ پھر دونوں کی الگ الگ دو گٹھڑیاں باندھ لیں۔ یہ تمام کام اس نے اس اطمینان اور سکون کے ساتھ کیا ، گو یا اس میں اس کے لیے کوئی انوکھی بات نہ تھی۔

پھر اچانک اسے کوئی خیال آیا۔ اس نے اپنا عبا اتار ڈالی اور اسے بھی گٹھڑی کے اندر رکھ دیا۔ اب وہ اٹھا اور ابن سباط کے قریب گیا۔

'' میرے دوست ! تمہارے چہرے سے معلوم ہو تا ہے کہ تم صرف تھکے ہوئے نہیں ہو بلکہ بھوکے بھی ہو۔بہتر ہو گا کہ چلنے سے پہلے دودھ کا ایک پیالہ پی لو۔اگر تم چند لمحے انتظار کر سکو تو میں دودھ لے آؤں '' اس نے کہا۔ جبکہ اس کے پُر شکوہ چہر ہ پر بد ستور مسکراہٹ کی دلآویزی موجود تھی۔ممکن نہ تھا کہ اس کی مسکراہٹ سے انسانی قلب کے تمام اضطراب محو نہ ہو جائیں۔

قبل ازیں اس کے کہ ابن سباط جواب دے ، وہ تیزی کے ساتھ لوٹا اور باہر نکل گیا۔

اب ابن سباط تنہا تھا۔ لیکن تنہا ہو نے پر بھی اس کے قدموں میں حرکت نہ ہو ئی۔اجنبی کے طرز عمل میں کوئی بات ایسی نہ تھی ، جس سے اس کے اندر خوف پیدا ہو تا۔وہ صرف متحیر و مبہوت تھا۔

اجنبی کی ہستی اور اس کا طور طریقہ ایسا عجیب و غریب تھا کہ جب تک وہ موجود رہا۔ ابن سباط کو تحیر و تاثیر نے سوچنے سمجھنے کی مہلت ہی نہ دی۔

اجنبی کی شخصیت کی تاثیر سے اس کی دماغی شخصیت مغلوب ہو گئی تھی۔لیکن اب وہ تنہا ہو ا تو آہستہ آہستہ اس کا دماغ اپنی اصلی حالت پر واپس آنے لگا۔یہاں تک کہ تمام خصائل پوری طرح ابھر آئے اور وہ اسی روشنی میں معاملات کو دیکھنے لگا جس روشنی میں دیکھنے کا ہمیشہ سے عادی تھا۔

وہ اجنبی کا متبسم چہرہ اور دلنواز صدائیں یاد کرتا تو ، شک اور خوف کی جگہ اس کے اندر ایک ناقابل فہم جذبہ پیدا ہو جاتا ، جو آج تک اسے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔لیکن پھر جب وہ سوچتا کہ اس تمام معاملہ کا مطلب کیا ہے ؟ اور یہ شخص کون ہے ؟ تو اس کی عقل حیران رہ جاتی اور کوئی بات سمجھ میں نہ آتی۔ اس نے اپنے دل میں کہا '' یہ تو قطعی ہے کہ یہ شخص اس مکان کا مالک نہیں ہے مکان کے مالک کبھی چوروں کا اس طرح استقبال نہیں کیا کرتے ...... مگر یہ شخص ہے کون ؟

اچانک ایک نیا خیال اس کے اندر پیدا ہوا۔ وہ ہنسا '' استغفراللہ '' میں بھی کیا احمق ہوں۔ یہ بھی کوئی سوچنے کی اور حیران ہونے کی بات تھی ؟ معاملہ بالکل صاف ہے۔ تعجب ہے مجھے پہلے کیوں خیال نہیں ہو ا ؟ یقیناً یہ بھی کوئی میرا ہی ہم پیشہ آدمی ہے اور اسی طرح نواح میں رہتا ہے۔ اتفاقات نے آج ہم دونوں چوروں کو ایک ہی مکان میں جمع کر دیا۔ چونکہ یہ اسی نواح کا آدمی ہے اس لیے اس مکان کے تمام حالات سے واقف ہو گا۔اسے معلوم ہو گا کہ آج مکان رہنے والوں سے خالی ہے اور یہ اطمینان سے کام کرنے کا موقع ہے۔اس لیے وہ روشنی کا سامان ساتھ لے کر آیا۔لیکن جب دیکھا کہ میں پہلے سے پہنچا ہوا ہوں تو آمادہ ہو گیا کہ میرا ساتھ دے کر ایک حصہ کا حق دار بن جائے۔

وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور اجنبی ایک لکڑی کا بڑا پیالہ ہاتھ میں لیے نمودار ہو گیا۔یہ لو ! میں تمہارے لیے دودھ لایا ہوں۔ اسے پی لو ! یہ بھوک اور پیاس دونوں کے لیے مفید ہو گا '' اس نے کہا اور پیالہ ابن سباط کو پکڑا دیا۔ ابن سباط واقعی بھو کا پیا سا تھا۔ بلا تامل منہ کو لگا لیا اور ایک ہی مرتبہ میں ختم کر دیا۔ اب اسے معاملہ کی فکر ہوئی۔ اتنی دیر کے وقفہ نے اس کی طبیعت بحال کر دی تھی۔

'' دیکھو ! اگر چہ میں تم سے پہلے یہاں پہنچ چکا تھا اور ہاتھ لگا چکا تھا اور اس کے لیے ہم لوگوں کے قاعدہ کے بموجب تمہارا کو ئی حق نہیں۔ لیکن تمہاری ہوشیاری اور مستعدی دیکھ لینے کے بعد مجھے کوئی تامل نہیں کہ تمہیں بھی اس مال میں شریک کر لوں۔اگر تم پسند کرو گے تو میں ہمیشہ کے لیے تم سے معاملہ کر لوں گا۔لیکن دیکھو! یہ کہے دیتا ہوں کہ آج جو کچھ بھی یہاں سے لے جائیں گے۔ اس میں تم برابر کا حصہ نہیں پا سکتے۔کیونکہ در اصل آج کا کام میرا ہی کام تھا۔ ''

اس نے صاف آواز میں کہا۔ اس کی آواز میں اب تاثر نہیں تھا۔ تحکم تھا۔اجنبی مسکرایا اس نے ابن سباط پر ایک ایسی نظر ڈالی ، جو اگر چہ شفقت و مہر سے خالی نہ تھی۔ لیکن ابن سباط سمجھ نہ سکا۔اس نے خیال کیا۔ شاید یہ شخص اس طریقِ تقسیم پر قانع نہیں ہے۔ اچانک اس کی آنکھوں میں اس کی خوفناک مجرمانہ درندگی چمک اٹھی ، وہ غصہ سے مضطرب ہو کر کھڑا ہو گیا۔

'' بیوقوف ! چپ کیوں ہے ؟ یہ نہ سمجھنا کہ دودھ کا ایک پیالہ پلا کر اور چکنی چپڑی باتیں کر کے تم مجھے احمق بنا لو گے۔ تم نہیں جانتے میں کون ہوں۔مجھے کوئی احمق نہیں بنا سکتا۔ میں ساری دنیا کو احمق بنا چکا ہوں۔ بو لو اس پر راضی ہو یا نہیں ؟ اگر نہیں ہو تو ......''

لیکن ابھی اس بات کی پو ری نہیں ہوئی تھی کہ اجنبی کے لب متحرک ہوئے۔اب بھی اس کے لبوں سے مسکراہٹ نہیں ہٹی تھی۔

'' میرے عزیز دوست ! کیوں بلا وجہ اپنی طبیعت آزردہ کرتے ہو ؟ آؤ ! یہ کام جلد نپٹا لیں۔ جو ہمارے سامنے ہے دیکھو! میں نے دو گٹھڑیاں باندھ لی ہیں۔ ایک چھوٹی ہے ایک بڑی ہے تمہارا ایک ہاتھ ہے اس لیے تم زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے لیکن میں دونوں ہاتھوں سے سنبھا ل لوں گا۔ چھوٹی گٹھڑی تم اٹھا لو بڑی میں اٹھا لیتا ہوں۔ باقی رہا میرا حصہ جس کے خیال سے تمہیں آزردگی ہو ئی ہے تو میں بھی نہیں چاہتا۔ اس وقت اس کا فیصلہ کراؤں تم نے کہا ہے کہ تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے معاملہ کر سکتے ہو۔ مجھے بھی ایسا معاملہ پسند ہے۔ میں چاہتا ہوں ، تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے معاملہ کر لو۔ ''

'' ہاں اگر یہ بات ہے تو پھر سب کچھ ٹھیک ہے۔ تمہیں ابھی معلوم نہیں میں کون ہوں ، پورے ملک میں تمہیں مجھ سے بہتر کوئی سردار نہیں مل سکتا '' اس نے بڑی گٹھڑی کے اٹھانے میں اجنبی کو مدد دیتے ہوئے کہا۔

یہ گٹھڑی اس قدر بھاری تھی کہ ابن سباط اپنی حیرانی نہ چھپا سکا۔ وہ اگرچہ اپنے نئے رفیق کی زیادہ جرات افزائی کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ پھر بھی اس کی زبان سے بے اختیار نکل گیا۔

'' دوست ! تم دیکھنے میں تو بڑے دبلے پتلے ہو لیکن بوجھ اٹھانے میں بڑے مضبوط نکلے۔ '' ساتھ ہی اس نے اپنے دل میں کہا '' یہ جتنا مضبوط ہے اتنا عقلمند نہیں ہے۔ ورنہ اپنے حصے سے دستبردار نہ ہو جا تا۔ اگر آج یہ احمق نہ مل جا تا تو مجھے سارا مال چھوڑ کر صرف ایک دو تھانوں پر قناعت کر لینی پڑتی۔

اب ابن سباط نے اپنے گٹھڑی اٹھائی جو بہت ہی ہلکی تھی اور دونوں با ہر نکلے اجنبی کی پیٹھ ، جس میں پہلے سے خم مو جود تھا۔اب گٹھڑی کے بوجھ سے بالکل ہی جھک گئی تھی۔ رات کی تاریکی میں اتنا بھاری بوجھ اٹھا کر چلنا نہایت دشوار تھا۔ لیکن ابن سباط کو قدرتی طور پر جلدی تھی۔ وہ بار بار حاکمانہ انداز سے اصرار کر تا کہ تیز چلو اور چونکہ خود اس کا بوجھ بہت ہلکا تھا ، اس لیے خود تیز چلنے میں کسی طرح کی دشواری محسوس نہیں کر تا تھا۔اجنبی تعمیلِ حکم کی پو ری کو شش کرتا ، لیکن بھاری بوجھ اٹھا کر دوڑنا انسانی طاقت سے باہر تھا ، اس لیے پو ری کوشش کر نے پر بھی زیادہ تیز نہیں چل سکتا تھا۔ کئی مرتبہ ٹھوکریں لگیں ، بارہا بوجھ گرتے گرتے رہ گیا۔ ایک مرتبہ اتنی سخت چوٹ کھائی قریب تھا کہ گر جائے۔ پھر بھی اس نے رکنے یا سستانے کا نام نہیں لیا۔ گرتا پڑتا اپنے ساتھی کے ساتھ بڑھتا ہی رہا۔لیکن ابن سباط اس پر بھی خوش نہ تھا۔ اس نے پہلے تو دو مرتبہ تیز چلنے کا حکم دیا۔ پھر بے تامل گالیوں پر اتر آیا۔ ہر لمحہ کے بعد ایک سخت گالی دیتا اور کہتا تیز چلو جسر (پل) آیا یہاں چڑھائی تھی۔ جسم کمزور اور تھکا ہو ا۔ بوجھ بے حد بھاری۔ اجنبی سنبھل نہ سکا اور بے اختیار گر پڑا۔ ابھی وہ اٹھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اوپر سے ایک سخت لات پڑی یہ ابن سباط کی لات تھی۔ اس نے غضبناک ہو کر کہا۔کتے کے بیٹے ! اگر اتنا بوجھ سنبھال نہیں سکتا تھا تو لاد کر لایا کیوں ؟ '' اجنبی ہانپتا ہو ا اٹھا اس کے چہرے پر درد و شکایت کی جگہ شرمندگی کے آثار پائے جاتے تھے۔اس نے فوراً گٹھڑی اٹھا کر پیٹھ پر رکھی اور پھر روانہ ہو گیا۔

اب یہ دونوں شہر کے کنارے ایک ایسے حصہ میں پہنچ گئے۔جو بہت ہی کم آباد تھا ، یہاں ایک ناتمام عمارت کا پر ا نا اور شکستہ احاطہ تھا۔ ابن سباط اس احاطہ کے اندر گیا اور اجنبی نے باہر سے دونوں گٹھڑیاں اندر پھینک دیں۔اس کے بعد اجنبی بھی کود کر اندر ہو گیا اور دونوں عمارت کے اندرونی حصے میں پہنچ گئے۔اس عمارت کے نیچے ایک پرانا سرداب (تہ خانہ) تھا ، جس میں ابن سباط نے قید خانے سے نکل کر پناہ لی تھی لیکن اس وقت وہ سرداب میں نہیں اترا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اجنبی پر بھی اس درجہ اعتماد کرے کہ اپنا اصلی محفوظ مقام دکھلا دے۔ جس جگہ یہ دونوں کھڑے تھے۔ در اصل ایک نا تمام ایوان تھا۔ یا تو اس پر چھت پڑی ہی نہ تھی یا پڑی تھی تو شکستہ ہو کر گر پڑی تھی۔ایک طرف بہت سے پتھروں کا ڈھیر تھا ابن سباط انہی پتھروں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ دونوں گٹھڑیاں سامنے دھری تھیں۔ ایک گوشہ میں اجنبی کھڑا ہانپ رہا تھا۔کچھ دیر تک خاموشی رہی۔

یکایک اجنبی بڑھا اور ابن سباط کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اب رات ختم ہو نے پر بھی پچھلے پہر کا چاند درخشندہ تھا۔کھلی چھت سے اس کی دھیمی اور ظلمت آلود شعاعیں ایوان کے اندر پہنچ رہی تھیں۔ابن سباط دیوار کے سائے میں تھا۔ لیکن اجنبی جو اب اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ٹھیک چاند کے مقابل تھا۔اس لیے اس کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ابن سباط نے دیکھا کہ تاریکی میں ایک درخشاں چہرہ ، ایک نورانی تبسم ایک پر اسرار انداز نگاہ کی دلآویزی سامنے ہے۔

'' میرے عزیز دوست اور رفیق '' اجنبی نے اپنی اسی دلنواز اور شیریں آواز میں جو دو گھنٹہ پہلے ابن سباط کو بے خود کر چکی تھی۔کہنا شروع کیا '' میں نے اپنی خدمت پوری کر لی ہے اب میں تم سے رخصت ہو تا ہوں۔ اس کام کے کرنے میں مجھ سے جو کمزوری اور سستی ظاہر ہوئی اور اس کی وجہ سے بار بار تمہیں پریشان خاطر ہو نا پڑا۔ اس کے لیے میں بہت شرمندہ ہوں اور تم سے معافی چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تم مجھے معاف کر دو گے۔ اس دنیا میں ہماری کو ئی بات بھی خدا کے کاموں سے اس قدر ملتی جلتی نہیں ہے جس قدر یہ بات کہ ہم ایک دوسرے کو معاف کر دیں اور بخش دیں۔لیکن قبل اس کے کہ میں تم سے الگ ہوں۔ تمہیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو تم نے خیال کیا ہے میں اسی مکان میں رہتا ہوں جہاں آج تم سے ملاقات ہو ئی ہے اور تم نے میری رفاقت قبول کر لی تھی۔ میر ی عادت ہے کہ رات کو تھوڑی دیر کے لیے اس کمرے میں جایا کرتا ہوں۔ جہاں تم بیٹھے تھے۔ آج آیا تو دیکھا ، تم اندھیرے میں بیٹھے ہو اور تکلیف اٹھا رہے ہو تم میرے گھر میں میرے عزیز مہمان تھے۔ افسوس ! میں آج اس سے زیادہ تمہاری تواضع اور خدمت نہ کر سکا۔تم نے میرا مکان دیکھ لیا ہے آئندہ جب کبھی تمہیں ضرورت ہو بلا تکلف اپنے رفیق کے پاس چلے آسکتے ہو۔ خدا کی سلامتی اور برکت ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے۔ ''

یہ کہا اور آہستگی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مصافحہ کیا اور تیزی کے ساتھ نکل کر روانہ ہو گیا۔

اجنبی تو خود روانہ ہو گیا۔ لیکن ابن سباط کو ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیا اب وہ مبہوت اور مد ہو ش تھا۔اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ وہ اسی طرف تک رہی تھیں جس طرف سے اجنبی روانہ ہو ا تھا۔ لیکن معلوم نہیں اسے کچھ سوجھائی بھی دیتا تھا یا نہیں ؟

دوپہر ڈھل چکی ہے۔ بغداد کی مسجدوں سے جو ق در جوق نمازی نکل رہے ہیں۔ دوپہر کی گرمی نے امیروں کو تہہ خانوں میں اور غریبوں کو دیواروں کے سائے میں بیٹھا دیا تھا۔اب دونوں نکل رہے ہیں ایک تفریح کے لیے دوسرا مزدوری کے لیے لیکن ابن سباط اس وقت تک وہیں بیٹھا ہے۔ جہاں صبح بیٹھا تھا۔ رات والی دونوں گٹھڑیاں سامنے پڑی ہیں اور اس کی نظریں اس طرح ان میں گڑی ہوئی ہیں گو یا ان کی شکنوں کے اندر اپنے رات والے رفیق کو ڈھونڈھ رہا ہے۔

بارہ گھنٹے گزر گئے ، لیکن جسم اور زندگی کی کوئی ضرورت بھی اسے محسوس نہیں ہو ئی۔ وہ بھوک جس کی خاطر اس نے اپنا ایک ہاتھ کٹوا دیا تھا۔اب اسے نہیں ستاتی وہ خوف جس کی وجہ سے سورج کی روشنی اس کے لیے دنیا کی سب سے نفرت انگیز چیز ہو گئی تھی۔ اب اسے محسوس نہیں ہوتا ، اس کے دماغ کی ساری قوت صرف ایک نقطہ میں سمٹ آئی وہ رات والے عجیب و غریب '' اجنبی '' کی ہے۔ وہ خود تو اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا مگر اسے ایک ایسے عالم کی جھلک دکھا دی جو اب تک اس کی نگاہوں سے پوشیدہ تھا۔

اس کی ساری زندگی گناہ اور سیاہ کاری میں بسر ہو ئی تھی۔اس نے انسانوں کی نسبت جو کچھ دیکھا سنا تھا ، وہ یہی تھا کہ خود غرضی کا پتلا اور نفس پرستی کی مخلوق ہے وہ نفرت سے منہ پھیر لیتا ہے اور بے رحمی سے ٹھکرا دیتا ہے سخت سے سخت سزائیں دیتا ہے ، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ محبت بھی کر تا ہے اور اس میں فیاضی بخشش اور قربانی کی بھی روح ہو سکتی ہے۔ بچپن میں اس نے بھی خدا کا نام سنا تھا اور لوگوں کو خدا پرستی کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ لیکن جب زندگی کی کشاکش کا میدان سامنے آیا تو اس کا عالم ہی دوسرا تھا۔اس نے قدم اٹھا دیا اور حالات کی رفتار جس طرف لے گئی بڑھ گیا۔نہ تو خود اسے کبھی مہلت ملی کہ خدا پرستی کی طرف متوجہ ہو تا اور نہ انسانوں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس کی کہ اسے خدا سے آشنا کر تے جوں جوں اس کی شقاوت بڑھتی گئی۔ سوسائٹی کے پاس اس کی شقاوت کے لیے بے رحمی تھی۔ اس لیے یہ بھی دنیا کی ساری چیزوں میں سے صرف بے رحمی کا خوگر ہو گیا۔

لیکن اب اچانک اس کے سامنے سے پردہ ہٹ گیا۔ آسمان کے سورج کی طرح محبت کا بھی ایک سورج ہے یہ جب چمکتا ہے تو روح اور دل کی ساری تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں۔ اب یکا یک اس سورج کی پہلی کرن ابن سباط کے دل کے تاریک گو شوں پر پڑی اور وہ بیک دفعہ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آگیا۔

اجنبی کی شخصیت اپنی پہلی ہی نظر میں اس کے دل تک پہنچ چکی تھی ، لیکن وہ جہالت و گمراہی سے اس کا مقابلہ کر تا رہا اور حقیقت کے فہم کے لیے تیار نہیں ہو ا۔ لیکن جو نہی اجنبی کے آخری الفاظ نے وہ پردہ ہٹا دیا ، جو اس نے اپنی آنکھوں پر ڈال لیا تھا۔ حقیقت اپنی پو ری شانِ تاثیر کے ساتھ بے نقاب ہو گئی اور اب اس کی طاقت سے باہر تھا کہ اس تیر کے زخم سے سینہ بچا لے جا تا۔

اس نے اپنی جہالت سے پہلے خیال کیا تھا۔ اجنبی بھی میری ہی طرح کا ایک چور ہے ، اور اپنا حصہ لینے کے لیے میری رفاقت و اعانت کر رہا ہے۔اس کا ذہن یہ تصور ہی نہ کر سکتا تھا کہ بغیر کسی غرض اور نفع کے ایک انسان دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کر سکتا ہے لیکن جب اجنبی نے چلتے وقت بتلایا کہ وہ چور نہیں ، بلکہ اس مکان کا مالک ہے ، جس مکان کا مال و متاع غارت کرنے کے لیے وہ گیا تھا تو اسے ایسا محسوس ہو ا ،جیسے یکا یک ایک بجلی آسمان سے گر پڑی۔

'' یہ چور نہیں تھا۔ مکان کا مالک تھا۔ لیکن اس نے چور کو پکڑنے اور سزا دلا دینے کی جگہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ '' کا جواب اس کی روح کے لیے ناسور اور اس کے دل کے لیے ایک دہکتا ہوا انگارہ تھا۔ وہ جس قدر سوچتا روح کا زخم گہرا ہو جاتا ور دل کی تپش بڑھتی جاتی۔اس تمام عرصہ میں اجنبی کے ساتھ جو کچھ گزرا تھا اس کا ایک ایک واقعہ ، ایک ایک حرف یا د کرتا ، اور ہر بات کی یاد کے ساتھ ایک تازہ زخم کی چبھن محسوس کرتا۔ جب ایک مرتبہ حافظہ میں یہ سر گزشت ختم ہو جاتی تو پھر نئے سرے سے یاد کر نا شروع کر دیتا اور آخر تک پہنچا کر پھر ابتداء کی طرف لوٹتا '' میں اس کے یہاں چوری کر نے کے لیے گیا تھا میں چور تھا میں اس کا مال و متاع غارت کر نا چاہتا تھا میں اسے بھی چور سمجھا۔ اسے گالیاں دیں بے رحمی سے ٹھوکر لگائی ........ مگر اس نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ '' ہر مرتبہ اس آخری سوال کا جواب سوچتا اور پھر یہی سوال دہرانے لگتا۔

سورج ڈوب رہا تھا۔ بغداد کی مسجدوں کے مناروں پر مغرب کی اذان کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ابن سباط بھی اپنے غیر آباد گوشہ میں اٹھا۔ چادر جسم پر ڈال دی اور بغیر کسی جھجک کے باہر نکل گیا۔ اب اس کے دل میں خوف نہیں تھا۔ کیونکہ خوف کی جگہ ایک دوسرے ہی جذبہ نے لے لی تھی۔

وہ کرخ کے اس حصہ میں پہنچا۔ جہاں رات گیا تھا۔ رات والے مکان کے پہچاننے میں اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ مکان کے پاس ہی ایک لکڑ ہارے کا جھونپڑا تھا۔ یہ اس کے پاس گیا اور پو چھا۔

''یہ سامنے بڑا سا احاطہ ہے ، اس میں کون تاجر رہتا ہے ؟ ''

تاجر بوڑھے لکڑ ہارے نے تعجب کے ساتھ کہا '' معلوم ہو تا ہے تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو۔ یہاں تاجر کہاں سے آیا ؟ یہاں تو شیخ جنید بغدادی رہتے ہیں۔ ''

ابن سباط اس نام کی شہرت سے بے خبر نہ تھا۔ لیکن صورت آشنا نہ تھا۔

ابن سباط مکان کی طرف چلا۔رات کی طرح اس وقت بھی دروازہ کھلا تھا۔ یہ بے تامل اندر چلا گیا۔سامنے وہی رات والا ایوان تھا۔ یہ آہستہ آہستہ بڑھا اور دروازہ کے اندر نگاہ ڈالی۔ وہی رات والی چٹائی بچھی تھی۔ رات والا تکیہ ایک جانب دھرا تھا۔تکیہ سے سہارا لگائے '' اجنبی '' بیٹھا تھا۔ تیس چالیس آدمی سامنے تھے۔واقعی ''اجنبی '' تاجر نہیں تھا۔ شیخ جنید بغدادی تھے۔

اتنے میں عشاء کی اذان ہوئی۔ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب سب لو گ جا چکے تو شیخ بھی اٹھے۔ جو نہی انہوں نے دروازہ کے باہر قدم رکھا ،ایک شخص بے تابانہ بڑھا ، اور قدموں پر گر گیا۔یہ ابن سباط تھا۔اس کے دل میں سمندر کا تلاطم بند تھا۔ آنکھوں میں جو کبھی تر نہیں ہو ئی تھیں۔ دجلہ کی سوتیں بھر گئی تھی۔دیر تک رکی رہیں۔مگر اب نہیں رک سکتی تھیں۔ آنسوؤں کا سیلاب آ جائے تو پھر دل کی کون سی کثافت ہے جو باقی رہ سکتی ہے ؟

شیخ نے شفقت سے اس کا سر اٹھایا۔ یہ کھڑا ہو گیا۔مگر زبان نہ کھل سکی اور اب اس کی ضرورت بھی کیا تھی ؟ جب نگاہوں کی زبان کھل جاتی ہے تو منہ کی زبان کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

اس واقعہ پر کچھ عرصہ گزر چکا ہے۔شیخ احمد ابن سباط کا شمار سید الطائفہ کے حلقہ ارادت کے ان فقراء میں ہے ، جو سب میں پیش پیش ہیں۔شیخ کہا کرتے ہیں '' ابن سباط نے وہ راہ لمحوں میں طے کر لی جو دوسرے برسوں میں بھی طے نہیں کر سکتے۔ ''

ابن سباط کو ٤٠ برس تک دنیا کی دہشت انگیز سزائیں نہ بدل سکیں۔ مگر محبت اور قربانی کے ایک لمحے نے چور سے اہل اللہ بنا دیا۔

٭٭٭

Monday, May 23, 2016

یہ منہ اور مسور کی دال

یہ منھ اور مسور کی دال :
اس کہاوت سے ایک قصہ وابستہ ہے۔
مغلیہ حکومت کی آخری سانسیں تھیں ۔ بادشاہ وقت کا خزانہ خالی تھا اور سلطنت فقط نام کی ہی رہ گئی تھی۔ شاہی باورچی بھی اِدبار کا شکار ہو کر قسمت آزمانے شہر سے باہر چلا گیا اور ایک راجہ صاحب کے دربار میں جا کر ملازمت کا خواستگار ہوا۔ جب راجہ صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ شخص شاہی باورچی رہ چکا ہے تو امتحان کی غرض سے اس کو مسور کی دا ل پکانے کو کہا۔ ساتھ ہی وزیر خزانہ کو حکم دیا کہ باورچی اخراجات کے لئے جتنی رقم مانگے اس کو فراہم کر دی جائے۔ شام کو جب راجہ صاحب کے سامنے مسور کی دا ل آئی تو وہ اتنی لذیذ تھی کہ راجہ صاحب تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہ تھے۔ یک لخت ان کو یاد آیا کہ باورچی کبھی شاہان مغلیہ کی خدمت میں رہ چکا تھا۔ گھبرا کر پوچھا کہ’’ اس دال پر کتنے روپئے خرچ ہوئے ہیں ؟‘‘۔ باورچی نے دست بستہ عرض کی’’ حضور! دو پیسے کی دال تھی اور بتیس روپے کے مصالحے‘‘۔ راجہ صاحب کے چھکے چھوٹ گئے۔ فرمایا’’ دو پیسے کی دال میں بتیس روپے کے مصالحے؟ بھلا ایسے کیسے کام چلے گا؟‘‘۔ باورچی نے شاہی آنکھیں دیکھی تھیں۔ اس نے کب ایسی بات سنی تھی۔ اسی وقت جیب سے بتیس روپے اور دو پیسے نکال کر راجہ صاحب کے سامنے رکھے دئے اور یہ کہہ کر چل دیا کہ ’’صاحب یہ رہے آپ کے پیسے۔ یہ منھ اور مسور کی دال!‘‘۔ یہ کہاوت تب استعمال ہوتی ہے جب کوئی شخص ایسی فرمائش کرے جس کا خرچ اٹھانے کی اجازت اس کی کنجوسی نہ دے۔

Saturday, May 21, 2016

فضول خرچ فقیر

فضول خرچ فقیر

کہتے ہیں، ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں کے درمیان خوش و خرم بیٹھا اس مطلب کے شعر پڑھ رہا تھا کہ آج دنیا میں مجھ جیساخوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔ اتفاقاً ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں اس مطلب کا شعر پڑھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟

بادشاہ نے فقیر کی آواز سنی تو اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی حالت سے آگاہ ہو کر کہا کہ سائیں جی، دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخشا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر صدا لگائی۔ 

بادشاہ نے فقیر کی آواز سنی تو اسے بہت غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا

جو شخص دن میں جلاتا ہے شمع کا فوری

نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت

بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہمدرد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضور والا نے بالکل بجا فرمایا ہے اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور۔ اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔

دیکھا نہیں کسی نے پیا سے حجاز کے

ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر

آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ

پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر


وضاحت


اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے خیر اور بخشش کے بارے میں اہم نکات بیان فرمایئے ہیں۔ (۱) جو لوگ صاحب اقتدار او آسودہ حال ہیں انھیں زیر دستوں کی امداد سے غافل نہ رہنا چاہیے (۲) یہ خیال رکھنا چاہیے کہ امداد سائل کے ظرف اور ضرورت سے زیادہ نہ ہو کہ وہ فضول خرچی کے گناہ سے بچا رہے (۳) جس شخص کو خدا نے اپنی نعمتوں سے نواز ہوا سے غیر مستحق لوگوں کےسوال پر بھی بر ہم نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ان کی شہرت کے باعث ضرورت مندوں کا ان کے پاس آنا ایک ضروری بات ہے بالکل یوں جسے شیریں پانی کے چشمے پر چرند پرند اور انسان سب جمع ہوتے ہیں (۴) سائل کو چاہیے کہ جب وہ صاحب اقتدار لوگوں سے سوال کرے تو اس بات پر ضرور غور کر لے کے اس کا مزاج برہم تو نہیں، کیونکہ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ کبھی اچھی بات پر ناراض اور کبھی بری بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔
(گلستان ِ سعدی)

Wednesday, May 11, 2016

مولانا ابو الکلام آزاد کے آخری لمحات

3 شعبان مولانا #ابوالکلام_آزاد رحمہ اللہ کا یوم وفات ہے، اس مناسبت سے آغا شورش کاشمیری کا مضمون 'مولانا ابوالکلام آزاد کا سفر آخرت' پیش خدمت ہے.

مولانا آزاد محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتا کر لیتے، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متجر، ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اپنے لیے سوچتے ہیں. وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے. انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کے لیے جی رہے تھے. ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا. وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں. ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا. انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گزارتے رہے.

آزادی کے بعد یہی سانچے 10 سال کی مسافت میں ان کے لیے جان لیوا ہو گئے. 12 فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہوگئے ہیں. اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے. پنڈت جواہر لعل نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے. ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی. مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے. ڈاکٹروں نے کہا کہ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد وہ رائے دے سکیں گے کہ مولانا خطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں.

ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تاثر عام ہوگیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے. ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا. مولانا کے بنگلے میں ڈاکٹر راجندر پرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہر لعل نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علما کے علاوہ ہزارہا انسان جمع ہو گئے. سبھی پریشان تھے. 19 فروری کو موت کا خدشہ یقینی ہوگیا.

کسی کے حواس قائم نہ تھے. پنڈت جواہر لعل نہرو رفقا سمیت اشک بار چہرے سے پھر رہے تھے. ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر تھا. ہندوستان بھر کی مختلف شخصیتیں آچکی تھیں.

جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی. عشا کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی. مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا محمد میاںؒ، مفتی عتیق الرحمنؒ، سید صبیح الحسنؒ، مولانا شاہد فاخریؒ اور بیسیوں علما وحفاظ تلاوت کلام الہیٰ میں مشغول تھے.

آخر ایک بجے شب سورہ یٰسن کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22 فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی. (انا ﷲ وانا الیه راجعون)

اس وقت بھی سیکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے. جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا. دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے. تمام ہندوستان میں سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے. ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہوگئی. دہلی میں ہو کا عالم تھا، حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی. ایک ہی شخص تھا جس کے لیے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے. بہ الفاظ دیگر مولانا تاریخ انسانی کے تنہا مسلمان تھے جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے. پنڈت جواہر لعل نہرو موت کی خبر سنتے ہی 10 منٹ میں پہنچ گئے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے. انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں 'اچھا بھائی خدا حافظ' کہا تھا.

ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیوں کر 24 گھنٹے زندہ رہا.

ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا: 'ڈاکٹر صاحب اﷲ پر چھوڑیے'. اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 'مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے؟ اب معاملہ اﷲ کے سپرد ہے'.

میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے. ایک آدھ منٹ کے لیے ہوش میں آئے. کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں. پنڈت نہرو کے 2 منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے. ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے. آن واحد میں ہندوستانی کابنیہ کے شہ دماغ پہنچ گئے. ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں.

مسٹر مہابیر تیاگی سراپا درد تھے. ڈاکٹر رادھا کرشنن نے آبدیدہ ہو کر کہا: 'ہندوستان کا آخری مسلمان اٹھ گیا، وہ علم کے شہنشاہ تھے'.

کرشن مین سکتے میں تھے. پنڈت پنٹ یاس کے عالم میں تھے. مرار جی دیسائی بے حال تھے. لال بہادر شاستری بلک رہے تھے. ڈاکٹر ذا کرحسین کے حواس معطل تھے. مولانا قاری طیب غم سے نڈھال تھے. مولانا حفظ الرحمن کی حالت دگر گوں تھی. ادھر زنانہ میں مولانا کی بہن آرزو بیگم تڑپ رہی تھیں.

اب کوئی آرزو نہیں باقی

ان کے گرد اندرا گاندھی، بیگم ارونا آصف علی اور سیکڑوں دوسری عورتیں جمع تھیں. اندرا کہہ رہی تھیں: 'ہندوستان کا نور بجھ گیا'. اور ارونا رورہی تھیں: 'ہم ایک عظمت سے محروم ہوگئے'.

پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھنچے رہے، ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہوگی، لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے، اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے. صبح 4 بجے میت کو غسل دیا گیا اور کفنا کر 9 بجے صبح کوٹھی کے پورٹیکو میں پلنگ پر ڈال دیا گیا.

سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے، پھر وزیراعظم نے، اس کے بعد غیر ملکی سفرا نے. کئی ہزار برقع پوش عورتیں مولانا کی میت کو دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں. ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا: 'مولانا آپ بھی چلے گئے! ہمیں کس کے سپرد کیا ہے؟'

ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں. ایک عجیب عالم تھا، چاروں طرف غم و اندوہ اور رنج و گریہ کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں.

پنڈت جواہر لعل نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضا کار کی طرح عوام کے ہجوم میں گھس جاتے اور انہیں بے ضبط ہجوم کرنے سے روکتے. پنڈت جی نے یمین ویسار سیکورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا:
'آپ کون ہیں؟'
'سیکورٹی افسر'.
'کیوں؟'
:آپ کی حفاظت کے لیے'.
'کیسی حفاظت؟ موت تو اپنے وقت پر آکے رہتی ہے، بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے؟'

شری پربودھ چندر راوی تھے کہ پنڈت جی نے یہ کہا اور بلک بلک کر رونے لگے. ان کے سیکورٹی افسر بھی اشک بار ہوگئے.

ٹھیک پون بجے میت اٹھائی گئی. پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفرا نے دیا. جب کلمہ شہادت کی صداؤں میں جنازہ اٹھا تو عربی سفرا بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے. جوں ہی بنگلے سے باہر کھلی توپ پر جنازہ رکھا گیا تو کہرام مچ گیا. معلوم ہوتا تھا پورا ہندوستان روہا ہے. مولانا کی بہن نے کوٹھی کی چھت سے کہا: 'اچھا بھائی خدا حافظ'.

پنڈت پنٹ نے ڈاکٹر راجندر پرساد کا سہارا لیتے ہوئے کہا: 'مولانا جیسے لوگ پھر کبھی پیدا نہ ہوں گے اور ہم تو کبھی نہ دیکھ سکیں گے'.

مولانا کی نعش کو کوٹھی کے دروازہ تک چارپائی پر لایا گیا. کفن کھدر کا تھا. جسم ہندوستان کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا. اس پر کشمیری شال پڑا تھا اور جنازہ پر نیچے دہلی کی روایت کے مطابق غلاف کعبہ ڈالا گیا تھا۔ پنڈت نہرو، مسٹر دھیبر صدر کانگریس، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز، پروفیسر ہمایوں کبیر، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے.

ان کے پیچھے دوسری گاڑی میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر کی موٹر تھی. ان کے بعد کاروں کی ایک لمبی قطار تھی جس میں مرکزی وزرا، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر اور غیر ملکی سفرا بیٹھے تھے.

ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے. تمام راستہ پھولوں کی موسلادھار بارش ہوتی رہی. دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اٹ گیا۔ جب لاش لحد تک پہنچی تو ایک طرف علما و حفاظ قرآن مجید پڑھ رہے تھے دوسری طرف اکابر فضلا سرجھکائے کھڑے تھے.

اس وقت میت کو بری فوج کے ایک ہزار نوجوانوں، ہوائی جہاز کے 300 جانبازوں اور بحری فوج کے 500 بہادروں نے اپنے عسکری بانکپن کے ساتھ آخری سلام کیا. مولانا احمد سعید دہلوی صدر جمعیت علمائے ہند نے 2:50 پر نماز جنازہ پڑھائی، پھر لحد میں اتارا، کوئی تابوت نہ تھا اور اس طرح روئے کہ ساری فضا اشک بار ہوگئی. تمام لوگ رو رہے تھے اور آنسو تھمتے ہی نہ تھے. مولانا کے مزار کا حدود اربعہ 'بوند ماند' کے تحت درج ہے.

مختصر یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کیے گئے. مزار کھلا ہے، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرہ ہے، اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں. راقم جنازہ میں شرکت کے لیے اسی روز دہلی پہنچا. مولانا کو دفنا کر ہم ان کی کوٹھی میں گئے. کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لعل نہرو آ گئے اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے. پھر پھولوں کی اس روش پر گئے جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے. ایک گچھے سے سوال کیا: 'کیا مولانا کے بعد بھی مسکراؤ گے؟'

راقم آگے بڑھ کر آداب بجا لایا. کہنے لگے: 'شورش تم آگئے؟ مولانا سے ملے؟' راقم کی چیخیں نکل گئیں. مولانا ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکے تھے اور ملاقات صبح محشر تک موقوف ہوچکی تھی.