ﻟﻮﮒ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ !
_____________________________________
ﻣﮕﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ
ﮐﮧ ﻋﺜﻤﺎﻧﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﷺ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮬﮯ،
ﺫﺭﺍ ﭘﮍﮬﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﺸﻖ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﻣﻨﻮﺭ ﮐﯿﺠﺌﮯ ۔
ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ
ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺳﯿﻊ ﻋﺮﯾﺾ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺳﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮬﯿﮟ،
ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﺮ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮬﺮ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﮯ ﮬﻮﮮٔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﻦ،
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﺎﺏ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮﺍ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﻈﯿﺮ ﻣﺸﮑﻞ ﮬﮯ،
ﺧﻠﯿﻔﺌﮧ ﻗﺖ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻓﺮﻣﺎﻧﺮﻭﺍ ﺗﮭﺎ ،
ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﺷﻌﺒﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮬﯿﻦ ﺗﺮﯾﻦ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﻦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮑﮭﺎﮮٔ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﯾﮑﺘﺎ ﻭ ﺑﯿﻤﺜﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﮮ،
ﺍﺱ ﺍﺛﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮎ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺧﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺴﻮﺍﺭ ﺑﻨﺎﮮٔ ﮔﯽ،
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ ﮐﯽٔ ﺳﺎﻝ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮬﺎ ،
25 ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﻮﯼٔ ﺟﻮ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻌﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮑﺘﺎ ﮮٔ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﺧﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺎ ﻋﻤﻞ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ،
ﯾﮧ ﻟﮓ ﺑﮭﮓ 500 ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ
ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯽٔ ﮐﺎﻧﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﮟ، ﻧﮯٔ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﮐﭩﻮﺍﯾٔﯿﮟ،
ﺗﺨﺘﮯ ﺧﺎﺻﻞ ﮐﯿﮯٔ ﮔﯿﮯٔ، ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮩﻢ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢﷺ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯٔ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﺘﯽ ﺑﺴﺎﯼٔ ﮔﯽٔ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﺭ ﺳﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮧ ﮬﻮ،
ﻧﺒﯽﷺ ﮐﮯ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ
ﮐﭩﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺎﺗﺎ،
ﻣﺎﮬﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﺎ ﻭﺿﻮ ﺭﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮬﮯ،
ﮬﺠﺮۃ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻟﭙﯿﭧ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﺩ ﻏﺒﺎﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﮮٔ، ﺳﺘﻮﻥ ﻟﮕﺎﮮٔ ﮔﯿﮯٔ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺽ ﺍﻟﺠﻨۃﺍﻭﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﻧﮧ ﮔﺮﮮ ،
ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﭼﻠﺘﺎ ﺭﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋﺎﻟﻢ ﮔﻮﺍﮦ ﮬﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺳﮯ ﮐﻮﯼٔ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﮬﻮﯼٔ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮬﻮﮔﯽ
Sunday, May 29, 2016
محبت کی یادگار ، ایک بے مثال عمارت
Saturday, May 28, 2016
مولانا جلال الدین رومی
مولانا رومؒ کا خاندانی نام محمد تھا۔ جلال الدین لقب اور عرفیت مولائے روم۔ آپ 604ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ مولانا رومؒ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ تک براہ راست پہنچتا ہے۔ مولانا رومؒ کے پردادا حضرت حسین بلخیؒ بہت بڑے صوفی اور صاحبِ کمال بزرگ تھے۔ امرائے وقت ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ خوارزم شاہ جیسے با جبروت حکمران نے اپنی بیٹی کی شادی مولانا رومؒ کے دادا سے کر دی تھی۔ علم و فضل کے ساتھ اس خاندان کو دنیاوی عزت و توقیر بھی حاصل تھی۔
مولانا جلال الدین رومیؒ کے والد کا نام شیخ بہاء الدین تھا۔ ان کے مریدوں میں سید برہان الدین ایک نامور عالم تھے۔ اس لئے مولانا رومؒ کی تربیت کی ذمہ داری سید برہان الدین کے سپرد کی گئی۔ مولانا رومؒ نے اکثر ظاہری علوم ان ہی بزرگ سے حاصل کئے۔ تقریباً انیس سال کی عمر میں مولانا رومؒ اپنے والدِ محترم کے ساتھ قونیہ تشریف لے آئے۔ کچھ دن بعد آپ سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ شفیق و مہربان باپ سے جدائی ایک بڑا جانگداز سانحہ تھا مگر اللہ نے مولانا رومؒ کو صبر و ضبط کا حوصلہ عطا فرمایا۔ آپ نے اس غم سے نجات کے لئے خود کو کتابوں میں گم کر دیا پھر 629ھ میں جب مولانا رومؒ کی عمر پچیس سال تھی، آپؒ نے مزید تحصیلِ علم کے لئے شام کا رخ کیا۔ یہاں آپ سات سال تک مقیم رہے اور مسلسل اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ پھر قونیہ واپس آ گئے۔ ان ہی دنوں آپ کے استادِ معظم سید برہان الدین بھی تشریف لے آئے۔
پھر مولانا رومؒ کا امتحان لیا گیا۔ جب سید صاحب کو یقین ہو گیا کہ ان کا شاگرد ظاہری علوم کی تکمیل کر چکا ہے تو پھر ایک دن فرمایا۔
"مخدوم زادے! اب وقت آ گیا ہے کہ میں تمہارے والد کی امانت تمہیں لوٹا دوں۔" اس کے بعد سید برہان الدینؒ نے آپ کو اپنا مرید کیا اور تقریباً نو سال تک روحانی تعلیم دیتے رہے۔ سید برہان الدین ایک با ہوش بزرگ اور بیاعدی طور پر ایک عالم و فاضل شخص تھے۔ اس لئے طویل تربیت کے بعد بھی مولانا رومؒ کی زندگی پر عقل کا رنگ غالب رہا۔ دراصل سید صاحب یہی چاہتے تھے اور وہ اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے تھے۔
مولانا جلال الدین رومیؒ فطری طور پر ذہین ترین شخص تھے۔ والد محترم کی تعلیم و تربیت اور پھر سید برہان الدینؒ کی خصوصی توجہ نے مولانا کو درجۂ کمال تک پہنچا دیا تھا۔ اب آپ کا یہ عالم تھا کہ کسی علمی تقریب میں خطاب کرنے کھڑے ہو جاتے تو لوگ پتھر کی طرح ساکت و جامد ہو جاتے اور مولانا کی تقریر اس طرح سنتے کہ انہیں اپنے گرد و پیش کی بھی خبر نہ رہتی۔ یہ تاریخِ انسانی کا عجیب پہلو ہے کہ ہر دور میں حاسد اور تنگ نظر لوگوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔ اگر عام انسانی طبقوں میں ایسے لوگ پائے جائیں تو یہ عمل زیادہ خطرناک نہیں ہوتا مگر جب علماء کے دل و دماغ بھی اس بیماری کا شکار ہو جائیں تو پھر زمین پر بے شمار فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ جب مولانا رومؒ علماء کی صفوں میں نمودار ہوئے اور آپ نے اپنے کمالات کا مظاہرہ کیا تو مخلوق خدا اس قدر گرویدہ ہوئی کہ دوسرے اہلِ کمال کی عظمتوں کے چراغ دھندلے ہونے لگے۔ یہ بات علماء کی ایک جماعت کو سخت ناگوار گزری۔ پھر حسبِ روایت مولانا رومؒ کی تحقیر کرنے کے لئے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا گیا۔
پھر جب مولانا رومؒ ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرنے کھڑے ہوئے تو اچانک ایک شخص مجمع سے اٹھا اور بآواز بلند کہنے لگا۔
"محترم مولانا! آپ اپنے پسندیدہ موضوع پر ہفتوں اور مہینوں کی تیاری کے بعد تقریر کرتے ہیں، یہ تو کوئی کمال نہیں ہے۔ اس طرح تو کوئی شخص بھی اپنے علم کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ پھر آپ میں کیا خوبی ہے؟"
"میں نے کبھی اپنے کمالات کا دعویٰ نہیں کیا۔" مولانا رومؒ نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ "میں تو ایک ادنیٰ طالب علم ہوں اور میری زندگی کا مقصد مخلوقِ خدا کی خدمت ہے۔ ویسے اگر آپ اپنی طرف سے کسی موضوع کا انتخاب کر لیں تو میں اس موضوع پر بھی تقریر کرنے کی کوشش کروں گا۔" مولانا رومؒ کا جواب سن کر ہزاروں انسانوں کے مجمع پر گہرا سکوت چھا گیا۔
وہ شخص دوبارہ اٹھا اور منصوبے کے مطابق اس نے کہا۔ "مولانا! آج آپ سورۂ "والضحیٰ" کی تفسیر بیان کریں گے۔" یہ کہہ کر وہ شخص اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ اس شخص کا خیال تھا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ کسی فی البدیہہ موضوع پر تقریر کرنے سے عاجز رہیں گے اور پھر ہزاروں انسانوں کی موجودگی میں ان کی محترم شخصیت ایک تماشا بن کر رہ جائے گی۔
ایک لمحے کے لئے مولانا رومؒ کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ابھرا۔ پھر آپ نے اپنے اللہ کی کبریائی بیان کی اور حضور اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود و سلام بھیجا۔ اس کے بعد انسانی ہجوم سے مخاطب ہوئے۔
"قرآن کریم کی اس سورۂ مقدسہ میں استعمال ہونے والا پہلا حرف "واؤ" ہے۔ آج میں اسی حرفِ مقدس کی تشریح کروں گا۔" یہ کہہ کر مولانا رومؒ نے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور پھر مسلسل چھ گھنٹے تک صرف اس بات کی وضاحت کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ "والضحیٰ" میں حرف "و" کیوں استعمال کیا ہے؟ پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مولانا رومؒ کی زبان مبارک سے علم کا سمندر ابل رہا ہے، جس کی تیز موجوں میں سب کچھ بہہ جائے گا۔ ابھی آپ کی تقریر ختم ہونے بھی نہیں پائی تھی کہ وہی شخص اپنی جگہ سے دیوانہ وار اٹھا اور اس نے مولانا رومؒ کے قدموں پر سر رکھ دیا۔
"واللہ! آپ عظیم ہیں۔ آج پورے روم میں آپ کا کوئی ثانی موجود نہیں۔ یہاں کے لوگ آپ کے علم و فضل سے حسد رکھتے ہیں۔ میں بھی اسی لعنت کا شکار ہو گیا تھا۔ خدا کے لئے مجھے معاف فرما دیجیے۔"
مولانا رومؒ نے اس شخص کو اٹھا کر گلے سے لگایا اور پھر ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جو آپ کے خلاف در پردہ سازشیں کر رہے تھے۔ "میں ہر اس شخص کو معاف کرتا ہوں جو مجھ سے بے سبب عداوت رکھتا ہے۔ اللہ ان کے سینوں میں بھڑکتی ہوئی آتشِ حسد کو ٹھنڈا کر دے اور انہیں اپنے فضل و کرم سے ہدایت بخش دے۔"
یہ مولانا کی اعلیٰ ظرفی کا عظیم الشان مظاہرہ تھا جس نے بے شمار لوگوں کو آپ کا عقیدت مند بنا دیا۔
٭٭………٭٭………٭٭
Friday, May 27, 2016
بدو اور مہدی
بدو اور مہدی
عباسی خلیفہ مہدی شکارکے لئے نکلا، دوران شکار اس کا گھوڑا بدک کر ایک بدو کے خیمے میں جا گھسا، مہدی نے کہا:’’ بدو! میری مہمانی کے لئے کچھ ہے؟‘‘ بدو نے جو کی روٹی پیش کی،وہ کھا گیا، پھر بدو نے کچھ دودھ دیا تو وہ بھی پی گیا، پھر چمڑے کے برتن میں اسے نبیذ﴿ شیرئہ کھجور﴾ پیش کیا تو وہ اسے بھی پی گیا، جب سب کھا پی چکا تو بدو سے کہنے لگا.
مہدی:’’جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘
بدو:’’نہیں‘‘
مہدی: ’’میں امیر المومنین کا خصوصی خادم ہوں‘‘
بدو:’’اللہ تجھے تیرے عہدے میں برکت دے‘‘ بد و نے اسے دوسرا جام پلایا
مہدی:﴿تھوڑی دیر کے بعد﴾’’بدو! جانتے ہومیں کون ہوں؟‘‘
بدو :’’ابھی تو آپ نے بتایا ہے کہ آپ امیر المومنین﴿ خلیفہ وقت﴾ کے خصوصی خادم ہیں۔‘‘
مہدی: نہیں، میں تو امیر المومنین کا ساربان ہوں‘‘۔
بدو: ’’خدا کرے آپ کے شہر سر سبز و شاداب ہوں، آپ کی مرادیں پوری ہوں‘‘ یہ کہہ کر اس نے مہدی کو تیسرا جام پلایا، مہدی جب پی چکا تو اس نے پھر کہا:
مہدی:’’جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘
بدو: ’’آپ نے ابھی بتایا ہے کہ آپ خلیفۂ وقت کے ساربان ہیں‘‘۔
مہدی:’’نہیں، میں خود امیرالمومنین ہوں‘‘۔
بدونے یہ سنتے ہی چمڑے کا پیالہ اپنی جگہ رکھا اور کہا:’’ دفع ہوجا! اگر میں نے تجھے چوتھا جام پلایا تو تونبوت کا دعویٰ کر دے گا کہ اللہ کا رسول ہے‘‘
یہ سن کر مہدی اس قدر ہنسا کہ اس پر بیہوشی کی سی کیفیت طاری ہو گئی، تھوڑی دیر کے بعد مہدی کے ہمراہیوں اور شہسواروں نے خیمہ گھیرے میں لے لیا،بڑے بڑے امرائ و شرفائ خیمے میں داخل ہوئے، یہ منظر دیکھ کر خوف کے مارے بدو کا رنگ فق ہو گیا، مہدی نے کہا:’’گھبرانے کی ضرورت نہیں‘‘، پھر اس نے بدو کے لئے لباس اور بڑے انعام کا فرمان جاری کیا۔﴿الا بشیھی: المستطرف، ۲ / ۳ ۳۲﴾
جرات اور چالاکی ۔ خربوزہ میں سر
Shareجمال الدین ابن واصل کچھ عینی شاہدین سے ایک دلچسپ روایت نقل کرتے ہیں کہ کہ فرانس کے بادشاہ لوئیس نہم کے مصر پر حملہ کے دوران جو کہ ساتویں صلیبی جنگ (1249 م 647 ھ )کے نام سے مشہور ہے۔
اہل منصورۃ میں سے ایک شخص نے ایک تربوز میں سوراخ کیا اور اس میں اپنا سر داخل کر کے پانی میں تیرتا رہا یہاں تک کہ اس کنارے تک پہنچا جہاں فرنگی لشکر ٹھہرا ہوا تھا ، تاکہ کنارے پر کھڑے لوگوں کو دھوکہ دے سکے کہ ایک خوش رنگ تربوز ان کی جانب رواں ہے، اور جونہی ایک لالچی سپاہی اس تربوز کو کھانے اور اس کی مٹھاس سے لطف اندوز ہونے کیلئے پانی کے درمیان پہنچا ، تو پانی میں چھپے اس دلیر جانباز نے اسے اچک کر گرفتار کر لیا اور اور تیرتا ہوا دشمن کے تیروں کی زد سے دور نکل آیا جہاں اسے قید کی حالت میں المنصورۃ معسکر لے آیا جہاں مسلمانوں کا لشکر خیمہ زن تھا۔
مُفرج الكروب في أخبار بني أيوب
Wednesday, May 25, 2016
بغداد کے بدنام زمانہ چور ابن سباط کی کارستانیاں اور جنید بغدادی کا دست محبت
Monday, May 23, 2016
یہ منہ اور مسور کی دال
اس کہاوت سے ایک قصہ وابستہ ہے۔
مغلیہ حکومت کی آخری سانسیں تھیں ۔ بادشاہ وقت کا خزانہ خالی تھا اور سلطنت فقط نام کی ہی رہ گئی تھی۔ شاہی باورچی بھی اِدبار کا شکار ہو کر قسمت آزمانے شہر سے باہر چلا گیا اور ایک راجہ صاحب کے دربار میں جا کر ملازمت کا خواستگار ہوا۔ جب راجہ صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ شخص شاہی باورچی رہ چکا ہے تو امتحان کی غرض سے اس کو مسور کی دا ل پکانے کو کہا۔ ساتھ ہی وزیر خزانہ کو حکم دیا کہ باورچی اخراجات کے لئے جتنی رقم مانگے اس کو فراہم کر دی جائے۔ شام کو جب راجہ صاحب کے سامنے مسور کی دا ل آئی تو وہ اتنی لذیذ تھی کہ راجہ صاحب تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہ تھے۔ یک لخت ان کو یاد آیا کہ باورچی کبھی شاہان مغلیہ کی خدمت میں رہ چکا تھا۔ گھبرا کر پوچھا کہ’’ اس دال پر کتنے روپئے خرچ ہوئے ہیں ؟‘‘۔ باورچی نے دست بستہ عرض کی’’ حضور! دو پیسے کی دال تھی اور بتیس روپے کے مصالحے‘‘۔ راجہ صاحب کے چھکے چھوٹ گئے۔ فرمایا’’ دو پیسے کی دال میں بتیس روپے کے مصالحے؟ بھلا ایسے کیسے کام چلے گا؟‘‘۔ باورچی نے شاہی آنکھیں دیکھی تھیں۔ اس نے کب ایسی بات سنی تھی۔ اسی وقت جیب سے بتیس روپے اور دو پیسے نکال کر راجہ صاحب کے سامنے رکھے دئے اور یہ کہہ کر چل دیا کہ ’’صاحب یہ رہے آپ کے پیسے۔ یہ منھ اور مسور کی دال!‘‘۔ یہ کہاوت تب استعمال ہوتی ہے جب کوئی شخص ایسی فرمائش کرے جس کا خرچ اٹھانے کی اجازت اس کی کنجوسی نہ دے۔
Saturday, May 21, 2016
فضول خرچ فقیر
Wednesday, May 11, 2016
مولانا ابو الکلام آزاد کے آخری لمحات
3 شعبان مولانا #ابوالکلام_آزاد رحمہ اللہ کا یوم وفات ہے، اس مناسبت سے آغا شورش کاشمیری کا مضمون 'مولانا ابوالکلام آزاد کا سفر آخرت' پیش خدمت ہے.
مولانا آزاد محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتا کر لیتے، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متجر، ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اپنے لیے سوچتے ہیں. وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے. انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کے لیے جی رہے تھے. ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا. وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں. ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا. انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گزارتے رہے.
آزادی کے بعد یہی سانچے 10 سال کی مسافت میں ان کے لیے جان لیوا ہو گئے. 12 فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہوگئے ہیں. اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے. پنڈت جواہر لعل نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے. ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی. مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے. ڈاکٹروں نے کہا کہ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد وہ رائے دے سکیں گے کہ مولانا خطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں.
ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تاثر عام ہوگیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے. ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا. مولانا کے بنگلے میں ڈاکٹر راجندر پرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہر لعل نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علما کے علاوہ ہزارہا انسان جمع ہو گئے. سبھی پریشان تھے. 19 فروری کو موت کا خدشہ یقینی ہوگیا.
کسی کے حواس قائم نہ تھے. پنڈت جواہر لعل نہرو رفقا سمیت اشک بار چہرے سے پھر رہے تھے. ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر تھا. ہندوستان بھر کی مختلف شخصیتیں آچکی تھیں.
جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی. عشا کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی. مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا محمد میاںؒ، مفتی عتیق الرحمنؒ، سید صبیح الحسنؒ، مولانا شاہد فاخریؒ اور بیسیوں علما وحفاظ تلاوت کلام الہیٰ میں مشغول تھے.
آخر ایک بجے شب سورہ یٰسن کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22 فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی. (انا ﷲ وانا الیه راجعون)
اس وقت بھی سیکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے. جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا. دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے. تمام ہندوستان میں سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے. ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہوگئی. دہلی میں ہو کا عالم تھا، حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی. ایک ہی شخص تھا جس کے لیے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے. بہ الفاظ دیگر مولانا تاریخ انسانی کے تنہا مسلمان تھے جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے. پنڈت جواہر لعل نہرو موت کی خبر سنتے ہی 10 منٹ میں پہنچ گئے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے. انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں 'اچھا بھائی خدا حافظ' کہا تھا.
ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیوں کر 24 گھنٹے زندہ رہا.
ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا: 'ڈاکٹر صاحب اﷲ پر چھوڑیے'. اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 'مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے؟ اب معاملہ اﷲ کے سپرد ہے'.
میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے. ایک آدھ منٹ کے لیے ہوش میں آئے. کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں. پنڈت نہرو کے 2 منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے. ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے. آن واحد میں ہندوستانی کابنیہ کے شہ دماغ پہنچ گئے. ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں.
مسٹر مہابیر تیاگی سراپا درد تھے. ڈاکٹر رادھا کرشنن نے آبدیدہ ہو کر کہا: 'ہندوستان کا آخری مسلمان اٹھ گیا، وہ علم کے شہنشاہ تھے'.
کرشن مین سکتے میں تھے. پنڈت پنٹ یاس کے عالم میں تھے. مرار جی دیسائی بے حال تھے. لال بہادر شاستری بلک رہے تھے. ڈاکٹر ذا کرحسین کے حواس معطل تھے. مولانا قاری طیب غم سے نڈھال تھے. مولانا حفظ الرحمن کی حالت دگر گوں تھی. ادھر زنانہ میں مولانا کی بہن آرزو بیگم تڑپ رہی تھیں.
اب کوئی آرزو نہیں باقی
ان کے گرد اندرا گاندھی، بیگم ارونا آصف علی اور سیکڑوں دوسری عورتیں جمع تھیں. اندرا کہہ رہی تھیں: 'ہندوستان کا نور بجھ گیا'. اور ارونا رورہی تھیں: 'ہم ایک عظمت سے محروم ہوگئے'.
پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھنچے رہے، ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہوگی، لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے، اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے. صبح 4 بجے میت کو غسل دیا گیا اور کفنا کر 9 بجے صبح کوٹھی کے پورٹیکو میں پلنگ پر ڈال دیا گیا.
سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے، پھر وزیراعظم نے، اس کے بعد غیر ملکی سفرا نے. کئی ہزار برقع پوش عورتیں مولانا کی میت کو دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں. ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا: 'مولانا آپ بھی چلے گئے! ہمیں کس کے سپرد کیا ہے؟'
ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں. ایک عجیب عالم تھا، چاروں طرف غم و اندوہ اور رنج و گریہ کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں.
پنڈت جواہر لعل نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضا کار کی طرح عوام کے ہجوم میں گھس جاتے اور انہیں بے ضبط ہجوم کرنے سے روکتے. پنڈت جی نے یمین ویسار سیکورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا:
'آپ کون ہیں؟'
'سیکورٹی افسر'.
'کیوں؟'
:آپ کی حفاظت کے لیے'.
'کیسی حفاظت؟ موت تو اپنے وقت پر آکے رہتی ہے، بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے؟'
شری پربودھ چندر راوی تھے کہ پنڈت جی نے یہ کہا اور بلک بلک کر رونے لگے. ان کے سیکورٹی افسر بھی اشک بار ہوگئے.
ٹھیک پون بجے میت اٹھائی گئی. پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفرا نے دیا. جب کلمہ شہادت کی صداؤں میں جنازہ اٹھا تو عربی سفرا بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے. جوں ہی بنگلے سے باہر کھلی توپ پر جنازہ رکھا گیا تو کہرام مچ گیا. معلوم ہوتا تھا پورا ہندوستان روہا ہے. مولانا کی بہن نے کوٹھی کی چھت سے کہا: 'اچھا بھائی خدا حافظ'.
پنڈت پنٹ نے ڈاکٹر راجندر پرساد کا سہارا لیتے ہوئے کہا: 'مولانا جیسے لوگ پھر کبھی پیدا نہ ہوں گے اور ہم تو کبھی نہ دیکھ سکیں گے'.
مولانا کی نعش کو کوٹھی کے دروازہ تک چارپائی پر لایا گیا. کفن کھدر کا تھا. جسم ہندوستان کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا. اس پر کشمیری شال پڑا تھا اور جنازہ پر نیچے دہلی کی روایت کے مطابق غلاف کعبہ ڈالا گیا تھا۔ پنڈت نہرو، مسٹر دھیبر صدر کانگریس، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز، پروفیسر ہمایوں کبیر، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے.
ان کے پیچھے دوسری گاڑی میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر کی موٹر تھی. ان کے بعد کاروں کی ایک لمبی قطار تھی جس میں مرکزی وزرا، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر اور غیر ملکی سفرا بیٹھے تھے.
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے. تمام راستہ پھولوں کی موسلادھار بارش ہوتی رہی. دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اٹ گیا۔ جب لاش لحد تک پہنچی تو ایک طرف علما و حفاظ قرآن مجید پڑھ رہے تھے دوسری طرف اکابر فضلا سرجھکائے کھڑے تھے.
اس وقت میت کو بری فوج کے ایک ہزار نوجوانوں، ہوائی جہاز کے 300 جانبازوں اور بحری فوج کے 500 بہادروں نے اپنے عسکری بانکپن کے ساتھ آخری سلام کیا. مولانا احمد سعید دہلوی صدر جمعیت علمائے ہند نے 2:50 پر نماز جنازہ پڑھائی، پھر لحد میں اتارا، کوئی تابوت نہ تھا اور اس طرح روئے کہ ساری فضا اشک بار ہوگئی. تمام لوگ رو رہے تھے اور آنسو تھمتے ہی نہ تھے. مولانا کے مزار کا حدود اربعہ 'بوند ماند' کے تحت درج ہے.
مختصر یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کیے گئے. مزار کھلا ہے، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرہ ہے، اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں. راقم جنازہ میں شرکت کے لیے اسی روز دہلی پہنچا. مولانا کو دفنا کر ہم ان کی کوٹھی میں گئے. کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لعل نہرو آ گئے اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے. پھر پھولوں کی اس روش پر گئے جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے. ایک گچھے سے سوال کیا: 'کیا مولانا کے بعد بھی مسکراؤ گے؟'
راقم آگے بڑھ کر آداب بجا لایا. کہنے لگے: 'شورش تم آگئے؟ مولانا سے ملے؟' راقم کی چیخیں نکل گئیں. مولانا ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکے تھے اور ملاقات صبح محشر تک موقوف ہوچکی تھی.
Share