خلافت راشدہ
کے بعد عربوں کی دو عظیم حکومتیں قائم ہوئیں۔ ایک کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور
دوسری کا بنو عباس سے ۔بنو عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کی
اولاد میں سے تھے۔ عباسی خاندان نے پانچ
صدیوں تک حکومت کی۔ تہذیب وتمدن، علم و
حکمت، قوت واقتدار، غرض ہر اعتبار سے ان کے دور میں اسلامی سلطنت اپنے عروج پر
پہنچ گئی تھی۔
عباسی خاندان
کا سب سے بڑ ا خلیفہ ہارون الرشیدتھا۔ اس کے اقتدار کی عظمت کا اندازہ ایک واقعہ
سے کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ دارالخلافہ بغداد میں خشک سالی ہوگئی۔
ایک روز خلیفہ اپنے محل کی چھت پر کھڑ ا تھا کہ ابر چھا گیا، مگر بادل برسے بغیر
آگے چلا گیا۔ یہ دیکھ کر ہارون رشید نے کہا:
”اے بادل تو جہاں چاہے جا کر برس، تیری پیداوار کا خراج میرے ہی پاس آئے گا۔”
خلیفہ ہارون
رشید بڑے حاضر دماغ تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: ’’آپ کبھی کسی بات پر
لاجواب بھی ہوئے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں لاجواب ہوگیا۔ ایک
مرتبہ ایک عورت کا بیٹا مرگیا اور وہ رونے لگی۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ مجھے اپنا
بیٹا سمجھیں اور غم نہ کریں۔ اس نے کہا میں اپنے بیٹے کے مرنے پر کیوں نہ آنسو
بہاؤں۔۔۔ جس کے بدلے خلیفہ میرا بیٹا بن گیا۔ دوسری مرتبہ مصر میں کسی شخص نے حضرت
موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا۔ میں نے اسے بلوا کر کہا کہ حضرت موسیٰ کے پاس تو اللہ کے
دیئے معجزات تھے اگر تو موسیٰ ہے تو کوئی معجزہ دکھا۔ اس نے جواب دیا کہ موسیٰ نے
تو اس وقت معجزہ دکھایا جب فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تو بھی یہ دعویٰ کرے تو میں
معجزہ دکھاؤں گا۔ تیسری مرتبہ لوگ ایک گورنر کی غفلت اور کاہلی کی شکایت لے کر آئے۔
میں نے کہا کہ وہ شخص تو بہت نیک، شریف اور ایماندار ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پھر
آپ اپنی جگہ اسے خلیفہ بنا دیں تاکہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے۔
No comments:
Post a Comment