Thursday, May 8, 2014

ہارون رشید کا نصرانی طبیب

ہارون رشید کا نصرانی طبیب
دار الخلافہ بغداد میں ہارون رشید کا خصوصی ڈاکٹر ایک نَصْرانی طَبِیب تھا۔جو بہت ہی عقلمنداور خوبصورت آدمی تھا اور بادشاہ اس کے کمالِ سیرت وجمالِ صورت پر دل سے فریفتہ (فَ۔رِیفْ۔تہ)تھا۔
ایک دن ہارون رشید نے اس سے کہا :کاش تم مسلمان ہوجاتے تو میں تم کو اپنے دربار کا سب سے بڑا اعزاز عطا کرتا۔طبیب نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین !آپ کے قرآن کی ایک آیت مجھے ا سلام قبول کرنے سے مَنْعْ کرتی ہے ورنہ میں ضرور مسلمان ہوجاتا۔ہارون رشید نے حیران ہوکر دریافت کیا کہ وہ کون سی آیت ہے؟طبیب نے کہا :وَکَلِمَتُہ اَلْقٰیہَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ : اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور اس کے یہاں کی ایک روح۔(پارہ ٦،النسائ،آیت١٧١)یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ کا کلمہ ہیں جس کو اللہ نے بی بی مریم کی طرف ڈال دیا اور وہ اللہ کی روح ہیں۔ دیکھیے اس میں ''رُوْحٌ مِّنْہُ''کا لفظ آیا ہے اور یہ مِنْ تبعیض کیلئے ہے جس کا حاصل یہ ہوا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام خدا کا جزو اور اس کا ایک ٹکڑا ہیں۔طبیب کی یہ تقریر سن کر ہارون رشید کو بڑا رنْجْ وصَدْمَہ ہوا اور اس نے اپنے دربار کے تمام علماء کو طلب کیاتاکہ طبیب کے اس شبہ کا اِزالہ کریں مگر درباری علماء اس کا جواب دینے سے قاصر رہے اور ہارون الرشید رَنْجْ وقلق (قَ۔لَقْ)سے بے قرار ہوگیا۔
اتنے میں پتہ چلا کہ مفسر علی بن الحسین مروزی حج سے واپس ہوتے ہوئے بغداد میں ٹھرے ہوئے ہیں۔ ہارون الرشید نے فوراً ہی انہیں بھی دربار میں بلایا۔وہ بھی ناگہاں یہ سوال سن کر چکراگئے اور فوراً جواب نہ دے سکے ۔مگر انہوں نے فرمایا کہ اے امیر المؤمنین !اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے کہ یہ خبیث نَصْرانی آپ کے دربار میں مجھ سے یہ سوال کرے گا۔لہٰذا میرا ایمان ہے کہ ضرور اس نے اپنی مُقَدَّسْ کتاب میں اس شبہ کا جواب دیا ہوگا جو اس وقت میرے خیال میں نہیں آرہا ہے مگر میں ان شاء اللہ تعالٰی جب تک اس کا جواب قرآن ہی سے نہ دوں گا خدا کی قسم!میرے لئے کچھ کھانا پینا حرام ہے۔یہ کہہ کر وہ ایک اندھیری کوٹھڑی میں منتقل ہوگئے اور دَرْوازہ بند کرکے قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے یہا ں تک کہ سورہ جاثیہ کی آیت وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ۔(پارہ٢٥،الجاثیہ،آیت١٣)زبان پر آئی تو مارے خوشی کے اچھل پڑے اور فوراًدَرْوازہ کھول کر باہر نکلے اور دَرْبار میں جاکر ہارون رشید کے سامنے نَصْرانی طَبِیب کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا کہ دیکھ لے،یہاں بھی ''رُوْحٌ مِّنْہُ'' کی طرح ''جَمِیْعًا مِّنْہ''آیا ہے ۔اگر اسمِنْکو تبعیض کیلئے مانا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ زمین وآسمان بھی خدا کے جزو قرار پائیں۔لہٰذا تم خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ ''رُوْحٌ مِّنْہُ'' میں مِنْ تبعیض کیلئے نہیں ہے اور حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام ہر گز ہرگز خدا کے جزو نہیں ہیں بلکہ وہ زمین وآسمان کی طرح خدا کی مخلوق ہیں۔علی بن الحسین کی یہ نورانی تقریر سن کر نصرانی طبیب کا سینہ کھُل گیا اور اس کا شُبہ بالکل رَفَعْ ہوگیا اور وہ اسی مجلس میں کلمہ پڑھ کرمُشَرَُفْ بہ اسلام ہوگیا ۔ہارون الرشید کو اس قدر خوشی ہوئی کہ اس نے علی بن الحسین مروزی کو بڑے گراں قدر اِنعام سے مالا مال کردیا ۔
علی بن الحسین مروزی نے اپنے وَطَن پہنچ کر نہایت عَرَقْ رِیزی اور محنت کے ساتھ اسی موضوع پر''النظائر فی القرآن''کے نام سے ایک ایسی کتاب تصنیف کردی کہ تمام روئے زمین میں اس کی مثال نہیں ۔اس کتاب میں اس فاضلِ جلیل نے مخالفینِ اسلام کی طرف سے اس قسم کے پیش ہونے والے تمام شبہات کا قلع قمع کردیا اور کسی کی مجال نہیں کہ قیامت تک قرآنِ کریم پر کوئی اس قسم کا اعتراض نہ کرسکے۔(تفسیر روح البیان ج٢ ص٢٨)

No comments: