Wednesday, August 31, 2016

ظلم کا انجام بد


کسی پر کبھی ظلم نہ کرنا______!!

ایک شخص نے کہا میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کا ہاتھ کاندھے سے کٹا ہوا تھا اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ” مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کرو‘ اور کسی پر ہرگز ظلم نہ کرو“۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا:"میرے بھائی تیرا کیا قصہ ہے؟"اس شخص نے جواب دیابھائی میرا قصہ عجیب و غریب ہے۔ دراصل میں ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیا کرتا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے میں نے ایک مچھیرے کو دیکھا جس نے کافی بڑی مچھلی پکڑ رکھی تھی۔ مچھلی مجھے پسند آئی۔ میں اس کے پاس پہنچا اور کہا مجھے یہ مچھلی دے دو‘ اس نے جواب دیا میں یہ مچھلی تمہیں نہیں دوں گا کیونکہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت سے مجھے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ میں نے اسے مارا پیٹا اور اس سے زبردستی مچھلی چھین لی اور اپنی راہ لی..جس وقت میں مچھلی کو اٹھائے جا رہا تھا‘ اچانک مچھلی نے میرے انگوٹھے پر زور سے کاٹ لیا۔ میں مچھلی لے کر گھر آیا اور اسے ایک طرف ڈال دیا۔ اب میرے انگوٹھے میں ٹیس اور درد اٹھا اور اتنی تکلیف ہونے لگی کہ اس کی شدت سے میری نیند اڑ گئی۔ پھر میرا پورا ہاتھ سوج گیا۔ جب صبح ہوئی تو میں طبیب کے پاس آیا اور اس سے درد کی شکایت کی..طبیب نے کہا یہ انگوٹھا سڑنا شروع ہو گیا ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اس کو کٹوا دو‘ ورنہ پورا ہاتھ سڑ جائے گا۔ میں نے انگوٹھا کٹوا کر نکلوا دیا۔ لیکن اس کے بعد سڑاند ہاتھ میں شروع ہوئی اور درد کی شدت سے میں سخت بے چین ہو گیا اور سو نہ سکا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ہتھیلی کاٹ کر نکلوا دو میں نے ایسا ہی کیا‘ اب درد بڑھ کر کہنی تک پہنچ گیا..میرا چین اور نیند سب اڑ گئی اور میں درد کی شدت سے رونے اور فریاد کرنے لگا۔ ایک شخص نے مشورہ دیا کہ کہنی سے ہاتھ الگ کر دو۔ میں نے ایسا ہی کیا لیکن اب درد مونڈھے تک پہنچ گیا اور سرانڈ وہاں تک پہنچ گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اب تو پورا بازو کٹوا دینا ہو گا ورنہ تکلیف پورے بدن میں پھیل جائے گی۔ اب لوگ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آخر یہ تکلیف تمہیں کیوں کر شروع ہوئی۔ میں نے مچھلی کا قصہ انہیں سنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم ابتداء میں مچھلی والے کے پاس جا کر اس سے معافی مانگتے‘ اسے کہہ سن کر راضی کر لیتے اور کسی صورت میں مچھلی کو اپنے لئے حلال کر لیتے تو تمہارا ہاتھ یوں کاٹا نہ جاتا۔ اس لئے اب بھی جاﺅ اور اس کو ڈھونڈ کر اسے خوش کرو ورنہ تکلیف پورے بدن میں پھیل جائے گی۔ اس شخص نے کہا میں نے یہ سنا تو مچھلی والے کو پورے شہر میں ڈھونڈنے لگا‘ آخر ایک جگہ اس کو پالیا۔ میں اس کے پیروں پر گر پڑا اور انہیں چوم کر رو رو کر کہا:"میرے بھائی تمہیں اللہ کا واسطہ مجھے معاف کردو۔""اس نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو؟"میں نے بتایا میں وہ شخص ہوں جس نے تم سے مچھلی چھین لی تھی۔ پھر میں نے اس سے اپنی کہانی بیان کی اور اسے اپنا ہاتھ دکھایا۔ وہ دیکھ کر رو پڑا اور کہا :"میرے بھائی میں نے اس مچھلی کو تمہارے لئے حلال کیا، کیونکہ تمہارا حشر میں نے دیکھ لیا۔"میں نے اس سے کہا میرے آقا ‘خدا کا واسطہ دے کر میں تم سے پوچھتا ہوں کہ جب میں نے تمہاری مچھلی چھینی تو تم نے مجھے کوئی بد دعا دی تھی۔ اس شخص نے کہا..ہاں میں نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ....!
"اے اللہ! یہ اپنی قوت اور زور کے گھمنڈ میں مجھ پر غالب آیا اور تو نے جو رزق دیا اس نے مجھ سے چھین لیا اور مجھ پر ظلم کیا اس لئے تو اس پر زور کا کرشمہ دکھا۔"میرے مالک اللہ نے اپنا زور تمہیں دکھا دیا۔ میں نے کہا: "اب میں اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ نہ کسی پر ظلم کروں گا اور نہ ہی کسی ظالم کی مدد کروں گا۔ ان شاءاللہ جب تک زندہ رہوں گا اپنے وعدے پر قائم رہوں گا۔" (اس واقعہ کو علامہ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الزواجر میں نقل کیا ہے)

باسی روٹی پر توکل اور دلہن کی ضد

ایسی بھی ہوتی ہیں شادیاں

اگر وقت ملے تو ضرور پڑھیں۔۔۔
حضرت شیخ شاہ کرمانی رحمتہ اللہ علیہ کی صاجزادی کے لئے بادشاہ کرمان نے نکاح کا پیغام بھیجا۔ شیخ نے کہلا بھیجا کہ مجھے جواب کے لئے تین دن کی کی مہلت دیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس دوران وہ مسجد مسجد گھوم کر کسی صالح انسان کو تلاش کرنے لگے۔ ایک لڑکے پران کی نگاہ پڑی جس نے اچھی طرح نماز ادا کی اور دعا مانگی۔ شیخ نے اس سے پوچھا تمھاری شادی ہو چکی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا نکاح کرنا چاہتے ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لڑکی قرآن مجید پڑھتی ہے، نماز روزہ کی پابند ہے، خوبصورت پاکباز اور نیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے کہا بھلا میرے ساتھ کون رشتہ کرے گا۔ شیخ نے فرمایا۔ میں کرتا ہوں۔ لو یہ درہم، ایک درہم روٹی، ایک درہم کا سالن اور ایک درہم کی خوشبو، خرید لاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح شاہ کرمانی نے اپنی دختر کا نکاح اس سے پڑھا دیا۔ لڑکی جب شوہر کے گھر آئی تو اس نے دیکھا پانی کی صراحی پر ایک روٹی رکھی ہوئی ہے۔ اس نے پوچھا یہ روٹی کیسی ہے؟
شوہر: یہ کل کی باسی روٹی ہے۔ میں نے افطار کے لئے رکھی ہے۔ یہ سن کر وہ غم زدہ ہونے لگی۔
شوہر: مجھے معلوم تھا کہ شیخ شاہ کرمانی کی دختر مجھ جیسے غریب گھر نہیں رک سکتی۔
لڑکی: میں تیری مفلسی کے باعث نہیں لوٹ رہی بلکہ اس لئے کہ خدا پر تمھارا یقین بہت کمزور نظر آ رہا ہے۔ بلکہ مجھے تو اپنے باپ پر حیرت ہے کہ انہوں نے تجھے پاکیزہ خصلت، عفیف اور صالح کیسے کہا جب کہ اللہ تعالٰی پر تمھارے اعتماد کا یہ حال ہے کہ روٹی بچا کر رکھتے ہو۔
نوجوان نے اس کی بات سنی تو کہا اس کمزوری پرمعذرت خواہ ہوں۔ لڑکی: اپنا عذر تم جانو! البتہ ایسے گھر میں میں تو نہیں رک سکتی جہاں ایک وقت کی خوراک جمع کر رکھی ہو۔ اب یا میں رہوں گی یا روٹی۔
نوجوان نے فوراً جا کر روٹی خیرات کر دی۔ اور ایسی درویش خصلت شہزادی کا شوہر بننے پر خدا کا شکر ادا کیا۔
(روض الریاحین)
ایک وہ وقت تھا جب بیٹی کی شادی کے لئے کسی صالح نوجوان کا انتحاب کیا جاتا تھا، اور اب وقت یہ آیا کہ اگر کسی نیک نوجوان کے لئے رشتہ جائے تو یہ کہہ کر رشتہ ٹھکرا دیا جاتا ہے کہ ”لڑکا مولوی ہے“۔ کیا آج ہم دنیا کو دوست نہیں رکھتے؟ کیا ہم آخرت کو ترک نہیں کیے دیتے؟ کیا آج رشتہ کے معاملہ میں ہماری ترجیحات بدل نہیں گئیں. . ...

Wednesday, August 24, 2016

ایک چونی کا بھروسہ

یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے.. میں انگریزی ادب میں آنرز کر رہا تھا.. سندھ یونیورسٹی میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر جمیل واسطی مرحوم تھے جو پنجاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر حیدرآباد آئے تھے..
ہماری کلاس میں تقریباً بیس سٹوڈنٹ تھے.. ان میں چھ کے قریب طالبات تھیں.. اس زمانہ میں طالبات انگریزی ادب فیشن کے طور پر پڑھا کرتی تھیں.. ہماری کلاس نے پکنک کا ایک پروگرام بنایا لیکن اس پر اختلاف ہوگیا کہ لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پکنک منانے جائیں یا الگ الگ..؟
یہ معاملہ پروفیسر جمیل واسطی کے علم میں آیا تو انہوں نے رائے دی کہ الگ الگ پکنک کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔
"مگر یہاں تو مخلوط تعلیم ہے واسطی صاحب.." ایک لڑکی نے اٹھ کر احتجاج بھری آواز میں کہا..
"میں نے کب کہا کہ میں مخلوط تعلیم کا حامی ہوں..؟" واسطی مرحوم بولے..
"سر ! یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ..؟ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے.." وہ بولی..
واسطی صاحب نے گھوم کر لڑکی کی طرف دیکھا جو ایک معروف , متمول اور فیشن ایبل خاندان سے تعلق رکھتی تھی.. پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا.. "غلام اکبر ! تمہاری جیب میں ایک چونّی ہوگی..؟"
اس عجیب وغریب سوال پر میں چونک پڑا اور جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا.. واسطی صاحب فوراً ہی بولے.. "دروازے سے باہر جا کر چونی کاریڈور میں رکھ دو.."
پوری کلاس حیرت زدہ تھی.. میں بھی حیران ہو کر دروازے کی طرف مڑا تو واسطی صاحب بولے.. "سمجھ لو کہ تم چونّی کلاس کے باہر رکھ چکے ہو.. اب بیٹھ جاؤ.."
پھر واسطی صاحب اس لڑکی کی طرف مڑے اور بولے.. "جب ہم کلاس ختم کرکے باہر نکلیں گے تو کیا وہ چونی وہاں موجود ہو گی..؟"
لڑکی بدحواس سی ہو گئی , پھر سنبھل کر بولی.. "ہو سکتا ہے کہ اگر کسی کی نظر پڑے تو اٹھا لے.."
اس جواب پر واسطی صاحب مسکرائے اور سب سے مخاطب ہو کر بولے.. "دیکھ لیں کہ جن لوگوں پر ایک چونّی کے معاملے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا وہ لڑکیوں کے معاملے میں کس قدر شریف ہیں , حالانکہ چونّی بچاری تو لپ سٹک بھی نہیں لگاتی.."
واسطی صاحب کی اس بات پر پوری کلاس کو سانپ سونگھ گیا..
میں آج تک وہ بات نہیں بھولا.. اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں دقیانوسی سوچ رکھتا ہوں یا واسطی صاحب بہت زیادہ قدامت پسند سوچ کے حامل تھے لیکن کیا اس بات میں کچھ سچ ایسے نہیں چھپے ہوئے جن کا تعلق براہ راست انسان کی فطرت اور ان جبلتوں سے ہے جنہیں سدھایا اور سدھارا نہ جائے تو ان کی رو میں تہذیب وتمدن کے تمام تقاضے بہہ جایا کرتے ہیں..؟
غلام اکبر صاحب.. (کالم) "حملہ ہو چکا ہے" (روزنامہ نوائے وقت)
منقول

Thursday, August 18, 2016

دنیا کی سچائی۔ دھوکا اور لذت

ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا ، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں
وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔
سوال نمبر 1: دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
سوال نمبر 2 : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
سوال نمبر 3 : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے ؟
بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی۔وزیر نے سب پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے ۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں ۔لیکن کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہوگیا ۔چلتے چلتے رات ہوگئی ،اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا ،وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دئے
دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کےجواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا ،سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانے کی بھی پیشکش کی۔کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤگے۔یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے انکار کر دیا ۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا ۔کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا ۔یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
تو کسان نے کہا کہ
دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے
جس کے لئے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے

Sunday, August 7, 2016

نا انصافی کی سرزمین

نا انصافی کی سرزمین
ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح ا
ور مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے‘ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔
کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔
مدعی نے کہا۔
”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“
مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔
”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے ، میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے “
سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔
”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟“
”ہاں ہے!“
پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔
”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟“
”جی ہاں....“ مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔
”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔“
اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا ۔ وہ فکر مند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“
”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“
سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“
شہنشاہ نے کہا کہ ۔ ” پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ مقدمہ ہمارے ملک میں ہوتا تو زمین خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ : میں نے اسے زمین بیچی ہے اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ہے ، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت تو میں نے وصول ہی نہیں کی ، اس لیے یہ میرا ہے ۔
جبکہ خریدنے والا کہتا کہ:
میں نے اس سے زمین خریدلی ہے ، تو اب اس میں جو کچھ ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے ۔
سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ ، پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟
شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فورا جواب دیا کہ:
ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔“
”بادشاہ کی ملکیت!“ سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“
”جی ہاں کیوں نہیں؟“
”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....“
”بالکل!“
”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟“
”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“
”اوہ خوب‘ میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے۔

Tuesday, August 2, 2016

جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ

جالندھر کے خیرالمدارس میں جلسہ ہوا,اور جلسے کے اختتام پر کھانا لگا ، دستر خوان پر امیر شریعت مولانا سید عطا اللّہ شاہ بخاری رحمۃ اللّہ علیہ بھی تھے ، انکی نظر ایک نوجوان عیسائی پر پڑی تو اسکو فرمایا ،
بھائی کھانا کھا لو "
" عیسائی نے جواب دیا "
جی میں تو بھنگی ہوں
' شاہ جی نے درد بھرے لہجے میں فرمایا "
" انسان تو ہو اور بھوک تو لگی ہے "
یہ کہہ کر اٹھے اور اسکے ہاتھ دھلا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا....
وہ بیچارہ تھر تھر کانپتا جاتا تھا ، اور کہتا جاتا تھا " جی میں تو بھنگی ہوں "
شاہ صاحب نے خود لقمہ بنا کر اسکے منہ میں ڈالا...اسکا حجاب اور خوف کچھ دور ہوا تو شاہ صاحب نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا ، جب اس نے آدھا آلو کاٹ لیا تو باقی شاہ صاحب نے خود کھا لیا ،اسی طرح اس نے پانی پیا تو شاہ صاحب نے اسکا بچا ہوا پانی خود پی لیا..دن گزر گیا اور وہ عیسائی کھانا کھا کر غائب ہوگیا ،
اس پر رقت طاری تھی, وہ خوب رویا اور اسکی کیفیت ہی بدل گئی, عصر کے وقت وہ عیسائی اپنے بیوی اور بچوں کو لے کر آیا اور کہا: شاہ جی
جو محبت کی آگ لگائی وہ بجھائیں بھی اور اللّہ کے لیے کلمہ پڑھا کر مسلمان کرلیں, اور میاں بیوی دونوں مسلمان ہوگئے ,
وہ اداےُ دلبری ہو یا نواےُ عاشقانہ!!
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ !!
(بخاری کی باتیں, ص 29:30)

Monday, August 1, 2016

باادب با نصیب.. بے ادب نصیب ۔

ایک بار جناب بہلول کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے - ایک تاجر کا وھاں سے گذر ھوا --- وہ آپ کے پاس آیا اور سلام کر کے مودب سامنے بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی.. " حضور ! تجارت کی کونسی ایسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ھو.. "
جناب بہلول نےفرمایا.. " کالا کپڑا لے لو.. "
تاجر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قدموں چلتا واپس چلاگیا.. جا کر اس نے علاقے میں دستیاب تمام سیاہ کپڑا خرید لیا..
کچھ دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا.. ماتمی لباس کے لئے سارا شہر سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکل کھڑا ھوا.. اب کپڑا سارا اس تاجر کے پاس ذخیرہ تھا.. اس نے مونہہ مانگے داموں فروخت کیا اور اتنا نفع کمایا جتنا ساری زندگی نہ کمایا تھا اور بہت ھی امیر کبیر ھو گیا..
کچھ عرصے بعد وہ گھوڑے پر سوار کہیں سے گذرا.. جناب بہلول وھاں تشریف رکھتے تھے.. وہ وہیں گھوڑے پر بیٹھے بولا.. " او دیوانے ! اب کی بار کیا لوں.. ؟"
بہلول نے فرمایا.. " تربوز لے لو.. "
وہ بھاگا بھاگا گیا اور ساری دولت سے پورے ملک سے تربوز خرید لئے.. ایک ہی ہفتے میں سب خراب ہو گئے اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا..
اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملاقات جناب بہلول سے ھوگئی تو اس نے کہا :
" یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کِیا..? "
جناب بہلول نے فرمایا.. " میں نے نہیں ' تیرے لہجوں اور الفاظ نے سب کیا.. جب تونے ادب سے پوچھا تو مالا مال ہوگیا.. اور جب گستاخی کی تو کنگال ہو گیا.. "
اس کو کہتے ہیں...
باادب با نصیب.. بے ادب بے نصیب..!!

علم کی قدر

*علم کی قدر کیجئے*

*حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب مدظلہ*-------------- "مسیح العلوم آئے تھے علماء سے خطاب کرتے ہوئے حضرت نے ایک عجیب واقعہ بیان کیا جو انتخاب خداوندی کی ایک مثال ہے :واقعہ :مفتی صاحب کے مدرسہ میں ڈابھیل میں پڑھے ہوئے ایک مولانا جو افریقہ میں کام کررہے ہیں ان کی محنت غربت زدہ کالوں پر ہوتی ہے؛ ان کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ اپنے مدرسہ میں بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ درسگاہ کےباہر ایک بچہ جو صرف چڈی پہنے تھا اپنی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا میں نے طالب علم کے ذریعہ معلوم کیا تو وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے بھی پڑھاؤ، میں نے اسے اپنے پاس بلالیا اور اس کی تعلیم شروع کردی، اچھا ذہین تھا یہاں تک کہ چند پارے حفظ ہوگئے، ایک مرتبہ وہ میری ڈانٹ سے دل برداشتہ ہو کر بھاگ گیا، میں نے اسے دوبارہ لاکر تعلیم پر لگا دیا، بہترین حافظ بنا، ختم حفظ کے جلسہ میں ایک خاص مہمان وہاں کے ایک منسٹر بھی تھے؛ جب اس طالب علم کا نام پکارا گیا تو وہ منسٹر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے؛ مجلس میں سناٹا چھا گیا؛ جب ان سے پوچھا گیا تو منسٹر نے بتایا کہ اس کی ماں پاگل ہے اور باپ بھی اچھے اخلاق والا نہیں ہے؛ اس کی ماں نے جب اسے جنا تو اپنے پاگل پن کی وجہ سے اسے کچرے کی جگہ ڈال دیا؛ محلہ کی عورتیں اس کی پرورش کیں؛ اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت کے لئے اسے چن لیا.بہرحال وہ طالب علم دبئی کے ایک مسابقہ میں بھی اعلی نمبر حاصل کیا تھا.اس سے سمجھ میں آرہا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے دین کی حفاظت کے لئے جس کو چاہے منتخب فرماتے ہیں وہاں نہ خاندان کا لحاظ ہوتا ہے نہ مالداری کا اس لئے علم دین کے ساتھ ساتھ اگر غربت بھی ہے جیسا عموما ایسا ہی ہے تو پریشان نہیں ہونا ہے بلکہ خدا نے جس نعمت سے نوازا ہے اس کی قدر کرنی چاہئے؛ یہی وجہ ہے کہ مالداروں کے بچہ اس راستہ پر کم لگتے ہیں کہ انتخابات منجانب اللہ ہوتے ہیں.