Saturday, December 31, 2016

ایسا بھی ہوتا ہے ۔

ایسا بھی ہوتا ہے !!!
​شیخ ابو الوفاء بن عقیل کہتےہیں:میرے ایک دوست نے مجھےبتلایا کہ ایک عورت شام کےوقت ایک نوجوان کنوارے کپڑافروش کی دکان کے دروازے کے پاس جاکر بیٹھ گئی- جب دکان بند کرنے لگا تو اسے وہ عورت نطر آگئی-دکاندار: اللہ کی بندی! شام کے وقت تم یہاں کیا کررہی ہو؟ کیا پریشانی ہے؟عورت: میں کسی سہارے کی تلاش میں ہوں، میرے پاس کوئی رہائش نہیں-دکاندار: تم میرے ساتھ گھر چل سکتی ہو جہاں تمہیں آج کی رات گزارنے کا موقع مل جائے گا-عورت: ٹھیک ہے-دکاندار اس عورت کو لےکر اپنے گھر گیا، بات چیت ہوئی اور نوجوان نے خود ہی پیشکش کردی: کیوں نہ میں تم سے شادی کرلوں؟عورت نے اس کی پیشکش قبول کرلی- گواہوں کو بلایا گیا، امام مسجد آیا، اس نے نکاح پڑھا اور دونون کی شادی ہوگئی-شادی کے تین دن گزرے تھے کہ چوتھے دن دکاندار کے گھر ایک آدمی چند عورتوں کو لے کر آیا- دکاندار نے پوچھا:آپ کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے ہیں؟ کیا مقصد ہے؟آنے والوں نے بتایا: ہم سب اس لڑکی کے قریبی رشتیدار ہیں، اس کے چچا زاد بہن بھائی ہیں- جب ہمیں آپ کے بارے میں معلو م ہوا کہ آپ نے ہماری رشتہ دار لڑکی کی زندگی کو سہارادیا ہے اور اس کو اپنا شیرک حیات بنالیا ہے تو ہمیں بہت ہی زیادہ خوشی ہوئی اور آپ کی شرافت او ر اعلی کردار سے ہم بہت متاٹر ہوئے- ہمارے یہاں آنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے گھر ایک شادی ہے جس میں آپ کی بیوی کی شرکت ناگزیر ہے، اس لیےہم اسے چند دنوں کے لیے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں، آپ اگر اسے ہمار ےساتھ جانے دیں تو مہربانی ہوگی-دکاندار ان کی باتیں سن کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اسے ان کی خواہش سے آگاہ کیا-بیوی نے کہا: ان کو واپس کردو، مجھے ان کے ہمراہ ہرگز نہ بھیجنا، ان کے سامنے یہ کہ کر قسم کھالو کہ اگر میری بیوی ایک ماہ سے پہلے میرے گھر سے نکلی تو میں اس کو طلاق دیتا ہوں- کیونکہ یہ لوگ مجھے واپس لے جائيں گے تو تمہارے خلاف ورغلائيں گے، چونکہ میں نے ان کی اجازت کے بغیر تم سے شادی کرلی ہے اور ان کا گھر چھوڑ کر آئی ہوں، نہ معلوم انہیں ہمارا پتہ کس نے بتادیا!!!بیوی کی بات سن کر دکاندار گھر سے باہر نکلا اور مہمانوں کے سامنے بیوی کے مشورے کے مطابق طلاق کی قسم بھی کھالی کہ اگر یہ ایک ماہ سے پہلے گھر سے نکلی تو اس کو تین طلاقیں- مہمان لوگ مایوس ہوکر واپس چلے گئے-نوجوان حسب معمول اپنی دکان پر چلا گیا مگر اس کا ذہن اور خیال مسلسل اپنی بیوی کی طرف تھا- اس کا کاروبار میں دل نہیں لگ رہا تھا- ادھر اس کی بیوی اس کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے گھر سے کچھ لیے بغیر اپنے گھر چلی گئی- جب دکاندار گھر واپس آیا تو دیکھاکہ بیوی گھر میں موجود نہیں ہے- جب وہ ڈھونڈنے لگا تو کسی نےاسے بتایا کہ عورت آپ کا گھر چھوڑ کر چلی گئی -شیخ ابو الوفاء کہتے ہیں: شاید اس عورت نے اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کی خاطر یہ ڈرامہ کیاتھا جس نے اسے تین طلاقیں دے دی تھیں- لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے مکر و فریب سے ہوشیار رہیں اور لوگوں کےحیلوں اور بہانوں کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی کوشش کریں
-اقتباس: کتاب الاذکیاہ ص:261

خاموش نیکی

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جب مدائن کو فتح کیا تو کچھ دنوں کے بعد ایک عام مجاہد ان کے پاس آیا- اس کے ہاتھ میں  میں کوئی چیز کپڑے میں لپٹی ہوئی تھی - اس نے وہ چیز نکالی اور کہنے لگا، اے امیر الجیش! میں آپ کی خدمت میں یہ امانت دینے کے لیے آیا ہوں -جب حضرت نے اس کو کھولا تو وہ مدائن کے بادشاہ کا تاج تھا -وہ تاج سونے کا بناہوا تھا -اور اس پر اتنے قیمتی ہیرے اور موتی لگے ہوئےتھے کہ اگر وہ مجاہد اس کو بیچ کر کھاتا تو اس کی سات نسلوں کو کمانے کی ضرورت نہ ہو تی -جو بادشاہ اس جنگ میں قتل ہوا تھا اس کے سر سے وہ تاج کہیں گرا تھا، وہ مٹی میں پڑا تھا اور اس مجاہد کو مل گیا کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ تاج اس کے پاس ہے -اس نے بھی اس کو چھپا کر رکھا -
جب ہر چیز سٹیل ہوگئی تو اس نے لاکر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو پیش کر دیا - حضرت اس کے اخلاص پر حیران ہو گئے کہ کسی کو  اس تاج کے بارے میں پتہ بھی نہیں تھا، یہ غریب سا بندہ ہے، یہ اسے اپنے پاس رکھ بھی سکتا تھا،
لہذا انہوں نے اس کے اخلاص پر حیرانی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا، اے مجاہد! تیرا نام کیا ہے؟ اس سوال پر مجاہد نے اپنا رخ پھیر ان کی طرف اپنی پیٹھ کردی اور کہا کہ جس رب کو راضی کرنے کے لیے میں نے یہ تاج واپس کیا ہے وہ میرا نام جانتا ہے۔
یہ کہ کر وہ ان کے دربار سے باہر چلا گیا -
                        

Friday, December 23, 2016

شیر کی بیماری اور لومڑی کا جواب

ایک شیر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔ بھوک سے جب برا حال ہوا تو کسی لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔" فکر نہ کرو، میں اس کا بندوبست کردوں گا۔"

یہ کہہ کر لومڑی نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

یہ خبر سنتے ہی جنگل کے جانور اس کی عیادت کو آنے لگے۔ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا اور عیادت کے لیے آنے والے جانوروں کا شکار کرکے اپنی بھوک مٹاتا رہتا۔

ایک دن لومڑی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لیے آئی اور غار کے دہانے پر کھڑی ہو گئی۔ اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔ اس نے لومڑی سے کہا۔" باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔"

لومڑی نے چالاکی سے جواب دیا۔" نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔ میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔"

Monday, November 21, 2016

صبر کا پھل

️حکایات رومی سے ایک سبق آموز حکایت

ایک عورت کو اللّٰہ ہر بار اولادِ نرینہ سے نوازتا مگر چند ماہ بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا۔ لیکن وہ عورت ہر بار صبر کرتی اور اللّٰہ کی حکمت سے راضی رہتی تھی۔ مگر اُس کے صبر کا امتحان طویل ہوتا گیا اور اسی طرح ایک کے بعد ایک اُس عورت کے بیس بچّے فوت ہوئے۔ آخری بچّے کے فوت ہونے پر اُس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ آدھی رات کو زندہ لاش کی طرح اُٹھی اور اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر سجدے میں رکھ کر خوب روئی اور اپنا غم بیان کرتے ہوئے کہا "اے کون و مکاں کے مالک.! تیری اِس گناہگار بندی سے کیا تقصیر ہوئی کہ سال میں نو مہینے خونِ جگر دے کر اِس بچّے کی تکلیف اُٹھاتی ہوں اور جب اُمید کا درخت پھل لاتا ہے تو صرف چند ماہ اُس کی بہار دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ آئے دن میرا دل غم کے حول کا شکار رہتا ہے کہ میرا بچّہ پروان چڑھے گا بھی کہ نہیں۔ اے دُکھی دلوں کے بھید جاننے والے.! مجھ بےنوا پر اپنا لطف و کرم فرما دے۔" روتے روتے اُسے اونگھ آ گئی۔ خواب میں ایک شگفتہ پُربہار باغ دیکھا جس میں وہ سیر کر رہی تھی کہ سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ایک محل نظر آیا جس کے اوپر اُس عورت کا نام لکھا ہُوا تھا۔ باغات اور تجلیات دیکھ کر وہ عورت خوشی سے بیخود ہو گئی۔ محل کے اندر جا کر دیکھا تو اُس میں ہر طرح کی نعمت موجود تھی اور اُس کے تمام بچّے بھی اُسی محل میں موجود تھے جو اُسے وہاں دیکھ کے خوشی سے جھُوم اُٹھے تھے۔ پھر اُس عورت نے ایک غیبی آواز سُنی کہ "تُو نے اپنے بچّوں کے مرنے پر جو صبر کیا تھا, یہ سب اُس کا اجر ہے۔" خوشی کی اِس لہر سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تو اُس کا سارا ملال جاتا رہا اور اُس نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے عرض کیا "یا الہٰی اب اگر تُو اِس سے بھی زیادہ میرا خُون بہا دے تو میں راضی ہوں۔ اب اگر تُو سینکڑوں سال بھی مجھے اِسی طرح رکھے تو مجھے کوئی غم نہیں۔ یہ انعامات تو میرے صبر سے کہیں زیادہ ہیں۔"

درسِ حیات: انسان کو ہر حال میں صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کیونکہ یہی چیز انسان کو اللّٰہ کے قریب کرتی ہے۔

Friday, October 14, 2016

ماں کی محبت اور ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا رب

ماں کی محبت سے متعلق ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ ملک خداداد خان صاحب کی فرستادہ دل کو چھو لینے والی اور اردو ادب کی ایک شاھکار تحریر ۔

     ہمیں اماں جی اس وقت زہر لگتیں  جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھوتیں- لکس ، کیپری ، ریکسونا کس نے دیکھے تھے ..... کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی- آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرع چبھتا ... اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے !!!
     ہماری ذرا سی شرارت  پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں... اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیتیں جسے ہم "ڈمنی" کہتے تھے ... لیکن مارا کبھی نہیں- کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا ... کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے  ...
     گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا - ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹؤر ہوا کرتاتھا ... اور اس ٹؤر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی !!
     اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں .... ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے .... ان کا دوپٹہ کھینچتے ... پھر ان کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے-
     کبھی اماں گاؤں ساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے ..... شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے.....ہمیں گاؤں اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے " میرے سوال پر اماں وہی گھسا پٹا جواب دیتیں ...." جب تو بڑا ہوگا ... نوکری کرے گا ... بہت سے پیسے آئیں گے ... تیری شادی ہوگی ... وغیرہ وغیرہ ... یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے ...
      مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا- وہاں جلنے بجھنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹاخے بھی پھوٹ رہے تھے- میں نے ماں کی بہت منّت کی کہ رات ادھر ہی ٹہر جائیں لیکن وہ نہیں مانی- جب میں ماں جی کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آرہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا.....
     شام کا وقت تھا .... ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا- وہ پاگلوں کی طرع رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھری - اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہی -
رات گئے جب میں  شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرع مجھ  پر حملہ آور ہوئیں- اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتی-
     ایک بار ابو جی اپنے پیر صاحب کو ملنے سرگودھا گئے ہوئے تھے- میں اس وقت چھ سات سال کا تھا- مجھے شدید بخار ہو گیا- اماں جی نے مجھے لوئ میں لپیٹ کر کندھے پر اٹھایا اور کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی تین کلو میٹر دور گاؤں کے اڈے پر ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں- واپسی پر ایک کھالے کو پھلانگتے ہوئے وہ کھلیان میں گر گئیں ... لیکن مجھے بچا لیا ... انہیں شاید گھٹنے پر چوٹ آئ ... ان کے مونہہ سے میرے لئے حسبی اللہ نکلا ... اور اپنے سسرال کےلئے کچھ ناروا الفاظ ... یہ واقعہ میری زندگی کی سب سے پرانی یاداشتوں میں سے ایک ہے ....
یقیناً وہ بڑی ہمت والی خاتون تھیں-اور آخری سانس تک محنت مشقت کی چکی پیستی رہیں ...
     پھر جانے کب میں بڑا ہوگیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا...
سال بھر بعد جب گھر آتا.....تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ھنستا رہتا- پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے ماں کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا-
     ماں کھیت میں چارہ کاٹتی اور بہت بھاری پنڈ سر پر اٹھا کر ٹوکے کے سامنے آن پھینکتی- کبھی کبھی خود ہی ٹوکے میں چارہ ڈالتی اور خود ہی ٹوکہ چلاتی - جب میں گھر ہوتا تو مقدور بھر ان کا ہاتھ بٹاتا- جب میں ٹوکہ چلاتے چلاتے تھک جاتا تو وہ سرگوشی میں پوچھتیں ... " بات کروں تمہاری فلاں گھر میں ....؟؟ "
وہ جانتی تھی کہ میں پیداٰئشی عاشق ہوں اور ایسی باتوں سے میری بیٹری فل چارج ہو جاتی ہے-
     پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا ... اور ماں نے اپنی پسند سے میری شادی کر دی-
میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے گاؤں میں اپنی الگ دنیا بسا لی-
وہ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں .... میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائ...کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ  زیادہ خوبصورت لگتا ہے....
     ماں بیمار ہوئ تو میں چھٹی پر ہی تھا... انہیں کئ دن تک باسکوپان  کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ کا  درد ہے ... جلد افاقہ ہو جائے گا ... پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ھسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے ......
خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئ تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا .... ماں کو پتا چلا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا..." کیوں دیا خون...خرید لاتا کہیں سے...پاگل کہیں کا "
میں بمشکل اتنا کہ سکا .... " اماں خون کی چند بوندوں سے تو وہ قرض بھی ادا نہیں ہو سکتا ...  جو آپ مجھے اٹھا کر گاؤں ڈاکٹر کے پاس لیکر گئیں تھیں ... اور واپسی پر کھالا پھلانگتے ہوئے گر گئ تھیں .... "
وہ کھلکھلا کر ہنسیں تو میں نے کہا "امّاں مجھے معاف کر دینا ... میں تیری خدمت نہ کر سکا "
میرا خیال ہے کہ میں نے شاید ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو گی ... وقت ہی نہیں ملا ... لیکن وہ بہت فراخ دل تھیں .... بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو کہنے لگیں " میں راضی ہوں بیٹا ... کاہے کو بار بار معافی مانگتا ہے !!! "
     ماں نے میرے سامنے دم توڑا .... لیکن میں رویا نہیں ... دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا-
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
ماں سے بچھڑے مدت ہوگئ...اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں....!!!!
     آج بیت اللّہ کا طواف کرتے ہوئے پٹھانوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا  جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا...
یوں لگا جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں .... وہی سکون جو ماں کی گود میں آتا تھا ... وہی اپنائیت ... وہی محبت ... جس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا ....  اس بار منہ پھاڑ کر نہیں .... دھاڑیں مار مار کر رویا !!!!
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنیوالا رب کعبہ ..... اور ہم سدا کے شرارتی بچے !!!!
رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا

Monday, September 19, 2016

جھنڈا اچھا کہ پردہ

جھنڈا اچھا کہ پردہ ؟

یہ کہانی بھی سنو! ایک بار شہر بغداد میں ایک جھنڈے اور پردے پر بحث چھڑ گئی۔ جھنڈا گرد غبار اور سفر کی تھکن سے بہت پریشان تھا۔ اس نے غصّہ کے ساتھ پردے سے کہا کہ ہم تم دونوں ایک آقا کے غلام ہیں ایک بادشاہ کے خدمت گزار ہیں۔ لیکن مجھے ذرا دیر کے لیے بھی آرام کا موقع نہیں ملتا ہے اور برابر وقت بے وقت سفر میں رہتا ہوں اور تو نے نہ لڑائی کا مزہ چھکا نہ قلعوں اور جنگلوں میں پھرا نہ ہوا اور گردو غبار کی تکلیف اٹھائی اور میں محنت کرنے میں تجھ سے بہت آگے ہوں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ تیری عزت مجھ سے زیادہ کیوں کی جاتی ہے۔ تو خوبصورت ملازموں اور چمیلی کے پھولوں جیسی حسین خادماؤں کے پاس رہتا ہے اور میں نوکروں کے ہاتھوں میں رہتا ہوں اور سفر میں دوسروں کا پابند ہوں لوگ جہاں چاہتے ہیں مجھے لے جاتے ہیں۔

پردے نے جواب دیا کہ میں اپنے مالک کی چوکھٹ پر سر جھکاتا ہوں۔ تیری طرح اپنا سر آسمان کی طرف بلند نہیں کرتا۔ جو شخص بے فائدہ گردن اونچی کر کے چلتا ہے وہ اپنے کو سر کے بل گراتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جو شخص عاجزی اور انکساری کرتا ہے اس کو عزت حاصل ہوتی ہے اور جو غرور سے سر اٹھا کر چلتا ہے وہ ایک دن ذلیل ہوتا ہے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Sunday, September 18, 2016

پرندوں جیسا توکل

مئی ۱۹۸۶ء تک کا زمانہ مسقط (عمان) کی فوج میں بطور ایک اکائونٹنٹ گزرا، وہاں ہمارے ساتھ ایک رشید صاحب بھی ہوا کرتے تھے، وہ حافظ آباد کے قریب واقع کسی گائوں کے رہنے والے تھے، وہ وقتاً فوقتاً گائوں کا چکر لگاتے رہتے تھے، وہ اکثر ایک حکیم صاحب کا ذکر کرتے، ان حکیم صاحب کی باتیں کچھ عجیب سی تھیں۔ مجھے بھی آج تک یاد ہیں۔ حکیم صاحب کا گائوں گکھڑ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔

حکیم صاحب کا بچپن اپنے دادا کی گود میں گزرا تھا، ان کے والد اُن کی پیدائش سے قبل انتقال فرما گئے تھے، دادا نے بچپن ہی سے عبدالحکیم کو یہ سبق پڑھانا شروع کر دیا کہ اللہ کہتا ہے میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ عبادت میں سے صرف وہ وقت اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا جو اس کے دیے ہوئے رزق کی تلاش کرنے میں لگے گا اور جو وقت انسان کے بس سے باہر ہے جیسے سونا، آرام کرنا، وغیرہ وغیرہ۔

گائوں میں گھر کا کافی بڑا صحن تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ گھر کے گرد کوئی چار دیواری بھی نہ تھی۔ گھر میں ایک طرف بڑے بڑے درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔ صبح شام دنیا جہان کی چڑیاں وہاں آ کر جمع ہوجاتیں اور چیں چیں کرکے آسمان سر پر اُٹھا لیتیں۔ صبح فجر ادا کرکے آپ ننھے حکیم کو گود میں لٹا کر ایک چارپائی پر بیٹھ جاتے اور چڑیوں کی آواز سے آواز ملانے کی کوشش کرتے۔ کہا کرتے یہ کہہ رہی ہیں ’’رازق، رازق، تو ہی رازق۔‘‘ گھر میں اکثر کہا کرتے کہ یہ اپنے دل میں دعا مانگ سکتی تھیں جیسے دنیا کے باقی سیکڑوں ہزاروں جانور مانگتے ہیں۔ لیکن انسان کو احساس دلانے کے لیے اللہ نے ان کو بآواز بلند روز کا رزق روز صبح مانگنے کا حکم دیا۔

عبدالحکیم کو سمجھاتے رہتے کہ ہمارے بزرگوں نے اور ہم نے تو خدا سے چڑیوں کی طرح رزق مانگ کر زندگی گزار لی اور بڑے سکھی رہے۔ تم بھی یہ راہ اختیار کرو گے تو زندگی بڑے سکون سے گزر جائے گی۔

شام کو داداجان عصر کی نماز کے بعد پھر چڑیوں کے ساتھی بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے۔ وہ کہا کرتے غور کرو وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ کہہ رہی ہوں ’’شکر شکر مولا تیرا شکر‘‘ یعنی تو نے ہماری صبح کی دعائوں کو شرفِ قبولیت بخشا اور ہمیں اتنا رزق دیا کہ ہم کھا بھی نہ سکے۔

عبدالحکیم صاحب کا گکھڑ میں جی ٹی روڈ پر مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ گرمیوں میں ۸ بجے اور سردیوں میں ۹ بجے دکان لازماً کھل جاتی تھی لیکن دکان بند ہونے کا کوئی مقررہ وقت نہیں تھا۔ کہا کرتے تھے جب کھاتہ مکمل ہوگیا، دنیاداری کا وقت ختم ہوگیا۔

رشید بتاتا کہ کھاتے کا بھی بڑا دلچسپ چکر تھا۔ حکیم صاحب صبح بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔

ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھر باقی چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا ’’یہ اللہ کا کام ہے اللہ جانے۔‘‘

ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اُن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بڑی سی کار اُن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔

دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔

وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ۱۵، ۱۶ سال بعد آپ کے مطب میں داخل ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی

دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر ہو گئی۔

ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی ’’چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ اُسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔

میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں ۵،۶ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔

آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔ یاد رکھو! اُس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اُسی نے دینی ہے۔

مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام دوائیاں آپ نے ۲  حصوں میں تقسیم کر کے ۲  لفافوں میں ڈالیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میرا نام محمد علی ہے۔ آپ نے ایک لفافہ پر محمدعلی اور دوسرے پر بیگم محمدعلی لکھا۔ پھر دونوں لفافے ایک بڑے لفافہ میں ڈال کر دوائی استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔

میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی آچکا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اُس کی دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

ہم میاں بیوی ہر وقت آپ کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی پاکستان چھٹی آیا۔ کار اِدھر روکی لیکن دکان کو بند پایا۔ میں کل دوپہر بھی آیا تھا۔ آپ کا مطب بند تھا۔ ایک آدمی پاس ہی کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کو حکیم صاحب سے ملنا ہے تو آپ صبح ۹ بجے لازماً پہنچ جائیں ورنہ اُن کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس لیے آج میں سویرے سویرے آپ کے پاس آگیا ہوں۔
محمدعلی نے کہا کہ جب ۱۵ سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔

حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ۱۰ دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ انارکلی میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔ وہاں سے اسے میوہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو ۱۰۶ ڈگری بخار ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔

اُس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔

حکیم صاحب حیران و پریشان یوں گویا ہوئے ’’محمدعلی صاحب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرا اتنا دماغ نہیں ہے۔ میں نے تو آج ص

بح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے ’’بیٹی کے جہیز کا سامان‘‘ تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ محمدعلی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’بیٹی کے جہیز‘‘ کے سامنے لکھا ہوا تھا ’’یہ کام اللہ کا ہے، اللہ جانے۔‘‘

محمد علی صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی ہو اور مولا نے اُس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اُس کی قدرت پر حیران ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔

حکیم صاحب نے کہا جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی سبق پڑھا کہ صبح ورد کرنا ہے ’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ اور شام کو ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر۔‘‘