Friday, October 2, 2015

ٹرین کا انتظار .. شہاب نامہ کا اقتباس 1.

ٹرین کا انتظار

17 جون 1974ء۔ آج عفت مر گئی۔

میں اسے مذاقاً‌ اپنی ’’بڑھیا‘‘ کہا کرتا تھا، لیکن جب میں کنٹر بری کاؤنٹی کونسل کے دفتر میں تدفین کا اجازت نامہ حاصل کرنے گیا تو ایک فارم پر کرنا تھا۔ اس میں مرحومہ کی تاریخ پیدائش بھی درج کرنا تھی۔ جب میں نے اس کا پاسپورٹ نکال کر پڑھا تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس کی عمر تو فقط 41 برس تھی۔

لیکن میرے لیے وہ ہمیشہ میری ’’بڑھیا‘‘ کی بڑھیا ہی رہی۔ کنٹر بری ہسپتال میں ہم نے اسے گرم پانی میں آب زم زم ملا کر غسل دیا، پھر کفنایا اور جب اسے قبلہ رو کر کے لکڑی کے بنے ہوئے ہلکے بادامی رنگ کے تابوت میں اتارا تو تنویر احمد خان نے بے ساختہ کہا، ’’ارے۱ یہ تو ایسے لگتی ہے جیسے ابھی کالج کے فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔‘‘

بات بھی سچ تھی۔ جب میں اسے بیاہ کر لایا تھا تو وہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے فائنل ایئر سے نکلی تھی۔ جب میں نے اسے دفنایا تو واقعی وہ ایسے لگ رہی تھی جیسے ابھی فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔ درمیان کے اٹھارہ سال اس نے میرے ساتھ یوں گزارے جس طرح تھرڈ کلاس کے دو مسافر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوں، سامان بک ہو چکا ہو، ٹرین کا انتظار ہو۔ اس کی گاڑی وقت سے پہلے آگئی، وہ اس میں بیٹھ کر روانہ ہوگئی۔ میری ٹرین لیٹ ہے، جب آئے گی، میں بھی اس میں سوار ہو جاؤں گا۔ لیکن سامان کا کیا ہوگا؟ جو کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے، کوئی اسے وصول کرنے کے لیے موجود نہیں ہوتا۔

لیکن ہمارے سامان میں آخر رکھا ہی کیا ہے؟ کچھ کاغذ، ڈھیر ساری کتابیں، کچھ کپڑے، بہت سے برتن اور گھریلو آسائش کی چیزیں جنہیں عفت نے بڑی محنت سے سیلز میں گھوم گھوم کر جمع کیا تھا۔ اور ایک ثاقب، لیکن ثاقب کا شمار نہ سامان میں آتا ہے نہ احباب میں۔ یہ بارہ سال کا بچہ میرے لیے ایک دم بوڑھا ہوگیا۔

کتاب / جریدہ:  شہاب نامہ
صفحہ: 763
قلم نگار  : قدرت اللہ شہاب

2 comments:

MOHAMMAD ZAHID RAZA ABBASI said...

ایک نایاب آب بیتی۔۔ جو پڑھتا ہے روتا ہے۔۔۔۔یا جسکو رونا نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔اسکو پڑھ لے۔۔۔۔سیکھ لے گا۔۔

Unknown said...

بالکل سچ جب بھی پڑھتا ہوں آنکھیں نم ہوجاتی ہے 1997 سے مسلسل پڑھتا آرہا ہوں جب بھی پڑھتا ہوں شہاب نامہ نیا ہی لگتا ہے
بیشک شہاب نامہ ایک نایاب اب بیتی ہے