خلیفہ ہارون الرشید کے سامنے ایک باغی کو ہتھکڑیوں سمیت پیش کیاگیا .
وہ ایک خطرناک شخص تھا اور سپاہیوں نے بہت محنت سے اسے گرفتارکیا تھا ، ہارون رشید بھی فیصلہ کر چکا تھا کہ اسے قتل کردے گا قتل کا حکم صادر کرنے سے پہلے ہاروں نے غضب ناک آواز میں باغی سے پوچھا :
تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ?
اس نے کہا وہی سلوک جو خدا آپ کے ساتھ کرے گا جب آپ اس کے سامنے جائیں گے.
ہارون کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ، اس نے سر جھکا لیا اور چند لمحے بعد درباریوں نے خلیفہ کی تھکی ہوئی آواز سنی ، اسے آزاد کر دیا جائے .
سپاہیوں نےہتھکڑیاں کھول دی ، باغی دربار سے چلا گیا.
درباریوں میں سے کسی نے کہا امیر المومنین آپ نے باغی کا ایک جملہ سن کر ہی اسے آزاد کر دیا یہ بھی نہ سوچا کہ اس کی گرفتاری میں آپ کے سپاہیوں کو کتنی زحمت ہوئی تھی اور اس باغی کی رہائی سے شرپسندوں کو اور شہ مل سکتی ہے.
ہارون نے بے ساختہ حکم دیا کہ باغی کو دوبارہ گرفتار کر لیا جائے.
سپاہیوں نے باغی کو دوبارہ گرفتار کرکے پھر بادشاہ کے سامنےپیش کر دیا .
باغی نے کہا حضور میرے متعلق دوسروں کی رائے پر کان نہ دھریئے، اگر اللہ پاک آپ کے متعلق دوسروں کی رائے سنتا تو آپ ایک لمحے بھی خلیفہ نہیں رہ سکتے تھے .
ہارون رشید نے اسے پھر آزاد کردیا.
No comments:
Post a Comment