ایثار و ہمدردی
ایثارو ہمدردی یعنی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دینا اور دوسرے کے غم اور دکھ درد میں شریک ہونا اسلام کی اہم معاشرتی تعلیمات کا حصہ ہے۔
معاشرہ کے اجتماعی نظام کے استحکام اور بقاء میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔
اسلامی معاشرہ کی تاریخ میں دور اول میں ایسے واقعات عام تھے، جن پر یقین کرنا بھی موجودہ مفاد پرستی کے دور مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ دوور اول کے بعد بھی ایسے واقعات بکثرت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔
ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب تاریخ بغداد میں امام و اقدی کے حالات میں لکھا ہے۔
واقدی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے بڑی مالی پریشانی کا سامنا تھا۔ فاقوں تک نوبت پہنچی گھر سے اطلاع آئی کہ عید کی آمد آمد ہے اور گھر میں کچھ نہیں، بڑے تو صبر کرلیں گے ؛ لیکن بچے مفلسی کی عید کیسے گزاریں گے؟
یہ بات سن کر میں اپنے تاجر دوست کے پاس قرض لینے گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گیا اور بارہ سو درہم کی سربمہر ایک تھیلی میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں گھر آیا، ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرا ایک ہاشمی دوست آیا۔ اس کے گھر بھی افلاس اور غربت نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ قرض کی رقم چاہتا تھا۔
میں نے گھر جاکر اہلیہ کو قصہ سنایا، کہنے لگی کتنی رقم دینے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا تھیلی کی رقم نصف تقسیم کرلیں گے۔ اس طرح دونوں کا کام چل جائے گا، کہنے لگی بڑی عجیب بات ہے ایک عام آدمی کے پاس گئے اس نے آپ کو بارہ سو درہم دئیے اور آپ اس جلالت مرتبت ک باوجود اسے ایک عام آدمی کے عطیہ کا بھی نصف دے رہے ہیں۔ آپ اسے پوری تھیلی دے دیں۔ چنانچہ میں نے تھیلی کھولے بغیر سربمہر اس کے حوالے کردی۔ وہ تھیلی لے کر گھر پہنچا تو میرا تاجر دوست اس کے پاس گیا۔ کہا عید کی آمد آمد ہے۔ گھر میں کچھ نہیں، کچھ رقم قرض چاہیے۔ ہاشمی دوست نے وہی تھیلی سربمہر اس کے حوالے کردی۔ اپنی ہی تھیلی دیکھ کراسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
وہ تھیلی ہاشمی دوست کے ہاں چھوڑ کر میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا قصہ سنایا۔
درحقیقت تاجر دوست کے پاس بھی اس تھیلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ وہ سارا مجھے دے گیا تھا اور خود قرض لینے ہاشمی کے پاس جا پہنچا۔ ہاشمی نے جب وہ حوالے کرنا چاہی تو راز کھل گیا۔
ایثار وہمدردی کے اس انوکھے واقعے کی اطلاع جب وزیر یحییٰ بن خالد کے پاس پہنچی تو وہ دس ہزار دینار لے کر آئے کہنے لگے ان میں دو ہزار آپ اور دو ہزار ہاشمی دوست کے اور دو ہزار تاجر دوست کے اور چار ہزار آپ کی اہلیہ کے ہیں کیونکہ وہ تو سب میں زیادہ قابل قدر اور لائق اعزاز ہے۔
یہ تھے وہ لوگ جن میں اسلام کی اخلاقی قدریں آباد تھیں اور جنہیں دیکھ کر غیرمسلم اسلام قبول کرنے پر خودبخود آمادہ ہوجاتے تھے ۔
’اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر‘
Share