Wednesday, March 18, 2015

ہارون رشید نے اسے پھر آزاد کردیا.

خلیفہ ہارون الرشید کے سامنے ایک باغی کو ہتھکڑیوں سمیت پیش کیاگیا .
وہ ایک خطرناک شخص تھا اور سپاہیوں نے بہت محنت سے اسے گرفتارکیا تھا ، ہارون رشید بھی فیصلہ کر چکا تھا کہ اسے قتل کردے گا قتل کا حکم صادر کرنے سے پہلے ہاروں نے غضب ناک آواز میں باغی سے پوچھا :
تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ?
اس نے کہا وہی سلوک جو خدا آپ کے ساتھ کرے گا جب آپ اس کے سامنے جائیں گے.
ہارون کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ، اس نے سر جھکا لیا اور چند لمحے بعد درباریوں نے خلیفہ کی تھکی ہوئی آواز سنی ، اسے آزاد کر دیا جائے .
سپاہیوں نےہتھکڑیاں کھول دی ، باغی دربار سے چلا گیا.
درباریوں میں سے کسی نے کہا امیر المومنین آپ نے باغی کا ایک جملہ سن کر ہی اسے آزاد کر دیا یہ بھی نہ سوچا کہ اس کی گرفتاری میں آپ کے سپاہیوں کو کتنی زحمت ہوئی تھی اور اس باغی کی رہائی سے شرپسندوں کو اور شہ مل سکتی ہے. 
ہارون نے بے ساختہ حکم دیا کہ باغی کو دوبارہ گرفتار کر لیا جائے.
سپاہیوں نے باغی کو دوبارہ گرفتار کرکے پھر بادشاہ کے سامنےپیش کر دیا .
باغی نے کہا حضور میرے متعلق دوسروں کی رائے پر کان نہ دھریئے، اگر اللہ پاک آپ کے متعلق دوسروں کی رائے سنتا تو آپ ایک لمحے بھی خلیفہ نہیں رہ سکتے تھے .
ہارون رشید نے اسے پھر آزاد کردیا.

Tuesday, March 17, 2015

ایثار و ہمدردی

ایثار و ہمدردی 

ایثارو ہمدردی یعنی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دینا اور دوسرے کے غم اور دکھ درد میں شریک ہونا اسلام کی اہم معاشرتی تعلیمات کا حصہ ہے۔
معاشرہ کے اجتماعی نظام کے استحکام اور بقاء میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔
اسلامی معاشرہ کی تاریخ میں دور اول میں ایسے واقعات عام تھے، جن پر یقین کرنا بھی موجودہ مفاد پرستی کے دور مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ دوور اول کے بعد بھی ایسے واقعات بکثرت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ 
ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب تاریخ بغداد میں امام و اقدی کے حالات میں لکھا ہے۔
واقدی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے بڑی مالی پریشانی کا سامنا تھا۔ فاقوں تک نوبت پہنچی گھر سے اطلاع آئی کہ عید کی آمد آمد ہے اور گھر میں کچھ نہیں، بڑے تو صبر کرلیں گے ؛ لیکن بچے مفلسی کی عید کیسے گزاریں گے؟
یہ بات سن کر میں اپنے تاجر دوست کے پاس قرض لینے گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ  گیا اور بارہ سو درہم کی سربمہر ایک تھیلی میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں گھر آیا، ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرا ایک ہاشمی دوست آیا۔ اس کے گھر بھی افلاس اور غربت نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ قرض کی رقم چاہتا تھا۔
میں نے گھر جاکر اہلیہ کو قصہ سنایا، کہنے لگی کتنی رقم دینے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا تھیلی کی رقم نصف تقسیم کرلیں گے۔ اس طرح دونوں کا کام چل جائے گا، کہنے لگی بڑی عجیب بات ہے ایک عام آدمی کے پاس گئے اس نے آپ کو بارہ سو درہم دئیے اور آپ اس جلالت مرتبت ک باوجود اسے ایک عام آدمی کے عطیہ کا بھی نصف دے رہے ہیں۔  آپ اسے پوری تھیلی دے دیں۔ چنانچہ میں نے تھیلی کھولے بغیر سربمہر اس کے حوالے کردی۔  وہ تھیلی لے کر گھر پہنچا تو میرا تاجر دوست اس کے پاس گیا۔ کہا عید کی آمد آمد ہے۔ گھر میں کچھ نہیں، کچھ رقم قرض چاہیے۔ ہاشمی دوست نے وہی تھیلی سربمہر اس کے حوالے کردی۔ اپنی ہی تھیلی دیکھ کراسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
وہ تھیلی ہاشمی دوست کے ہاں چھوڑ کر میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا قصہ سنایا۔
درحقیقت تاجر دوست کے پاس بھی اس تھیلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ وہ سارا مجھے دے گیا تھا اور خود قرض لینے ہاشمی کے پاس جا پہنچا۔ ہاشمی نے جب وہ حوالے کرنا چاہی تو راز کھل گیا۔
ایثار وہمدردی کے اس انوکھے واقعے کی اطلاع جب وزیر یحییٰ بن خالد کے پاس پہنچی تو وہ دس ہزار دینار لے کر آئے کہنے لگے ان میں دو ہزار آپ اور دو ہزار ہاشمی دوست کے اور دو ہزار تاجر دوست کے اور چار ہزار آپ کی اہلیہ کے ہیں کیونکہ وہ تو سب میں زیادہ قابل قدر اور لائق اعزاز ہے۔
یہ تھے وہ لوگ جن میں اسلام کی اخلاقی قدریں آباد تھیں اور جنہیں دیکھ کر غیرمسلم اسلام قبول کرنے پر خودبخود آمادہ ہوجاتے تھے ۔

’اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر‘

Monday, March 9, 2015

اورنگزیب کی چونّی

اورنگ زیب کے مختصر حالات ملاحظہ ہو ؛
http://ur.wikipedia.org/wiki/اورنگزیب_عالمگیر
اورنگزیب کی چونّی
---------------
مُلا احمد جیون ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے استاد تھے۔ اورنگزیب اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے۔ اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے۔

جب اورنگزیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعے استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں۔ اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہ کے طالب علموں کو بھی چھٹیاں تھی۔چنانچہ انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔

استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی۔ استاد کو اپنے ساتھ لیکر اورنگزیب شاہی قلعے کی طرف چل پڑے۔رمضان کا سارا مہینہ اورنگزیب اور استاد نے اکھٹے گزارا۔۔ عید کی نماز اکھٹے ادا کرنے کے بعد مُلا جیون نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔ بادشاہ نے جیب سے ایک چونّی نکال کر اپنے استاد کو پیش کی۔ استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔

اس کے بعد اورنگزیب دکن کی لڑائیوں میں اتنے مصروف ہوئے کہ چودہ سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا۔ جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظم نے بتایا۔ مُلا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔اگر اجازت ہو تو اُن سے لگان وصول کیا جائے۔یہ سن کر اورنگزیب حیران رہ گئے۔ کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے۔انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔مُلا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان کے مہینے میں تشریف لائے۔ اورنگزیب نے بڑی عزت کے ساتھ انہیں اپنے پاس ٹھرایا۔مُلا احمد کا لباس، بات چیت اور طور طریقے پہلے کی طرح سادہ تھے۔ اس لیے بادشاہ کو ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کچھ حوصلہ نہ ہو سکا۔ایک دن مُلا صاحب خود کہنے لگے:
آپ نے جو چونّی دے تھی وہ بڑی بابرکت تھی۔ میں نے اس سے بنولہ خرید کر کپاس کاشت کی خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سینکڑوں سے لاکھوں ہو گئے۔ اورنگزیب یہ سن کر خوش ہوئے اور مُسکرانے لگے اور فرمایا: اگر اجازت ہو تو چونّی کی کہانی سناؤں۔ ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں۔ اورنگزیب نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ "اتم چند" کو فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو۔سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا۔ اسے اورنگزیب کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ اورنگزیب نے نرمی سے کہا: آگے آجاؤ اور بغیر کسی گھبراہت کے کھاتہ کھول کے خرچ کی تفصیل بیان کرو۔
بادشاہ نے کہا : اجازت ہے۔ اس نے کہا: اے بادشاہِ وقت! ایک رات موسلا دھار بارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا۔ مکان نیا نیا بنا تھا۔ اور تما م کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی۔ میں نے بڑی کوشش کی ، لیکن چھت ٹپکتا رہا۔ میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے نیچے کھڑا نظر آیا۔ میں نے مزدور خیال کرتے ہوئے پوچھا، اے بھائی مزدوری کرو گے؟
سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتہ کھولا اور تاریخ اور خرچ کی تفصیل سنانے لگا۔ مُلا احمد جیون اور اورنگزیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آ کے سیٹھ رُک گیا۔ یہاں خرچ کے طور پر ایک چونّی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کا نام نہیں تھا۔ اورنگزیب نے نرمی سے پوچھا: ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی؟ اتم چند نے کھاتہ بند کیا اور کہنے لگا: اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں؟ وہ بولا کیوں نہیں۔وہ آدمی کام پر لگ گیا۔اس نے تقریباً تین چار گھنٹے کام کیا، جب مکان ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا۔ اتنے میں صبح کی آذان شروع ہو گئی۔ وہ کہنے لگا:
اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلا گیا۔بادشاہ نے مُلا صاحب سے کہا:
سیٹھ صاحب! آپ کا کام مکمل ہو گیا مجھے اجازت دیجیے ،میں نے اسے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی۔ میں نے اس سے کہا: اے بھائی! ابھی میرے پاس یہی چونّی ہے یہ لے ،اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی۔وہ کہنے لگا یہی چونّی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا۔ میں نے اور میری بیوی نے اس کی بہت منتیں کیں ۔لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا دیتے ہو تو یہ چونّی دے دو ورنہ رہنے دو۔میں نے مجبور ہو کر چونّی اس دے دی اور وہ لے کر چلا گیا۔اور اس کے بعد سے آج تک نہ مل سکا۔آج اس بات کو پندرہ برس گئے۔ میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا۔
(بحوالہ:کتاب/تاریخِ اسلام کے دلچسپ واقعات
یہ وہی چونّی ہے۔کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کر گیا تھا تا کہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں۔سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا۔ مُلا صاحب خوش ہو کر کہنے لگے۔مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ چونّی میرے ہونہار شاگرد نے اپنے ہاتھ سے کمائی ہوگی۔ اورنگزیب نے کہا :ہاں واقعی اصل بات یہی ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لیے کبھی ایک پائی بھی نہیں لی۔ہفتے میں دو دن ٹوپیاں بناتا ہوں۔ دو دن مزدوری کرتا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
------------------------------

عہد حکومت
31 جولائی 1658 - 3 مارچ 1707
تاج پوشی
15 جون 1659 بمقام لال قلعہ ، دہلی
پورا نام
ابوالمظفر محی‌الدین محمد اورنگزیب عالمگیر
پیدائش
4 نومبر 1618
جائے پیدائش
وفات
3 مارچ 1707 (عمر 88 سال)
جائے وفات
مدفن
پیشرو
جانشین
بیویاں
نواب راج بائی بیگم
دلرس بانو بیگم
ہیرا بائی زین آبادی محل
اورنگ آبادی محل
اُدے پوری محل
خاندانمغل
والدشاہجہان
والدہممتاز محل
مذہباسلام

Friday, March 6, 2015

~~حسن اخلاق کی قیمت~~

~~حسن اخلاق کی قیمت~~
بغداد میں ایک شخص ابوحمزہ رھتے تھے جو سکری کے لقب سے مشھور تھے...
انھیں "سکری" کہنے کی وجہ کیا تھی...
عربی میں "سکر" چینی کو کہتے ھیں... دراصل ان کے اخلاق اتنے میٹھے تھے... کہ ان کی ھر بات چینی کی طرح مزیدار لگتی تھی...
لھذا انکے اخلاق کی بدولت لوگوں نے انھیں "سکری" مشھور کردیا تھا...
ان کے بارے میں آتا ھے... کہ وہ ایک بار سخت مقروض ھوگۓ... چنانچہ اپنا گھر بیچ کر قرض ادا کرنا چاھا...
جب محلے والوں کو علم ھوا تو انھوں نے وجہ پوچھی؟... کہنے لگے... مجھ پر مشکل وقت آگیا ھے... اور معاشی طور پر کمزور ھوگیا ھوں...
لوگوں نے مشورہ کیا... اور اس بات پر متفق ھوۓ... کہ اگر ھم سب محلے والوں نے مل کران کا قرض ادا نہ کیا... اور "سکری" ھم سے چلے گۓ... تو ھمیں ان جیسا کبھی نھیں ملے گا...
تمام لوگوں نے مل کر قرض کی رقم ادا کی... اور سکری کو اپنے محلے سے نہ جانے دیا... اور نہ ھی ان کو مکان بیچنے دیا...
(کتاب البطن صفحہ 55)
اکثر دیکھنے میں یھی آیا ھے کہ جس شخص کے اخلاق اچھے ھوتے ھیں فطری طور پر اس سے ھر شخص دلی محبت رکھتا ھے اور ضرورت پڑنے پر اس شخص سے تعاون کرنے کو ھر جاننے والا اپنی سعادت سمجھتا ھے
اور اس کے برعکس جو شخص اخلاقی طور پر پست ھوتا ھے اس سے ھر شخص کتراتا ھے اور تو اور ایسے شخص کو جب کوئ تکلیف یا نقصان ھوتا ھے یا موت آجاتی ھے تو لوگ خوش ھوجاتے ھیں کہ جان چھوٹی..!
اس لیے اپنے اخلاق کو جتنا ممکن ھوسکے سنوارنے کی کوشش کیجۓ، اچھا برتاؤ کیجۓ،
اخلاق برتنے میں امیر اور غریب، میں فرق نہ کیجۓ،
کیونکہ ھم سب مسلمان اس عظیم الشان ھستی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے امتی ھیں جس کے اخلاق کے دین اسلام کے ازلی دشمن کفار بھی معترف ھیں....

بے ادب ہوگئی محفل ترے اٹھ جانے سے۔

بے ادب ہوگئی محفل ترے اٹھ جانے سے۔
حضرت مولانا علی میاں صاحب ؒ کی یک تقریر ہے جو انہوں نے اہل علم کے سامنے کی تھی، اس میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حیدرآباد میں ایک بزرگ تھے، ایک مرتبہ ان کے گھٹنوں میں درد ہوا۔
وہ اسی حال میں مجلس میںتشریف فرما تھے۔ مجلس میں سب مریدین اور معتقدین بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے اپنے خادم سے دوا ملنے کو کہا، خادم نے دوا ملنا شروع کی تو اس نے دیکھا کہ بزرگ صاحب مجلس میں خاموش ہیں، مگر مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں کانا پھوسی کر رہے ہیںاورآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہیں، جیسا کہ ہمارے طلبہ میں ہوتا ہے ۔اور اس کاناپھوسی کی وجہ سے ایک گونج سے مجلس میں پیدا ہو رہی ہے۔
اس خادم نے سوچا کہ حضرت کی مجلس کا یہ حال کبھی نہیں ہوا، ان کی مجلس میں جب بھی لوگوں کو دیکھا خاموش دیکھا، لیکن آج یہ کیا بات ہے ؟ کانا پھونسی کیوں ہو رہی ہے؟ وہ باربار بے چین ہو کر ادھر اُدھر دیکھتا ہے،مگر اس کی سجھ میں نہیں آرہا ہے، وہ بزرگ اس انتشارکو بھی سمجھ گئے تھے کہ یہ کیوں ہورہا ہے،اور خادم کی پریشانی بھی بھانپ گئے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے گھٹنے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ اس طرح وہ خادم کواس انتشار کی وجہ بتلانا چاہتے تھے، لیکن خادم یوں سمجھا کہ یہاں درد ہے، اس لیے وہ اور دبانے لگا۔ مجلس میں شور کی کیفیت ابھی بھی ختم نہ ہوئی تھی، اور وہ بے چین ادھر اُدھردیکھے جارہا ہے ۔آخرش ان بزرگ نے اپنا منہ اس کے کان کے قریب لے جاکر کہا کہ میںگھٹنے کے اس درد کی وجہ سے آج رات کے معمولات پورے ادا نہیں کر سکاہوں، اس کا یہ اثر ہے جو تم مجلس میں دیکھ رہے ہو۔ 
یہ واقعہ بیان کر کے حضرت مولانا علی صاحب ؒ نے ایک شعر پڑھا۔
رحم کر قوم کی حالت پر اے ذکر ِخدا
کہ بے ادب ہوگئی ہے محفل ترے اٹھ جانے سے
حضرت فرماتے ہیں کہ ایک اللہ والے کے اپنے معمولات چھوڑنے کا نتیجہ مجلس پر یہ ہو سکتا ہے تو تمام اہل علم اپنے معمولات چھوڑ دیں گے تو دنیا پر کیا اثر مرتب ہوگا؟ آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اہل علم کی جانب سے یہ بڑی غفلت ہے،اور اس کے اثرات آدمی کے ماتحت لوگوںمیں بھی نظر آتے ہیں۔