اندھیری نگری اور چوپٹ راج
پرانے وقتوں میں ایک آدمی کو کاروبار میں نقصان ہوا۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ ہجرت یا سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے، لہٰذا اُس نے ہجرت کی اور اپنے ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلا گیا۔ اس کے پاس نقدی میں صرف بچی ہوئی ایک اشرفی تھی، جس کے ساتھ وہ پردیس میں کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ نئی مملکت میں پہنچا اسے وہاں کے کاروباری حالات اچھے نظر آئے۔ زندہ رہنے کے لیے اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ رات تو اس نے کسی نہ کسی طرح بسر کی۔ صبح صبح وہ اٹھا، نہایا دھویا، نماز ادا کی اور سیدھا اللہ اللہ کرتا ہوا فروٹ مارکیٹ پہنچا۔ وہاں اس نے ایک دلال کے ذریعے ایک چاندی کی اشرفی کے عوض بارہ عدد حلوہ کدو یا پیٹھے خرید لیے۔
دلال نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ سودا فروخت ہوجانے کی صورت میں برائے نام کچھ منافع شام کو اسے بھی دے گا۔ اجنبی شخص جو اس ملک میں پہلی بار آیا تھا، نہ تو اس کے پاس کوئی دکان تھی نہ ہی سودا سلف فروخت کرنے کے لیے کوئی اڈہ۔ بازار میں لوگوں کا خریدوفروخت کے لیے آنا جانا شروع ہوگیا۔ اس نے جلدی جلدی حلوے پیٹھے بارہ عدد وہاں سے اٹھائے اور قریب ہی ایک درخت کے نیچے جاکر رکھ دیے اور ساتھ خود بھی بیٹھ گیا۔ گویا یہ ایک طرح سے اس کی دکان تھی۔
تھوڑا ہی وقت گزرا، ایک سفید پوش باریش آدمی آیا۔ سلام دعا کی، خوشی خوشی ایک پیٹھا یعنی حلوہ کدو ڈھیر سے اٹھایا، اپنی بغل میں دباکر چلتا بنا۔ اجنبی شخص نے سمجھا کہ شاید بعد میں پیسے بھجوا دے گا‘ لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص گھوڑے پر سوار آیا، گھوڑے سے نیچے اترا، بغیر کچھ کہے اور بغیر رقم ادا کیے ایک پیٹھا اٹھایا اور چل دیا۔ اس طرح تقریباً ایک گھنٹے کے اندر اندر بارہ آدمی آئے اور بغیر رقم ادا کیے باری باری بارہ پیٹھے اٹھاکر چلے گئے۔
اب اجنبی حیران ہو کر رہ گیا اور سوچنے لگا: یااللہ یہ کیسا ملک ہے! اسی اثناء میں دلال بھی فارغ ہوکر اس کے پاس پہنچا۔ اجنبی سے پوچھا: شریف آدمی سنائو مال سارا بک گیا اور کتنا منافع ہوا؟
اجنبی شخص سخت غصے کی حالت میں تھا، کہا: منافع دو اشرفیوں کا ہوا ہے۔ دلال بہت حیران ہوا۔ ’’اتنا زیادہ منافع! تو لائو پھر میرا حصہ یا منافع‘‘۔
دلال کو دینے کے لیے اجنبی کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ دلال کو جلد ہی یہ بھی پتا چل گیا کہ لوگ اس کا مال مفت میں اٹھا کر لے گئے ہیں اور اجنبی شخص سخت پریشانی اور غصے کے عالم میں ہے۔
دلال بھی تو اسی قوم کا فرد تھا۔ وہ بھی اجنبی کی دکان سے خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتا تھا۔ اسے وہاں کوئی چیز نظر نہ آئی۔ دلال نے اجنبی کے سر سے پگڑی اتاری اور اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چل دیا۔ دلال دل ہی دل میں کہنے لگا: چلو کچھ تو مجھے بھی ملا۔
اب اجنبی کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ہر شخص اپنی من مانی کررہا ہے۔ لہٰذا وہ اگر اس ملک میں رہے گا تو پھر اس کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ دن تو اجنبی نے اسی سوچ و فکر میں گزارا۔ دوسرے دن جنگل میں گیا۔ ایک مضبوط سی چھڑی یا پھر اسے دوسری زبان میں ’’سوٹا‘‘ کہہ لیں‘ لے آیا اور شہر سے کچھ دوری پر قبرستان میں ایک جھونپڑی بنا کر رہنے لگا۔ تقریباً ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ شہر کے لوگ مردے کو دفنانے قبرستان آگئے۔ اجنبی نے سوٹا ہاتھ میں پکڑا اور قبرستان کے صدر دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ لوگ جب قبرستان میں داخل ہونے لگے تو اجنبی شخص نے کہا: رک جائو… لوگ جنازہ اٹھائے ہوئے تھے فوراً رک گئے اور اجنبی سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟
اجنبی شخص نے جواباً کہا کہ پہلے مردہ دفنانے کی فیس مبلغ ایک اشرفی ادا کرو ورنہ مردہ دفنانے کی اجازت نہیں، سمجھے!
لوگوں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ یہ کس کا حکم ہے؟ پہلے تو اس قسم کی کوئی فیس نہ تھی۔
اجنبی نے کہا: ہاں اب فیس ادا کرنا ہوگی۔ میں رانی جان کا سالا ہوں۔ لوگ حیران ہوئے، ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے: راجائوں کے سالے بھی تو سینکڑوں کے حساب سے ہوتے ہیں، یقینا یہ بھی ان میں سے ایک ہوگا۔ لہٰذا اس کو دے دو۔ اب اجنبی کو روز ایک دو اشرفیاں بغیر محنت مشقت کیے مل جاتیں۔
اسی طرح دو ڈھائی سال میں اجنبی کے پاس ایک معقول رقم جمع ہوگئی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اجنبی نے روزمرہ کا یہ بھی معمول بنا رکھا تھا کہ وہ ہر شام غروب آفتاب کے وقت قبرستان سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد تھی وہاں جاکر چراغ میں تیل ڈال کر روشن کر آتا۔ مسجد کے امام صاحب اس کے اس عمل پر بہت خوش ہوتے‘ لیکن ساتھ ساتھ اسے یہ بھی تلقین کرتے کہ جو اس نے ذریعہ معاش بنا رکھا ہے، مناسب نہیں۔ یعنی جبر کے ساتھ کسی کے ساتھ لین دین کرنا مناسب نہیں، مذہب اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ اجنبی نے امام صاحب کو جواباً کہا کہ وہ مجبوری کی حالت میں اور انتقاماً ایسا کرتا ہے کیوںکہ یہاں کے لوگوں نے اس کے ساتھ اس قسم کا یعنی جبر اور سینہ زوری کا سلوک کیا ہے۔ لہٰذا وہ بھی ایسا کرتا ہے۔ امام صاحب کہتے کہ یہ غلط ہے، اگر لوگوں نے تمہارے ساتھ غلط سلوک روا رکھا ہے، تو کم از کم تم ایسا نہ کرو، اپنے اخلاق سے انہیں متاثر کرو۔ امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر کتا تمہیں کاٹ لے تو کیا جواب میں تم بھی اسے کاٹ لوگے؟ نہیں، تم ایسا نہیں کروگے۔ یہ مت دیکھو کہ کوئی کیا کررہا ہے، یہ دیکھو تم کیا کررہے ہو۔
’’لیکن امام صاحب! یہ راجے، مہاراجے، حکمران… یہ بھی تو رعایا پر جبر کرتے رہتے ہیں، انہیں کوئی نہیں پوچھتا‘‘۔ اجنبی نے پوچھا۔
’’اے اجنبی شخص! مت بھولو قیامت کے دن سب اللہ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ حلال کی روزی کمائو اور اللہ کو یاد رکھو۔‘‘ امام صاحب نے نصیحت آمیز لہجے میں کہا۔
اس دوران اتفاق سے ایک دن راجے کا عزیز رشتہ دار وفات پاگیا اور ریاست کے راجے کو بھی قبرستان جنازے کے ساتھ آنا پڑا۔ اب اجنبی کو یہ خبر نہ تھی کہ ریاست کا راجہ بھی آج جنازے میں شامل ہے۔ اجنبی نے حسب معمول جنازے کو روکا اور فیس ادا کرنے کو کہا۔ راجے کو جب خبر ہوئی تو وہ خاموش رہا اور پوچھا: تم کون ہو؟ اجنبی نے فوراً بڑی دیدہ دلیری سے جواب دیا کہ وہ رانی جان کا سالا ہے۔ اب راجا سوچنے لگا کہ کوئی ہوگا، کیونکہ راجائوں کی بیویاں بھی تو بہت ساری ہوتی ہیں اور سالے بھی تو سینکڑوں میں ہوں گے۔ لہٰذا راجے نے فیس ادا
دلال نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ سودا فروخت ہوجانے کی صورت میں برائے نام کچھ منافع شام کو اسے بھی دے گا۔ اجنبی شخص جو اس ملک میں پہلی بار آیا تھا، نہ تو اس کے پاس کوئی دکان تھی نہ ہی سودا سلف فروخت کرنے کے لیے کوئی اڈہ۔ بازار میں لوگوں کا خریدوفروخت کے لیے آنا جانا شروع ہوگیا۔ اس نے جلدی جلدی حلوے پیٹھے بارہ عدد وہاں سے اٹھائے اور قریب ہی ایک درخت کے نیچے جاکر رکھ دیے اور ساتھ خود بھی بیٹھ گیا۔ گویا یہ ایک طرح سے اس کی دکان تھی۔
تھوڑا ہی وقت گزرا، ایک سفید پوش باریش آدمی آیا۔ سلام دعا کی، خوشی خوشی ایک پیٹھا یعنی حلوہ کدو ڈھیر سے اٹھایا، اپنی بغل میں دباکر چلتا بنا۔ اجنبی شخص نے سمجھا کہ شاید بعد میں پیسے بھجوا دے گا‘ لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص گھوڑے پر سوار آیا، گھوڑے سے نیچے اترا، بغیر کچھ کہے اور بغیر رقم ادا کیے ایک پیٹھا اٹھایا اور چل دیا۔ اس طرح تقریباً ایک گھنٹے کے اندر اندر بارہ آدمی آئے اور بغیر رقم ادا کیے باری باری بارہ پیٹھے اٹھاکر چلے گئے۔
اب اجنبی حیران ہو کر رہ گیا اور سوچنے لگا: یااللہ یہ کیسا ملک ہے! اسی اثناء میں دلال بھی فارغ ہوکر اس کے پاس پہنچا۔ اجنبی سے پوچھا: شریف آدمی سنائو مال سارا بک گیا اور کتنا منافع ہوا؟
اجنبی شخص سخت غصے کی حالت میں تھا، کہا: منافع دو اشرفیوں کا ہوا ہے۔ دلال بہت حیران ہوا۔ ’’اتنا زیادہ منافع! تو لائو پھر میرا حصہ یا منافع‘‘۔
دلال کو دینے کے لیے اجنبی کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ دلال کو جلد ہی یہ بھی پتا چل گیا کہ لوگ اس کا مال مفت میں اٹھا کر لے گئے ہیں اور اجنبی شخص سخت پریشانی اور غصے کے عالم میں ہے۔
دلال بھی تو اسی قوم کا فرد تھا۔ وہ بھی اجنبی کی دکان سے خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتا تھا۔ اسے وہاں کوئی چیز نظر نہ آئی۔ دلال نے اجنبی کے سر سے پگڑی اتاری اور اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چل دیا۔ دلال دل ہی دل میں کہنے لگا: چلو کچھ تو مجھے بھی ملا۔
اب اجنبی کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ہر شخص اپنی من مانی کررہا ہے۔ لہٰذا وہ اگر اس ملک میں رہے گا تو پھر اس کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ دن تو اجنبی نے اسی سوچ و فکر میں گزارا۔ دوسرے دن جنگل میں گیا۔ ایک مضبوط سی چھڑی یا پھر اسے دوسری زبان میں ’’سوٹا‘‘ کہہ لیں‘ لے آیا اور شہر سے کچھ دوری پر قبرستان میں ایک جھونپڑی بنا کر رہنے لگا۔ تقریباً ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ شہر کے لوگ مردے کو دفنانے قبرستان آگئے۔ اجنبی نے سوٹا ہاتھ میں پکڑا اور قبرستان کے صدر دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ لوگ جب قبرستان میں داخل ہونے لگے تو اجنبی شخص نے کہا: رک جائو… لوگ جنازہ اٹھائے ہوئے تھے فوراً رک گئے اور اجنبی سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟
اجنبی شخص نے جواباً کہا کہ پہلے مردہ دفنانے کی فیس مبلغ ایک اشرفی ادا کرو ورنہ مردہ دفنانے کی اجازت نہیں، سمجھے!
لوگوں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ یہ کس کا حکم ہے؟ پہلے تو اس قسم کی کوئی فیس نہ تھی۔
اجنبی نے کہا: ہاں اب فیس ادا کرنا ہوگی۔ میں رانی جان کا سالا ہوں۔ لوگ حیران ہوئے، ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے: راجائوں کے سالے بھی تو سینکڑوں کے حساب سے ہوتے ہیں، یقینا یہ بھی ان میں سے ایک ہوگا۔ لہٰذا اس کو دے دو۔ اب اجنبی کو روز ایک دو اشرفیاں بغیر محنت مشقت کیے مل جاتیں۔
اسی طرح دو ڈھائی سال میں اجنبی کے پاس ایک معقول رقم جمع ہوگئی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اجنبی نے روزمرہ کا یہ بھی معمول بنا رکھا تھا کہ وہ ہر شام غروب آفتاب کے وقت قبرستان سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد تھی وہاں جاکر چراغ میں تیل ڈال کر روشن کر آتا۔ مسجد کے امام صاحب اس کے اس عمل پر بہت خوش ہوتے‘ لیکن ساتھ ساتھ اسے یہ بھی تلقین کرتے کہ جو اس نے ذریعہ معاش بنا رکھا ہے، مناسب نہیں۔ یعنی جبر کے ساتھ کسی کے ساتھ لین دین کرنا مناسب نہیں، مذہب اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ اجنبی نے امام صاحب کو جواباً کہا کہ وہ مجبوری کی حالت میں اور انتقاماً ایسا کرتا ہے کیوںکہ یہاں کے لوگوں نے اس کے ساتھ اس قسم کا یعنی جبر اور سینہ زوری کا سلوک کیا ہے۔ لہٰذا وہ بھی ایسا کرتا ہے۔ امام صاحب کہتے کہ یہ غلط ہے، اگر لوگوں نے تمہارے ساتھ غلط سلوک روا رکھا ہے، تو کم از کم تم ایسا نہ کرو، اپنے اخلاق سے انہیں متاثر کرو۔ امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر کتا تمہیں کاٹ لے تو کیا جواب میں تم بھی اسے کاٹ لوگے؟ نہیں، تم ایسا نہیں کروگے۔ یہ مت دیکھو کہ کوئی کیا کررہا ہے، یہ دیکھو تم کیا کررہے ہو۔
’’لیکن امام صاحب! یہ راجے، مہاراجے، حکمران… یہ بھی تو رعایا پر جبر کرتے رہتے ہیں، انہیں کوئی نہیں پوچھتا‘‘۔ اجنبی نے پوچھا۔
’’اے اجنبی شخص! مت بھولو قیامت کے دن سب اللہ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ حلال کی روزی کمائو اور اللہ کو یاد رکھو۔‘‘ امام صاحب نے نصیحت آمیز لہجے میں کہا۔
اس دوران اتفاق سے ایک دن راجے کا عزیز رشتہ دار وفات پاگیا اور ریاست کے راجے کو بھی قبرستان جنازے کے ساتھ آنا پڑا۔ اب اجنبی کو یہ خبر نہ تھی کہ ریاست کا راجہ بھی آج جنازے میں شامل ہے۔ اجنبی نے حسب معمول جنازے کو روکا اور فیس ادا کرنے کو کہا۔ راجے کو جب خبر ہوئی تو وہ خاموش رہا اور پوچھا: تم کون ہو؟ اجنبی نے فوراً بڑی دیدہ دلیری سے جواب دیا کہ وہ رانی جان کا سالا ہے۔ اب راجا سوچنے لگا کہ کوئی ہوگا، کیونکہ راجائوں کی بیویاں بھی تو بہت ساری ہوتی ہیں اور سالے بھی تو سینکڑوں میں ہوں گے۔ لہٰذا راجے نے فیس ادا
کرنے کو کہا۔ دوسرے ہی دن راجے نے اجنبی کو اپنے محل میں بلایا۔ درباری اسے پکڑ کر راجے کے حضور لے جارہے تھے۔ امام صاحب کا ادھر سے گزر ہوا۔ دیکھا اجنبی مشکل میں ہے۔ امام صاحب کو دیکھ کر فوراً زارو قطار رونے لگا، ان کے پائوں پڑگیا۔ امام صاحب نے اجنبی کو حوصلہ دیا ’’جائو تمہیں کچھ نہیں ہوگا، تم نے اللہ کے گھر کو روشن رکھا، میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں، لیکن راجے کے سامنے جھوٹ مت بولنا، سچ سچ بات کرنا اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا، اللہ بخشنے والا اور غفورالرحیم ہے۔‘‘ اجنبی نے امام صاحب سے کہا ’’امام صاحب جا تو رہا ہوں، دیکھ لینا کہیں مروا نہ دینا، سنا ہے راجہ بہت ظالم ہے‘‘۔ اجنبی کو حکم کے مطابق راجے کے سامنے پیش کیا گیا۔
راجے نے اجنبی سے پوچھا ’’بتائو تم کس قسم کے سالے ہو اور تمہارا کیا حدود اربعہ ہے‘‘۔ اجنبی اب سمجھ گیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے، اس نے معذرت کے ساتھ ہاتھ جوڑے اور عرض کیا ’’حضورِ والا جان کی سلامتی چاہتا ہوں۔ پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں۔ حضور! آپ کا درجہ بلند ہو، کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ بارہ پیٹھے اور تیرہواں دلال بھی ہوا کرتا ہے۔
راجا نے کہاکہ وہ پوری طرح بات کو سمجھا نہیں، وضاحت کی جائے۔ اجنبی نے اپنی ساری کہانی راجے کو سنائی۔ حضور میں نے آپ کی ریاست میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ میں نے ایک اشرفی کے عوض سبزی منڈی سے بارہ پیٹھے خریدے اور فروخت کرنے لگا، لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ میرا مال مفت میں لوٹا۔ مال لٹنے کے بعد تیرہواں آدمی دلال آیا۔ اسے کچھ نہ مل سکا۔ وہ میرے سر کی پگڑی زبردستی اتار کر لے گیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس ملک میں کوئی قانون ہے ہی نہیں۔ بس اندھیر نگری ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے یہاں رہنا ہے تو مجھے بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔
راجا بات کی حقیقت کو سمجھ گیا۔ اجنبی کی گفتگو سے بہت محظوظ ہوا اور اجنبی کو حکم دیا کہ وہ آج سے ایک کے بجائے لوگوں سے دو اشرفیاں وصول کیا کرے، ایک اشرفی خود رکھے اور دوسری اشرفی راجے کو ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
راجے نے اجنبی سے پوچھا ’’بتائو تم کس قسم کے سالے ہو اور تمہارا کیا حدود اربعہ ہے‘‘۔ اجنبی اب سمجھ گیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے، اس نے معذرت کے ساتھ ہاتھ جوڑے اور عرض کیا ’’حضورِ والا جان کی سلامتی چاہتا ہوں۔ پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں۔ حضور! آپ کا درجہ بلند ہو، کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ بارہ پیٹھے اور تیرہواں دلال بھی ہوا کرتا ہے۔
راجا نے کہاکہ وہ پوری طرح بات کو سمجھا نہیں، وضاحت کی جائے۔ اجنبی نے اپنی ساری کہانی راجے کو سنائی۔ حضور میں نے آپ کی ریاست میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ میں نے ایک اشرفی کے عوض سبزی منڈی سے بارہ پیٹھے خریدے اور فروخت کرنے لگا، لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ میرا مال مفت میں لوٹا۔ مال لٹنے کے بعد تیرہواں آدمی دلال آیا۔ اسے کچھ نہ مل سکا۔ وہ میرے سر کی پگڑی زبردستی اتار کر لے گیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس ملک میں کوئی قانون ہے ہی نہیں۔ بس اندھیر نگری ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے یہاں رہنا ہے تو مجھے بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔
راجا بات کی حقیقت کو سمجھ گیا۔ اجنبی کی گفتگو سے بہت محظوظ ہوا اور اجنبی کو حکم دیا کہ وہ آج سے ایک کے بجائے لوگوں سے دو اشرفیاں وصول کیا کرے، ایک اشرفی خود رکھے اور دوسری اشرفی راجے کو ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
No comments:
Post a Comment