Sunday, June 22, 2014

حضرت ابو ذر رضی اللہ کی ضمانت اور حضرت عمر رضی اللہ کا انصاف، ایک قصہ بلاحوالہ

یہ قصہ بعض کتابوں میں ، اور انٹرنیٹ پر عربی و اردو میں عام ہے، کہیں قصہ کے بعض حصوں میں کچھ تبدیلی، رنگ آمیزی اور افسانویت پیدا کی گئی  ہے 

البتہ یہ قصہ کسی معبتر کتاب میں موجود نہیں۔ اور انٹرنیٹ پر بہت سارے علما نے اس کو موضوع اور من گھڑت بتایا ہے۔ 
قصہ درج ذیل ہے : 
دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کا اشارہ کر کے کہتے ہیں یا عمر یہ ہے وہ شخص!

سیدنا عمر ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟

یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔

کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟

وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔

کس طرح قتل کیا ہے؟

یا عمر، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔

پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت،اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔

نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟

ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر کو مطلب ہی کیا ہے!!

 کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

 وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔

 سیدنا عمر کہتے ہیں: کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟

 مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ 

اسکے قبیلے، خیمےیا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔

کون ضمانت دے اسکی؟

کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟

 ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔

اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔

کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟

یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟

اور اگروہ  واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!

خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں،

 معاف کر دو اس شخص کو۔

نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔

عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔

چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔

عمر: جانتے ہو اسے؟

ابوذر: نہیں جانتا اسے۔ عمر: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟

ابوذر: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔

عمر: ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔

امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد،

عمررضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے،

انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا،

 عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔

ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔

مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں۔

ابوذر: آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟

یہ سچ ہے کہ ابوذر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمررضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لمحات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا!

امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟

ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا،

اے عمر، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔

سید عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟ نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں،

ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔

 سیدنا عمر اللہ رضی اللہ عنہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔

اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔

اے ابو ذراللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔

اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔

اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔

 

Thursday, June 12, 2014

اندھیری نگری اور چوپٹ راج، لوٹ کھسوٹ میں مبتلا موجودہ دنیا کی صحیح منظر کشی

اندھیری نگری اور چوپٹ راج
پرانے وقتوں میں ایک آدمی کو کاروبار میں نقصان ہوا۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ ہجرت یا سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے، لہٰذا اُس نے ہجرت کی اور اپنے ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلا گیا۔ اس کے پاس نقدی میں صرف بچی ہوئی ایک اشرفی تھی، جس کے ساتھ وہ پردیس میں کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ نئی مملکت میں پہنچا اسے وہاں کے کاروباری حالات اچھے نظر آئے۔ زندہ رہنے کے لیے اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ رات تو اس نے کسی نہ کسی طرح بسر کی۔ صبح صبح وہ اٹھا، نہایا دھویا، نماز ادا کی اور سیدھا اللہ اللہ کرتا ہوا فروٹ مارکیٹ پہنچا۔ وہاں اس نے ایک دلال کے ذریعے ایک چاندی کی اشرفی کے عوض بارہ عدد حلوہ کدو یا پیٹھے خرید لیے۔
دلال نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ سودا فروخت ہوجانے کی صورت میں برائے نام کچھ منافع شام کو اسے بھی دے گا۔ اجنبی شخص جو اس ملک میں پہلی بار آیا تھا، نہ تو اس کے پاس کوئی دکان تھی نہ ہی سودا سلف فروخت کرنے کے لیے کوئی اڈہ۔ بازار میں لوگوں کا خریدوفروخت کے لیے آنا جانا شروع ہوگیا۔ اس نے جلدی جلدی حلوے پیٹھے بارہ عدد وہاں سے اٹھائے اور قریب ہی ایک درخت کے نیچے جاکر رکھ دیے اور ساتھ خود بھی بیٹھ گیا۔ گویا یہ ایک طرح سے اس کی دکان تھی۔
تھوڑا ہی وقت گزرا، ایک سفید پوش باریش آدمی آیا۔ سلام دعا کی، خوشی خوشی ایک پیٹھا یعنی حلوہ کدو ڈھیر سے اٹھایا، اپنی بغل میں دباکر چلتا بنا۔ اجنبی شخص نے سمجھا کہ شاید بعد میں پیسے  بھجوا دے گا‘ لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص گھوڑے پر سوار آیا، گھوڑے سے نیچے اترا، بغیر کچھ کہے اور بغیر رقم ادا کیے ایک پیٹھا اٹھایا اور چل دیا۔ اس طرح تقریباً ایک گھنٹے کے اندر اندر بارہ آدمی آئے اور بغیر رقم ادا کیے باری باری بارہ پیٹھے اٹھاکر چلے گئے۔
اب اجنبی حیران ہو کر رہ گیا اور سوچنے لگا: یااللہ یہ کیسا ملک ہے! اسی اثناء میں دلال بھی فارغ ہوکر اس کے پاس پہنچا۔ اجنبی سے پوچھا: شریف آدمی سنائو مال سارا بک گیا اور کتنا منافع ہوا؟
اجنبی شخص سخت غصے کی حالت میں تھا، کہا: منافع دو اشرفیوں کا ہوا ہے۔ دلال بہت حیران ہوا۔ ’’اتنا زیادہ منافع! تو لائو پھر میرا حصہ یا منافع‘‘۔
دلال کو دینے کے لیے اجنبی کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ دلال کو جلد ہی یہ بھی پتا چل گیا کہ لوگ اس کا مال مفت میں اٹھا کر لے گئے ہیں اور اجنبی شخص سخت پریشانی اور غصے کے عالم میں ہے۔
دلال بھی تو اسی قوم کا فرد تھا۔ وہ بھی اجنبی کی دکان سے خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتا تھا۔ اسے وہاں کوئی چیز نظر نہ آئی۔ دلال نے اجنبی کے سر سے پگڑی اتاری اور اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چل دیا۔ دلال دل ہی دل میں کہنے لگا: چلو کچھ تو مجھے بھی ملا۔
اب اجنبی کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ہر شخص اپنی من مانی کررہا ہے۔ لہٰذا وہ اگر اس ملک میں رہے گا تو پھر اس کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ دن تو اجنبی نے اسی سوچ و فکر میں گزارا۔ دوسرے دن جنگل میں گیا۔ ایک مضبوط سی چھڑی یا پھر اسے دوسری زبان میں ’’سوٹا‘‘ کہہ لیں‘ لے آیا اور شہر سے کچھ دوری پر قبرستان میں ایک جھونپڑی بنا کر رہنے لگا۔ تقریباً ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ شہر کے لوگ مردے کو دفنانے قبرستان آگئے۔ اجنبی نے سوٹا ہاتھ میں پکڑا اور قبرستان کے صدر دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ لوگ جب قبرستان میں داخل ہونے لگے تو اجنبی شخص نے کہا: رک جائو… لوگ جنازہ اٹھائے ہوئے تھے فوراً رک گئے اور اجنبی سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟
اجنبی شخص نے جواباً کہا کہ پہلے مردہ دفنانے کی فیس مبلغ ایک اشرفی ادا کرو ورنہ مردہ دفنانے کی اجازت نہیں، سمجھے!
لوگوں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ یہ کس کا حکم ہے؟ پہلے تو اس قسم کی کوئی فیس نہ تھی۔
اجنبی نے کہا: ہاں اب فیس ادا کرنا ہوگی۔ میں رانی جان کا سالا ہوں۔ لوگ حیران ہوئے، ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے: راجائوں کے سالے بھی تو سینکڑوں کے حساب سے ہوتے ہیں، یقینا یہ بھی ان میں سے ایک ہوگا۔ لہٰذا اس کو دے دو۔ اب اجنبی کو روز ایک دو اشرفیاں بغیر محنت مشقت کیے مل جاتیں۔
اسی طرح دو ڈھائی سال میں اجنبی کے پاس ایک معقول رقم جمع ہوگئی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اجنبی نے روزمرہ کا یہ بھی معمول بنا رکھا تھا کہ وہ ہر شام غروب آفتاب کے وقت قبرستان سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد تھی وہاں جاکر چراغ میں تیل ڈال کر روشن کر آتا۔ مسجد کے امام صاحب اس کے اس عمل پر بہت خوش ہوتے‘ لیکن ساتھ ساتھ اسے یہ بھی تلقین کرتے کہ جو اس نے ذریعہ معاش بنا رکھا ہے، مناسب نہیں۔ یعنی جبر کے ساتھ کسی کے ساتھ لین دین کرنا مناسب نہیں، مذہب اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ اجنبی نے امام صاحب کو جواباً کہا کہ وہ مجبوری کی حالت میں اور انتقاماً ایسا کرتا ہے کیوںکہ یہاں کے لوگوں نے اس کے ساتھ اس قسم کا یعنی جبر اور سینہ زوری کا سلوک کیا ہے۔ لہٰذا وہ بھی ایسا کرتا ہے۔ امام صاحب کہتے کہ یہ غلط ہے، اگر لوگوں نے تمہارے ساتھ غلط سلوک روا رکھا ہے، تو کم از کم تم ایسا نہ کرو، اپنے اخلاق سے انہیں متاثر کرو۔ امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر کتا تمہیں کاٹ لے تو کیا جواب میں تم بھی اسے کاٹ لوگے؟ نہیں، تم ایسا نہیں کروگے۔ یہ مت دیکھو کہ کوئی کیا کررہا ہے، یہ دیکھو تم کیا کررہے ہو۔
’’لیکن امام صاحب! یہ راجے، مہاراجے، حکمران… یہ بھی تو رعایا پر جبر کرتے رہتے ہیں، انہیں کوئی نہیں پوچھتا‘‘۔ اجنبی نے پوچھا۔
’’اے اجنبی شخص! مت بھولو قیامت کے دن سب اللہ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ حلال کی روزی کمائو اور اللہ کو یاد رکھو۔‘‘ امام صاحب نے نصیحت آمیز لہجے میں کہا۔
اس دوران اتفاق سے ایک دن راجے کا عزیز رشتہ دار وفات پاگیا اور ریاست کے راجے کو بھی قبرستان جنازے کے ساتھ آنا پڑا۔ اب اجنبی کو یہ خبر نہ تھی کہ ریاست کا راجہ بھی آج جنازے میں شامل ہے۔ اجنبی نے حسب معمول جنازے کو روکا اور فیس ادا کرنے کو کہا۔ راجے کو جب خبر ہوئی تو وہ خاموش رہا اور پوچھا: تم کون ہو؟ اجنبی نے فوراً بڑی دیدہ دلیری سے جواب دیا کہ وہ رانی جان کا سالا ہے۔ اب راجا سوچنے لگا کہ کوئی ہوگا، کیونکہ راجائوں کی بیویاں بھی تو بہت ساری ہوتی ہیں اور سالے بھی تو سینکڑوں میں ہوں گے۔ لہٰذا راجے نے فیس ادا
کرنے کو کہا۔ دوسرے ہی دن راجے نے اجنبی کو اپنے محل میں بلایا۔ درباری اسے پکڑ کر راجے کے حضور لے جارہے تھے۔ امام صاحب کا ادھر سے گزر ہوا۔ دیکھا اجنبی مشکل میں ہے۔ امام صاحب کو دیکھ کر فوراً زارو قطار رونے لگا، ان کے پائوں پڑگیا۔ امام صاحب نے اجنبی کو حوصلہ دیا ’’جائو تمہیں کچھ نہیں ہوگا، تم نے اللہ کے گھر کو روشن رکھا، میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں، لیکن راجے کے سامنے جھوٹ مت بولنا، سچ سچ بات کرنا اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا، اللہ بخشنے والا اور غفورالرحیم ہے۔‘‘ اجنبی نے امام صاحب سے کہا ’’امام صاحب جا تو رہا ہوں، دیکھ لینا کہیں مروا نہ دینا، سنا ہے راجہ بہت ظالم ہے‘‘۔ اجنبی کو حکم کے مطابق راجے کے سامنے پیش کیا گیا۔
راجے نے اجنبی سے پوچھا ’’بتائو تم کس قسم کے سالے ہو اور تمہارا کیا حدود اربعہ ہے‘‘۔ اجنبی اب سمجھ گیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے، اس نے معذرت کے ساتھ ہاتھ جوڑے اور عرض کیا ’’حضورِ والا جان کی سلامتی چاہتا ہوں۔ پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں۔ حضور! آپ کا درجہ بلند ہو، کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ بارہ پیٹھے اور تیرہواں دلال بھی ہوا کرتا ہے۔
راجا نے کہاکہ وہ پوری طرح بات کو سمجھا نہیں، وضاحت کی جائے۔ اجنبی نے اپنی ساری کہانی راجے کو سنائی۔ حضور میں نے آپ کی ریاست میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ میں نے ایک اشرفی کے عوض سبزی منڈی سے بارہ پیٹھے خریدے اور فروخت کرنے لگا، لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ میرا مال مفت میں لوٹا۔ مال لٹنے کے بعد تیرہواں آدمی دلال آیا۔ اسے کچھ نہ مل سکا۔ وہ میرے سر کی پگڑی زبردستی اتار کر لے گیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس ملک میں کوئی قانون ہے ہی نہیں۔ بس اندھیر نگری ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے یہاں رہنا ہے تو مجھے بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔
راجا بات کی حقیقت کو سمجھ گیا۔ اجنبی کی گفتگو سے بہت محظوظ ہوا اور اجنبی کو حکم دیا کہ وہ آج سے ایک کے بجائے لوگوں سے دو اشرفیاں وصول کیا کرے، ایک اشرفی خود رکھے اور دوسری اشرفی راجے کو ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

امام شافعی رحمہ اللہ کا سفر نامہ

امام شافعی رحمة اللہ علیہ کا یہ سفر نامہ ان کے مشہور شاگرد ربیع بن سلیمان نے روایت کیا ہے
 اور یہاں ابن حجہ کی کتاب ثمرات الأوراق طبع مصر سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

امام شافعی نے فرمایا:مکہ سے جب میں روانہ ہوا تو میری عمر چودہ برس کی تھی، منہ پر ابھی سبزہ نمودار نہیں ہوا تھا، دویمنی چادریں میرے جسم پر تھیں ۔ ذی طویٰ پہنچا توایک پڑاؤ دکھائی دیا، میں نے صاحب سلامت کی۔ ایک بڑے میاں ، میری طرف بڑھے اور لجاجت سے کہنے لگے: ''تمہیں خدا کا واسطہ،ہمارے کھانے میں ضرور شریک ہو۔''مجھے معلوم نہ تھا کہ کھانا نکل چکا ہے۔ بڑی بے تکلفی سے میں نے دعوت قبول کرلی۔ وہ لوگ پانچوں انگلیوں سے کھاتے تھے ۔میں نے بھی ان کی ریس کی ،تاکہ میرے کھانے سے اُنہیں گھن نہ آئے۔ کھانے کے بعد پانی پیا ، اور شکر ِخداوندی کے ساتھ اپنے بوڑھے میزبان کابھی شکریہ ادا کیا۔

اب بڑے میاں نے سوال کیا: تم مکی ہو؟ میں نے جواب دیا،جی ہاں ، مکی ہوں ۔کہنے لگا: قریشی ہو ؟ میں نے کہا:ہاں ، قریشی ہوں ۔ پھر خود میں نے پوچھا: چچا ! یہ آپ نے کیسے جانا کہ میں مکی اورقریشی ہوں ؟بوڑھے نے جواب دیا:''شہری ہونا تو تمہارے لباس سے ہی ظاہر ہے، اور قریشی ہونا تمہارے کھانے سے معلوم ہوگیا۔ جوشخص دوسروں کا کھانابے تکلفی سے کھالیتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگ اس کا کھانا بھی دل کھول کے کھائیں ، تو یہ خصلت صرف قریش کی ہی ہے۔''

میں نے پوچھا:آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟ بوڑھے نے جواب دیا:رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشہر' یثرب' میرا وطن ہے۔ میں نے پوچھا: مدینے میں کتاب اللہ کا عالم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ دینے والا مفتی کون ہے ؟ بوڑھے نے جواب دیا: بنی اَصبح کا سردار مالک بن انس (امام مالک )۔ میں نے کہا: آہ! اللہہی جانتا ہے، امام مالک سے ملنے کا مجھے کتنا شوق ہے ! بوڑھے نے جواب دیا: خو ش ہوجائو، اللہ نے تمہارا شوق پورا کردیا۔ اس بھورے اونٹ کو دیکھو، یہ ہمارا سب سے اچھا اونٹ ہے، اسی پر تم سوار ہوگے۔ ہم اب جا ہی رہے ہیں ، رستے بھر تمہاری ہر طرح کی خاطر کریں گے۔ کوئی تکلیف ہونے نہ دیں گے اور مدینے میں مالک بن انس کے پاس تمہیں پہنچا دیں گے۔''

جلد اونٹ قطار میں کھڑے کر دیے گئے مجھے اسی بھورے اونٹ پر بٹھایا گیا اور قافلہ چل پڑا۔ میں نے تلاوت شروع کردی، مکہ سے مدینے تک سولہ بار قرآن کریم ختم ہوگیا۔ ایک دن میں ختم کرلیتا اور دوسرا رات میں ۔

امام مالک سے ملاقات
آٹھویں دن نمازِ عصر کے بعد مدینے میں ہمارا داخلہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھی، پھر قبر شریف کے قریب حاضر ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ یہیں امام مالک دکھائی دیے۔ ایک چادر کی تہ بند باندھے تھے، دوسر ی چادر اوڑھے تھے اور بلند آواز سے حدیث روایت کر رہے تھے: ''مجھ سے نافع نے ابن عمرؓ کے واسطے سے اس قبر کے مکین سے روایت کیا ...''یہ کہہ کر اُنہوں نے زور سے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور قبر شریف کی طرف اشارہ کیا۔

یہ نظارہ دیکھ کر امام مالک بن انس کی ہیبت مجھ پر چھاگئی اور جہاں جگہ ملی، میں وہیں بیٹھ گیا۔ امام مالک حدیث روایت کرنے لگے۔ میں نے جلدی سے زمین پر پڑا ہوا ایک تنکا اُٹھا لیا۔ مالک جب کوئی حدیث سناتے تو میں اسی تنکے کو اپنے لعابِ دہن سے تر کرکے اپنی ہتھیلی پر لکھ لیتا۔ امام مالک میر ی حرکت دیکھ رہے تھے مگر مجھے خبر نہ تھی۔ آخر مجلس ختم ہوگئی اور امام مالک دیکھنے لگے کہ سب کی طرح میں بھی اُٹھ جاتا ہوں یا نہیں ۔ میں بیٹھا رہا تو امام مالک نے اشارے سے مجھے بلایا۔ میں قریب پہنچا تو کچھ دیر بڑے غور سے مجھے دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا:''تم حرم کے رہنے والے ہو؟'' میں نے عرض کیا: جی ہاں حرم کا باشندہ ہوں ۔ پوچھا: ''مکی ہو۔'' میں نے کہا :جی ہاں ، کہنے لگے :''قریشی ہو ؟ ''میں نے کہا ،جی ہاں ۔

فرمانے لگے: ''سب اوصاف پورے ہیں ، مگر تم میں ایک بے ادبی ہے۔'' میں نے عرض کیا: آپ نے میری کون سی بے ادبی دیکھی ہے؟ کہنے لگے: '' میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سنا رہا تھا اورتم تنکالئے اپنے ہاتھ پر کھیل رہے تھے!'' میں نے جواب دیا: کاغذ پاس نہیں تھا ، اس لئے آپ سے کچھ سنتا تھا ، اسے لکھتا جاتا تھا۔ اس پر امام مالک نے میرا ہاتھ کھینچ کر دیکھا اور فرمایا: ہاتھ پر تو کچھ بھی لکھا نہیں ہے! '' میں نے عرض کیا ، ہاتھ پر لعاب باقی نہیں رہتا ،لیکن آپ نے جتنی حدیثیں سنائی ہیں ،مجھے سب یاد ہو چکی ہیں ۔ امام مالک کو تعجب ہوا کہنے لگے: ''سب نہیں ، ایک ہی حدیث سنا دو۔'' میں نے فوراً کہا: ہم سے امام مالک نے، نافع اور ابن عمرؓ کے واسطے سے اس قبر کے مکین سے روایت کیا ہے۔ '' اور مالک ہی کی طرح میں نے ہاتھ پھیلا کر قبر شریف کی طرف اشارہ کیا پھر وہ پور ی پچیس حدیثیں سنادیں جو اُنہوں نے اپنے بیٹھنے کے وقت سے مجلس کے خاتمے تک سنائی تھیں ۔

امام مالک کے گھر میں
اب سورج ڈوب چکا تھا، امام مالک نے نمازپڑھی پھر میری طرف اشارہ کرکے غلام سے کہا: ''اپنے آقا کا ہاتھ تھام''اور مجھ سے فرمایا:''اُٹھو، غلام کے ساتھ میرے گھر جاؤ۔ '' میں نے ذرا انکار نہ کیا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ امام مالک جو مہربانی مجھ سے کرنا چاہتے تھے میں نے بخوشی قبول کر لی۔ جب گھر پہنچا توغلام ایک کوٹھڑی میں مجھے لے گیا اور کہنے لگا: گھر میں قبلے کا رخ یہ ہے۔ پانی کا لوٹا بھی یہ رکھاہے اور بیت الخلا ادھر ہے۔

تھوڑی دیر بعد خود امام مالک آگئے۔ غلام بھی ساتھ تھا، اس کے ہاتھ پر ایک خوان تھا۔ مالک نے خوان لے کر فرش پر رکھ دیا۔ پھر مجھے سلام کیا اور غلام سے کہا: ہاتھ دھلا، غلام برتن لئے میری طرف بڑھا، مگر مالک نے ٹوکا: ''جانتا نہیں ، کھانے سے پہلے میزبان کو ہاتھ دھونا چاہیے اورکھانے کے بعد مہمان کا۔'' مجھے یہ بات پسند آئی اور اس کی وجہ دریافت کی۔ امام مالک نے جواب دیا: ''میزبان کھانے پر مہمان کو بلاتا ہے ، اس لئے پہلے ہاتھ بھی میزبان ہی کو دھونا چاہئے اورکھانے کے بعد آخر میں اس لئے ہاتھ دھوتا ہے کہ شاید اورکوئی مہمان آجائے تو کھانے میں میزبان اس کا بھی ساتھ دے سکے!''

اب امام مالک نے خوان کھولا تو اس میں دو برتن تھے۔ ایک میں دودھ تھا اوردوسرے میں کھجوریں ۔ امام مالک نے بسم اللہ کہی میں نے بھی بسم اللہ کہی اورہم نے کھانا ٹھکانے لگا دیا۔ مگر مالک بھی جانتے تھے کہ کھانا کافی نہیں ہے۔ کہنے لگے''ابو عبد اللہ! ایک مفلس قلاش فقیر ، دوسرے فقیر کے لئے جوکچھ پیش کرسکتا تھا، یہی تھا!''میں نے عرض کیا: ''وہ معذرت کیوں کرے جس نے احسان کیا ہے؟ معذرت کی توقصور وار کو ضرورت ہوتی ہے!''

امام مالک کا اخلاق
کھانے کے بعد امام مالک مکہ والوں کے حالات پوچھتے رہے اور جب رات زیادہ ہوگئی تواُٹھ کھڑے ہوئے اورفرمایا: ''مسافر کو لیٹ لوٹ کر تھکن کم کرنا چاہیے، اب تم آرام کرو۔ '' میں تھکا ہوا تو تھا ہی، لیٹتے ہی بے خبر سوگیا ۔پچھلے پہر کو کوٹھڑی پر دستک پڑی اورآوازآئی: اللہ کی رحمت ہو تم پر... نماز!'' میں اُٹھ بیٹھا ۔کیا دیکھتا ہوں کہ خود امام مالک ہاتھ میں لوٹا لئے کھڑے ہیں !مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ مگر وہ کہنے لگے: ''ابو عبد اللہ! کچھ خیال نہ کرو۔مہمان کی خدمت فرض ہے!''

میں نماز کے لئے تیار ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں امام مالک کے ساتھ فجر کی نمازادا کی ۔اندھیرا بہت تھا، کوئی کسی کو پہچان نہیں سکتا تھا۔ سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر تسبیح وذکر الٰہی میں مصروف ہوگئے یہاں تک کہ پہاڑیوں پر دھوپ نمودار ہوگئی۔ امام مالک جس جگہ کل بیٹھے تھے، اسی جگہ آج بھی جا بیٹھے اور اپنی کتاب موطأ میرے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے کتاب سنانا شروع کی اورلوگ لکھنے لگے۔

میں امام مالک کے گھر آٹھ مہینے رہا ۔پوری موطأ مجھے حفظ ہوگئی، مجھ میں اور امام مالک میں اس قدر محبت اور بے تکلفی ہوگئی تھی کہ اَن جان دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ مہمان کون ہے اور میزبان کون؟

عراق کو قافلہ
حج کے بعد زیارت کرنے اورموطأ سننے کے لئے مصر کے لوگ مدینے آئے اور امام مالک کی خدمت میں پہنچے۔
 میں نے مصریوں کو پوری موطأ زبانی سنا دی۔
اس کے بعد عراق والے مسجد ِنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو حاضر ہوئے۔ قبر اورمنبر کے درمیان مجھے ایک نوجوان دکھائی دیا ۔خوبصورت تھا، صاف ستھرے کپڑے پہنے تھا ۔اس کی نماز بھی اچھی تھی۔ قافیہ بتا رہا تھا کہ بھلا آدمی ہے اور بھلائی کی اُمید اس سے باندھی جاسکتی ہے۔ میں نے نام پوچھا، بتا دیا۔ میں نے وطن پوچھا،کہنے لگا: عراق۔ میں نے سوال کیا: عراق کا کونسا علاقہ؟ اس نے جواب دیا: کوفہ۔ میں نے کہا: کوفے میں کتاب اللہ اورسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم اور مفتی کون ہے ؟کہنے لگا: ابو یوسف اورمحمد بن حسن ،جو امام ابوحنیفہ کے شاگرد ہیں ۔ میں نے پوچھا : عراق کو تمہاری واپسی کب ہوگی؟ اس نے جواب دیا :کل صبح تڑکے۔

یہ سن کر امام مالک کے پا س آیا اورعرض کیا: ''مکے سے طلب ِعلم میں نکلا ہوں ۔ بوڑھی (والدہ) سے اجازت بھی نہیں لی ہے، اب فرمائیے کیا کروں ؟بڑھیا کے پاس لوٹ جاؤں یا علم کی جستجو میں آگے بڑھوں ؟''

امام مالک نے جواب دیا: 
''علم کے فائدے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ طالب ِعلم کے لئے فرشتے اپنے پر پھیلادیتے ہیں ؟''

میں نے سفر کا اِرادہ پکا کر لیا اور امام مالک نے راستے کے لئے میرے کھانے کا بندوبست کر دیا۔ صبح تڑکے امام مالک مجھے پہنچانے بقیع تک آئے اور زور سے پکارنے لگے۔ ''کوفے کے لئے کون اپنا اونٹ کرائے پر دیتا ہے؟''یہ سن کر مجھے بہت تعجب ہوا اورعرض کیا ''یہ کیا کر ر ہے آپ؟ نہ میرے پاس کوئی پیسہ ہے، نہ خود آپ ہی کی حالت کسی قابل ہے۔ پھر یہ کرائے کا اونٹ کیسا؟'' امام مالک مسکرا ئے اور کہنے لگے: ''نمازِ عشاء کے بعد جب تم سے رخصت ہوا تو دروازے پردستک پڑی باہر نکلا 'تو عبد الرحمن بن قاسم کھڑے تھے۔ ہدیہ لائے تھے، منتیں کرنے لگے کہ قبول کر لوں ۔ ہاتھ میں ایک تھیلی تھمادی ۔تھیلی میں سودینار نکلے، پچاس میں نے اپنے بال بچوں کے لئے رکھ لئے ہیں اور پچاس تمہارے واسطے لے آیا ہوں !'' پھر امام مالک نے چار دینا ر میں اونٹ طے کردیا۔ باقی رقم میرے حوالے کی اورمجھے خداحافظ کہا۔

کوفے میں آمد
حاجیوں کے اس قافلے کے ساتھ میں روانہ ہوگیا۔ چوبیسویں دن ہم کوفے پہنچے اور عصر کے بعد میں مسجد میں داخل ہوا ۔نماز پڑھی اور بیٹھ گیا۔ اسی دوران ایک لڑکا دکھائی دیا۔ نماز پڑھ رہا تھا، مگر اس کی نماز ٹھیک نہیں تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا اورنصیحت کر نے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ میں نے کہا: میاں صاحبزادے! نماز اچھی طرح پڑھا کرو،تاکہ خدا تمہارے اس حسین مکھڑے کو عذابِ دوزخ میں مبتلا نہ کرے!''

لڑکے کو میری بات بری لگی اور کہنے لگا:'' معلوم ہوتا ہے تم حجازی ہو، یہ سختی وخشکی حجازیوں ہی میں ہوتی ہے۔ عراقیوں جیسی نرمی وشگفتگی بھلا ان میں کہاں ۔ میں پندرہ برس سے اسی مسجد میں محمد بن حسن اور ابویوسف کے سامنے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ ان اماموں نے تو کبھی ٹوکا نہیں ۔ اب آئے ہو تم اعترا ض کرنے!''یہ کہہ کر لڑکے نے اپنی چادر ، غصے اورحقارت سے میرے منہ پرچادر جھاڑ دی اور اینٹھتا بررتا چلا گیا...!

امام محمد اورامام یوسف سے ملاقات
اتفاق سے مسجد کے دروازے ہی پر لڑکے کو محمد بن حسن اور ابویوسف مل گئے ۔لڑکا ان سے کہنے لگا: ''آپ حضرات نے میر ی نمازمیں کبھی کوئی خرابی دیکھی ہے۔'' اُنہوں نے جواب دیا''خدا یا، کبھی نہیں !'' لڑکا کہنے لگا: ''مگر ہماری مسجد میں ایک ایسا شخص بیٹھا ہے جس نے میری نماز پر اعتراض کیا ہے !'' دونوں اماموں نے کہا:'' تم اس شخص کے پاس جائو اور سوال کرو کہ نماز میں کس طرح داخل ہوتے ہو؟'' لڑکا لوٹ آیا اور مجھ سے کہنے لگا: '' اے وہ! جس نے میری نمازپر حرف گیر ی کی ہے، ذرا یہ تو بتائو کہتم نماز میں کس طرح داخل ہوتے ہو؟'' میں نے جواب دیا: ''دو فرض اور ایک سنت کے ساتھ نماز میں داخل ہوتا ہوں ۔ '' لڑکا یہ سن کر چلاگیا اور محمد بن قاسم اور ابو یوسف کو میرا جواب پہنچا دیا۔ اس پر وہ سمجھ گئے کہ جواب ایسے آدمی کا ہے جس کی علم پر نظر ہے مگر اُنہوں نے کہا: ''پھر جاکے پوچھو، وہ دونوں فرض کون ہیں اور سنت کیا ہے؟ لڑکے نے آکر مجھ سے یہی سوال کیا: میں نے جواب دیا: ''پہلا فرض نیت ہے دوسرا فرض تکبیرۂ اِحرام ہے اور سنت دونوں ہاتھوں کا اُٹھانا ہے۔''لڑکے نے میرا یہ جواب بھی دونوں صاحبوں کو سنا دیا۔

اب وہ مسجد میں داخل ہوئے، مجھے غور سے دیکھا اور میرا خیال ہے کہ حقیر ہی سمجھا۔ وہ ایک طرف بیٹھ گئے اور لڑکے سے کہا: '' جائو اور اس شخص سے کہو کہ مشائخ کے روبرو آئے۔ '' پیغام سن کر میں سمجھ گیا کہ علمی مسائل میں میرا امتحان لیں گے۔ میں نے لڑکے کو جواب دیا:
''لوگ علم کے پاس آتے ہیں اور علم ان کے پاس نہیں جاتا۔ 
پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ تمہارے مشائخ سے ملنے کی مجھے ضرورت ہی کیا ہے!''

میرا یہ جواب پاتے ہی محمد بن حسن اور ابو یوسف اُٹھ کھڑے ہوئے اور میری طرف بڑھے جب اُنہوں نے مجھے سلام کیا تو میں بھی اُٹھ کھڑا ہوگیا اور بشاشت ظاہر کی۔ وہ بیٹھ گئے میں بھی اُن کے سامنے بیٹھ گیا۔ محمد بن حسن نے گفتگو شروع کی: کہنے لگے'' حرم کے رہنے والے ہو ؟'' میں نے جواب دیا: جی ہاں ! کہنے لگے: ''عر ب ہو یا عجم کی اولاد؟''میں نے کہا عر ب ہوں ۔ کہنے لگے: '' کون عرب ہو؟ ''میں نے جواب دیا: مطلب کی اولاد سے ہوں ۔ کہنے لگے مطلب کی کس اولاد سے؟ میں نے شافع کا نام لیا توکہنے لگے: '' امام مالک کو تم نے دیکھا ہے؟'' میں نے کہا کہ جی ہاں ! امام مالک ہی کے پاس سے آرہا ہوں ۔ کہنے لگے ''موطأ ٔبھی دیکھی ہے ؟'' میں نے کہا، موطأ کودیکھنا کیا ، حفظ بھی کرچکاہوں !

محمد بن حسن کویہ بات بڑی معلوم ہوئی، یقین نہ آیا اور اسی وقت لکھنے کا سامان طلب کیا اور ابوابِ فقہ کا ایک مسئلہ لکھا۔ ہر دومسئلوں کے درمیان کافی جگہ خالی رکھی اورکاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:''ان مسائل کا جواب موطأ سے لکھ دو۔'' میں نے کتاب اللہ، سنت ِرسول اللہ اوراجماعِ اُمت کے مطابق سب مسئلوں کے جواب لکھے اورکاغذ محمد بن حسن کے سامنے رکھ دیا۔ اُنہوں نے بغور میر ی تحریر پڑھی پھر مڑ کر غلام کو حکم دیا: '' اپنے آقا کو گھر لے جا!''

امام محمد بن حسن شیبانی کے ساتھ
اس کے بعد محمد بن حسن نے مجھ سے کہا: غلام کے ساتھ جائو '' میں ذرا ہچکچایا اوربے تکلف اُٹھ کھڑا ہوا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچا تو غلام نے کہا: مالک کاحکم ہے کہ آپ ان کے گھر سواری پر جائیں ۔ میں نے جواب دیا: تو سواری حاضر کرلو۔ غلام نے ایک خوب سجا سجایا خچر میرے سامنے کھڑا کردیا، مگر جب میں سوار ہوا تو تن کے پرانے کپڑے جنھیں چیتھڑے کہناچاہیے، نگاہوں میں بری طرح کھٹکے اوراپنی حالت پر افسوس ہوا۔ غلام، کوفے کے گلی کوچوں سے ہوتا ہوا محمد بن حسن کے گھر لایا۔ یہاں دروازوں پر ، ڈیوڑھیوں پر نقش ونگار دیکھے اور اہل حجاز کی قابل رحم مفلسی بے اختیار یاد آگئی۔ آنکھیں بہہ نکلیں اور میں کہہ پڑا:
''وائے حسرت! عراق والے تو اپنے گھر سونے چاندی سے آراستہ کریں اورحجاز کی مخلوق گھٹیا گوشت کھائے اورسوکھی گٹھلیاں چوستی رہے!''

میں رورہا تھا کہ محمد بن حسن آگئے، کہنے لگے:''بندئہ خدا ،یہ جوکچھ تمہاری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ، اس سے کوئی برا اثر نہ لینا، یہ سب حلال کمائی کا ہے ، اوراس کی فرض زکوٰة میں کوتاہی کا خدا مجھ سے جواب نہیں طلب کرے گا ۔سالانہ پوری زکوٰة نکالتا ہوں ۔ دوست دیکھ کرخوش ہوتے ہیں اوردشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں !''

پھر محمد بن حسن نے ایک ہزار درہم کا قیمتی جوڑا مجھے پہنایا اوراپنے کتب خانے سے امام ابوحنیفہ کی تالیف الکتاب الأوسط نکال لائے۔ میں نے کتاب اُلٹ پلٹ کے دیکھی اور رات کو اسے یاد کرنا شروع کردیا۔ صبح ہونے سے پہلے ہی پور ی کتاب حفظ تھی ، مگر محمد بن حسن کو اس کی ذرا خبر نہ ہوئی ...!

محمد بن حسن کوفے میں سب سے بڑے مفتی تھے۔ ایک دن میں ان کے دائیں طرف بیٹھا تھا کہ ایک مسئلے کا فتویٰ پوچھا گیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ امام ابوحنیفہ نے یہ یہ کہا ہے۔میں بول اُٹھا:'' آپ سے سہو ہوگیا ہے۔ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ کا قول وہ نہیں ، یہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ نے اپنی کتاب میں اس مسئلے کا ذکر فلاں مسئلے کے نیچے اورفلاں مسئلے کے اوپر کیا ہے!'' محمد بن حسن نے فوراًکتاب منگوا کر دیکھی، تومیری بات بالکل ٹھیک نکلی۔ اُنہوں نے اسی وقت اپنے جواب سے رجوع کیا ، لیکن اس واقعہ کے بعد اورکوئی کتاب مجھے نہ دی!

کچھ دن بعد میں نے سفر کی اجازت چاہی توفرمانے لگے: '' میں اپنے کسی مہمان کو جانے کی اجازت نہیں دیتا۔'' پھر کہا:'' میرے پاس جو مال ودولت موجود ہے ، اس میں سے آدھا تم لے لو!''میں نے جواب دیا: ''یہ بات میرے مقاصد و اِرادے کے خلاف ہے۔ میر ی خوشی صرف سفر میں ہے۔'' اس پر اُنہوں نے اپنے صندوق کی سب نقدی منگائی۔ تین ہزار درہم نکلے۔ سب میرے حوالے کردیے اورمیں نے بلادِ عراق و فارس کی سیاحت شروع کردی۔ لوگوں سے ملتا جلتا رہا ، یہاں تک کہ میری عمر اکیس برس ہو گئی۔

خلیفہ ہارون الرشید سے ملاقات
پھر میں ہارون الرشید کے زمانے میں دوبارہ عراق آیا ۔بغداد کے پھاٹک میں قدم رکھاہی تھا کہ ایک شخص نے مجھے روکا اور نرمی سے کہنے لگا: آپ کا نام ؟ میں نے کہا: محمد۔ کہنے لگا، باپ کا نام ؟ میں نے کہا: ادریس شافعی۔ کہنے لگا :آپ ُمطلبی ہیں ؟ میں نے اقرار کیا ، توجیب سے ایک تختی نکالی اور میرا بیان اس میں قلم بند کرکے مجھے چھوڑ دیا۔

میں ایک مسجد میں پہنچا اور سوچنے لگا، اس آدمی نے جو کچھ لکھا ہے،دیکھنا چاہیے۔ اس کا انجام کیاہو گا؟ آدھی رات کے بعد پولیس نے مسجد پر چھاپہ مارا اورہر ہر آدمی کوروشنی میں دیکھنا شروع کیا۔ آخر میری باری آئی ، اورپولیس نے پکار کر لوگوں سے کہا: '' ڈرنے کی بات نہیں ، جس آدمی کی تلاش تھی ، مل گیا ہے!'' پھر مجھ سے کہا:'' امیر المؤمنین کے حضور چلو!''

میں نے پس وپیش نہں کیا اور فوراً اُٹھ کھڑا ہوا اورجب شاہی محل میں امیر المؤمنین پر میری نظر پڑی توصاف مضبوط آواز میں اُنہیں سلام کیا: امیر المؤمنین کو میرا انداز پسند آیا۔ سلام کا جواب دیا اور فرمایا: تم کہتے ہو کہ ہاشمی ہو؟ میں نے جواب دیا:'' امیر المؤمنین!ہر دعویٰ کتاب اللہ میں باطل ہے !'' امیر المؤمنین نے میرا نسب پوچھا ۔ میں نے بیان کردیا بلکہ آدم ؑتک پہنچا دیا۔ اس پر امیر المؤمنین کہنے لگے: ''بے شک یہ فصاحت وبلاغت ، اولادِ مطلب ہی کا حصہ ہے! بتاؤ کیا تم پسند کروگے مسلمانوں کا قاضی بناکر تمہیں اپنی سلطنت میں شریک کر لوں اور تم سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراجماعِ اُمت کے مطابق اپنا اور میرا حکم چلایا کرو؟۔ '' میں نے جواب دیا: سلطنت میں شرکت کے ساتھ صبح سے شام تک بھی قاضی بننا مجھے منظور نہیں !'' یہ سن کر امیر المؤمنین رو پڑے پھر فرمایا: ''دنیا کی اورکوئی چیز قبول کرو گے ؟'' میں نے کہا: جوکچھ جلد مل جائے، قبول کروں گا۔''اس پر خلیفہ نے ایک ہزار درہم کا حکم دیا اور یہ رقم مجھے رخصت ہونے سے پہلے ہی مل بھی گئی۔

واپسی پر خلیفہ کے غلام اور پیش خدمت دوڑپڑے۔ مجھے گھیر لیا اور کہنے لگے: '' اپنے انعام میں سے ہمیں بھی کچھ دیجئے ۔ مروّت نے اجازت نہ دی کہ خدا کا فضل مجھ پر ہوا تھا ، اس میں دوسروں کو شریک نہ کروں ۔ میں نے رقم کے برابر برابر اتنے حصے کیے ، جتنے آدمی تھے ۔سب کو بانٹنے کے بعد مجھے بھی اتنا ہی ملا، جتنا ہر ایک کو میں نے دیا تھا...!

'کتاب الزعفران' کی تالیف
میں پھر اسی مسجد میں لوٹ آیا جس میں اُترا تھا ۔ صبح کو ایک نوجوان نے نماز کی امامت کی۔ اس کی قراء ت تو اچھی تھی مگر علم کم تھا۔ نماز میں سہو ہوگیا، مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے ۔ میں نے کہا: بھائی! تم نے ہماری اوراپنی، سب کی نماز خراب کردی ۔ نوجوان نے پھر سے نماز پڑھائی۔ اب میں نے اس سے کہا : کاغذ اورقلم دوات لے آؤ ۔ میں تمہارے لئے باب السہو لکھ دوں ، وہ فوراً سب سامان لے آیا ۔ اللہ تعالیٰ نے میرا ذہن کھول دیا اورمیں نے کتاب وسنت اوراجماعِ اُمت کے مطابق ایک کتاب لکھ دی۔کتاب کا نام اسی شخص کے نام پر ' کتاب الزعفران' رکھا۔ یہ کتاب چالیس جز میں پوری ہوئی ہے۔

اب مجھے تین برس اور ہوچکے تھے۔ ہارون الرشید نے اصرار کیا اور مجھے نجران کی زکوٰةکا تحصیل دار بنا دیا تھا۔ اسی اثنا میں حاجی حجازسے لوٹے، میں ان سے امام مالک اور اپنے وطن کے حالات معلوم کرنے چلا۔ ایک نوجوان دکھائی دیا۔ وہ اونٹ پر قبے میں بیٹھا تھا۔ میں نے اشارے سے سلام کیا ۔اس نے شتربان کو اونٹ روکنے کا حکم دیا اورمجھ سے مخاطب ہوگیا ۔ میں نے امام مالک اورحجاز کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ کہنے لگا: سب ٹھیک ہے، میں نے امام مالک کے بارے میں دوبارہ سوال کیا، کہنے لگا:''تفصیل کروں یا مختصر جواب دوں ؟'' میں نے کہا: اختصار ہی میں بلاغت ہوتی ہے۔ کہنے لگے: تو سنو ''امام مالک تندرست اور بہت دولت مند ہوگئے ہیں !''یہ سن کر مجھے شوق ہواکہ فقروفاقے میں تودیکھ چکا ہوں ، اب امام مالک کومال ودولت میں بھی دیکھنا چاہیے۔ میں نے نوجوان سے کہا: کیا تمہارے پاس اتنا روپیہ ہے کہ میرے سفر کی ضرورتیں پوری ہوجائیں ؟'' اس نے جواب دیا: '' آپ کی جدائی ، عراق والوں پر عام طور سے اور مجھ پر خاص طور سے بہت شاق ہو گی، مگر میرے پاس جو کچھ ہے، اسے اپنا ہی سمجھ کے لے لیجئے !'' میں نے کہا: سب مجھے دے دو گے ، تو تم خود کس طرح زندگی بسر کروگے ؟ کہنے لگے: '' اپنی حاجت واثر سے'' یہ کہہ کر اس نے مجھے بڑے غور سے دیکھا اورکہا: ''سب نہیں لیتے تو جتنا چاہیے، لے لیجئے !'' میں نے ضرورت بھر لے لیا اورعلاقہ ربیعہ کی راہ لی۔

حجام کی بدسلوکی
جمعہ کے دن میں حران پہنچا اورفضیلت ِغسل یاد آگئی ، حمام گیا ، مگر جب پانی اُنڈیلا تو خیال آیا ، سرکے بال چپک کراُ لجھ گئے ہیں ۔ حجام کو طلب کیا ۔ تھوڑے بال کاٹنے پایا تھا کہ حمام میں شہر کا کوئی امیر آدمی آگیا اورحجام کو اس خدمت کے لئے یاد کیا گیا۔ حجام نے مجھے وہیں چھوڑ دیا اورامیر آدمی کے پاس دوڑ گیا۔ پھر جب اس سے چھٹی پائی تو میرے پاس واپس آیا۔ میں نے حجامت درست کرانے سے انکار کر دیا، مگر جب حمام سے جانے لگا تو میرے پاس جو دینا ر موجود تھے، ان میں سے اکثر حجام کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا: یہ لے لو، مگر خبر دار! کبھی کسی پردیسی کو حقیر نہ سمجھنا!'' حجام نے بڑی حیرت سے مجھے دیکھا۔ فوراً حمام کے دروازے پر ایک بھیڑ لگی گئی اور لوگ مجھے ملامت کرنے لگے کہ اتنی بڑی رقم حجام کو کیوں دے دی!

یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ شہر کا ایک اور امیر آدمی ، حمام سے نکلا۔ اس کے سامنے سواری حاضر کی گئی، مگر میں بھیڑ کے سامنے تقریر کر رہاتھا ، اس کے کان میں بھی پڑ گئی۔ سوار ہو چکا تھا ، لیکن اُتر پڑا اور مجھ سے کہنے لگا: '' آپ شافعی ہیں ؟'' میں نے اقرار کیا تو امیر آدمی نے سواری کی رکاب میرے قریب کر دی اور عاجزی سے کہنے لگا:'' براے خدا ، سوار ہوجائیے!'' میں سوار ہوگیا۔ غلام سر جھکائے آگے آگے چل رہا تھا ، یہاں تک کہ امیر کا گھر آ گیا۔

امیرنے دولت پیش کردی
تھوڑی دیر میں خود امیر بھی آپہنچا اوربڑی سعادت ظاہر کی۔ پھر دستر خوان بچھ گیا اورہمارے ہاتھ دھلائے گئے ، مگر میں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا۔ امیر کہنے لگا : کیوں کیا بات ہیـ؟ میں نے جواب دیا : کھانا مجھ پر حرام ہے، جب تک یہ نہ بتا دو کہ تم نے مجھے پہچانا کیسے؟ امیرنے کہا :'' بغداد میں آپ نے جوکتاب لکھ کر سنائی تھی، اس کے سننے والوں میں ایک میں بھی تھا، اس طرح آپ میرے اُستاد ہیں ۔ '' یہ سن کر میں نے کہا:، علم دانشمندوں کا کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ پھر میں نے ایسی خوش دلی سے کھانا کھایا کہ خدا جانتا ہے ، اپنے جیسے اہل علم کے ساتھ کھانے ہی میں وہ خوشی نصیب ہو سکتی ہے!

میں تین دن اس شخص کا مہمان رہا۔ چوتھے دن اس نے کہا: '' حران کے اطراف میں میرے چار گائوں موجود ہیں اور یہ گائوں ایسے ہیں کہ پورے علاقے میں ان کی نظیر نہیں ۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ آپ یہاں رہ جائیں ، توسب گاؤں آپ کی خدمت میں ہدیہ ہیں !'' میں نے جواب دیا: سب گاؤں مجھے دے دو گے توخود تمہاری بسر کیسے ہوگی ؟ کہنے لگا:''آپ وہ صندوق دیکھتے ہیں ( اور اس نے صندوقوں کی طرف اشارہ کیا)۔ ان میں چالیس ہزار درہم موجود ہیں ، اس رقم سے میں کوئی تجارت کر لوں گا!'' میں نے کہا:لیکن خود مجھے یہ منظور نہیں ۔ میں نے اپنا وطن محض تحصیل علم کے لئے چھوڑا ہے، نہ کہ دولت کمانے کے لئے ! وہ کہنے لگا: یہ تو سچ ہے، مگر مسافر کو روپیہ کی ضرورت ہوتی ہی ہے، گاؤں نہ سہی ، نقد ہی قبول کر لیجئے!''

اس پر میں نے چالیس ہزار کی وہ پور ی رقم لے لی۔ اسے خدا حافظ کہا اورحران سے اس حال میں روانہ ہوا کہ آگے پیچھے اونٹ لدے جا رہے تھے۔ رستے میں اصحابِ حدیث ملے، ان میں امام احمد بن حنبل ، سفیان بن عیینہ اور اوزاعی بھی تھے۔ میں نے ہر ایک کو اس قدر دیا ، جتنا اس کے مقدر میں تھا۔

امام مالک کی امارت
جب میں شہر رملہ پہنچا تو میرے پاس اس چالیس ہزا ر میں سے صرف دس دینار باقی تھے۔ میں نے کرائے پر سواری لی اورحجاز کو روانہ ہوگیا۔ منزلوں پر منز لیں طے کرتا ہوا آخر ستائیسویں دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر ( مدینہ) پہنچ گیا۔ نمازِ عصر کے بعدمیرا داخلہ ہوا تھا۔مسجد میں نماز پڑھی۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ لوہے کی ایک کرسی مسجد میں رکھی ہے۔ کرسی پر بیش بہا قباطی مصر کا تکیہ جما ہواہے اورتکیے پر لکھا ہے:'' لا إلہ إلا اﷲ محمد رسو ل اﷲ''!

میں ابھی یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ مالک بن انس باب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آتے دکھائی دئیے۔ پوری مسجد عطر سے مہک اُٹھی۔ امام مالک کے ساتھ چار سو یا اس سے بھی زیادہ کا مجمع تھا۔ چار آدمی ان کے جبے کے دامن اُٹھائے چل رہے تھے۔ امام مالک اپنی مجلس پرپہنچے تو بیٹھے ہوئے سب آدمی کھڑے ہو گئے۔

امام مالک کرسی پربیٹھ گئے اورجراحِ عمد کا ایک مسئلہ پیش کیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اورمیں نے قریب کے آدمی کے کان میں کہا: اس مسئلے کا یہ جواب ہے۔اس شخص نے میرا بتایا ہوا جواب اونچی آواز سے سنا دیا، مگر امام مالک نے اس کی طرف مطلق توجہ نہ کی اور شاگردوں سے جواب کے طالب ہوئے۔ شاگردوں کے سب جواب غلط تھے۔ امام مالک نے کہا: تم غلطی پر ہو۔ پہلے ہی آدمی کا جواب صحیح ہے! یہ سن کر وہ جاہل بہت خوش ہوا کہ امام مالک نے دوسرا مسئلہ پیش کیا۔ جاہل میری طرف دیکھنے لگا ۔ میں نے پھر جواب بتا دیا۔ اس دفعہ بھی امام مالک کے شاگرد صحیح جواب نہ دے سکے اور اس جاہل کی زبانی میرا ہی جواب ٹھیک نکلا!

تب تیسرے مسئلے پر بھی یہی صورت پیش آئی تو امام مالک اس جاہل کی طرف متوجہ ہوئے اورکہا: یہاں آئو وہ جگہ تمہاری نہیں ہے! ''آدمی ، امام مالک کے پاس پہنچا ، تو اُنہوں نے سوال کیا :'' تم نے موطأ پڑھی ہے ؟'' جاہل نے جواب دیا: نہیں ۔ امام مالک نے پوچھا: '' ابن جریج کے علم پر تمہاری نظر ہے؟'' اس نے پھرکہا: نہیں ۔ امام مالک نے پوچھا: جعفر بن محمد صادق سے ملے ہو۔ کہنے لگا: نہیں اب تو امام مالک کو تعجب ہوا۔ کہنے لگے: '' پھر یہ علم تمہیں کہاں سے ملا۔'' جاہل نے جواب دیا:'' میری بغل میں ایک نوجوان بیٹھا تھا اور وہی مجھے ہر مسئلے کا جواب بتا رہا تھا!''

اب تو امام مالک نے میری طرف گردن پھیری دوسروں کی گردنیں بھی اُٹھ گئیں اور امام مالک نے اس جاہل سے کہا: جائو اورنوجوان کو میرے پاس بھیج دو۔ '' میں امام مالک کے پاس پہنچا اور اسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے جاہل اٹھا تھا ۔ وہ بڑے غور سے مجھے دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا ''شافعی ہو؟'' میں نے عرض کیا ، جی ہاں شافعی ہوں ! امام مالک نے مجھے گھسیٹ کر سینے سے لگایا۔ پھر کرسی سے اُتر پڑے اورکہا:'' علم کا جو باب ہم شروع کر چکے ہیں ، تم اسے پورا کر و۔'' میں نے حکم کی تعمیل کی اورجراحِ عمد کے چار سو مسئلے پیش کئے، مگر کوئی بھی جواب نہ دے سکا !

امام مالک کی سیر چشمی
اب سورج ڈوب ہوچکا تھا، ہم نے مغرب کی نماز پڑھی اور امام مالک نے میر ی طرف پیٹھ ٹھونکی ۔ پھر اپنے گھر لے گئے ، پرانے کھنڈر کی جگہ اب نئی عمارت کھڑی تھی۔ میں بے اختیار رونے لگا۔ یہ دیکھ کر امام مالک نے کہا: '' ابوعبد اللہ! تم روتے کیوں ہو؟ شاید سمجھ رہے ہو کہ میں نے دنیا کے چلتے آخرت تج دی ہے!'' میں نے جواب دیا:'' جی ہاں یہی اندیشہ دل میں پیدا ہوا تھا۔'' کہنے لگے: '' تمہارا دل مطمئن رہے ! تمہاری آ نکھیں ٹھنڈی ہوں ! یہ کچھ جو دیکھ رہے ہو ہدیہ ہے خراسان سے، مصر سے، دنیا کے دور دور گوشوں سے ہدیوں پر ہدیے چلے آرہے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرمالیتے تھے اورصدقہ ردّ کر دیتے تھے۔ میرے پاس اس وقت خراسان اورمصر کے اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑوں کے تین سو خلعت موجود ہیں ۔ غلام بھی اتنے ہی ہیں اور معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اب یہ سب میری طرف سے تمہارے لئے ہدیہ ہے! صندوقوں میں پانچ ہزار دینار رکھے ہیں ، اس کی سالانہ زکوٰة نکالتا ہوں ۔ اس میں سے بھی آدھی رقم تمہاری ہے!''

میں نے کہا:'' دیکھئے، آپ کے بھی وارث موجود ہیں اور میرے بھی وارث زندہ ہیں ۔ آپ نے جو کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے ، اس کی تحریر ہوجانا چاہئے۔ تحریر سے میری ملکیت مسلم ہوجائے گی۔ اگر میں مر گیا تو اس سب کو آپ کے وارث نہ لے سکیں گے بلکہ میرے وارثوں کو مل جائے گا۔ اسی طرح خدا نخواستہ آپ کی وفات ہوگئی ، تو بھی یہ آپ کی وارثوں کا نہیں ، میرا ہوجائے گا!''

یہ سن کر امام مالک مسکرائے اور فرمایا: یہاں بھی علم ہی سے کام لیتے ہو؟میں نے جواب دیا: علم کے استعمال کا اس سے بہتر موقعہ اورکیاہوسکتا ہے! امام مالک نے رات ہی میں تحریر مکمل کر دی۔

امام مالک کا تقویٰ
صبح میں نے نماز جماعت سے پڑھی اورمسجد سے ہم اس حال سے گھر لوٹے کہ میرا ہاتھ امام مالک کے ہاتھ میں تھا اورامام مالک کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ۔ دروازے پر کیا دیکھتاہوں کہ خراسانی گھوڑے اورمصر ی خچر کھڑے ہیں ، گھوڑوں کی کونچیں ،کیا بتائوں کیسی حسین تھیں کہ میرے منہ سے نکل گیا: '' ایسے خوبصورت پائوں تو میں نے کبھی دیکھے نہیں !'' امام مالک نے فوراً جواب دیا: '' یہ سب سواریاں بھی تمہارے لئے ہدیہ ہیں !'' میں نے عرض کیا: '' کم سے کم ایک جانور تو اپنے لئے رہنے دیجئے۔ اس پر امام مالک نے جواب دیا '' مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ اس زمین کو میری سواری اپنی ٹاپوں سے روندے جس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں !'' یہ سن کر مجھے یقین ہوگیا کہ دولت کی اس بہتات میں بھی امام مالک کا تقویٰ بدستور باقی ہے!

وطن کو واپسی
تین دن امام مالک کے گھر قیام رہا۔ پھر میں مکہ کو روانہ ہوگیا، مگر اس حال سے کہ خدا کی بخشی ہوئی خیر وبرکت اورمال ومتاع سے بوجھ آگے آگے جار ہے تھے۔ میں نے ایک آدمی پہلے سے مکے بھیج دیا تھا کہ واپسی کی خبر پہنچا دے۔ اسی لئے جب حدودِ حرم پر پہنچا تو بوڑھی والدہ کچھ عورتوں کے ساتھ دکھائی دیں ۔ والدہ نے مجھے گلے لگایا۔ پھر ایک اور بڑھیا نے یہی کہا۔ میں اس بی بی سے مانوس تھا اور اسے خالہ کہا کرتا تھا ۔ بڑھیا نے مجھے چمٹاتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
ما أمک اجتاحت المنایا کــل فــؤاد علیــک أمّ
''موت تیری ماں کو بہا نہیں لے گئی۔ مامتا میں ہر دل تیرے لئے ماں ہی ہے''

یہ پہلا بول تھا جو مکے کی سرزمین پر میرے کانوں نے سنا۔ پھر میں نے آگے بڑھنا چاہا مگر والدہ کہنے لگیں :'' کہاں ؟'' میں نے کہا: گھر چلیں ۔ والدہ نے جواب دیا:'' ہیہات! کل تو مکے سے فقیر کی صورت گیا تھا اور آج امیر بن کے لوٹا ہے۔ تاکہ اپنے چچیرے بھائیوں پر گھمنڈ کرے!''میں نے کہا: پھر آپ ہی بتائیں کیا کروں ؟ کہنے لگیں :'' منادی کر دے کہ بھوکے آئیں اورکھائیں ،پیدل آئیں اورسواری لے جائیں ! ننگے آئیں اورکپڑا پہن جائیں ! اس طرح دنیامیں بھی تیر ی آبرو بڑھے گی اورآخرت کا ثواب اپنی جگہ رہے گا!''

میں نے اماں کے حکم پر عمل کیا، اس واقعہ کی شہرت دور دور پھیلی ۔ امام مالک نے بھی سنا اور میری ہمت افزائی کی، کہلا بھیجا '' جتنا دے چکا ہوں ، اتنا ہی ہر سال تمہں بھیجتا رہوں گا!''

مکے میں میرا داخلہ اس حال میں ہوا کہ ایک خچر اورپچاس دینار کے سوا اس دولت میں سے میرے پاس کچھ باقی نہ تھا جو ساتھ آئی تھی۔ راہ میں اتفاق سے کوڑا میرے ہاتھ سے گرپڑا۔ ایک کنیز نے جس کی پیٹھ پر مشک تھی، لپک کے اُٹھا لیا اورمیر ی طرف بڑھایا ۔ میں نے اس کے لئے پانچ دینار نکالے۔ یہ دیکھ کر والدہ نے کہا'' یہ تو کیا کر رہاہے ؟'' میں نے کہا: '' عورت کو انعام دینا چاہتا ہوں ۔ ماں نے کہا: '' جوکچھ تیرے پاس ہے ، سب دے دے!''

میں نے یہی کیا اورمکے میں پہلی رات بسر کرنے سے پہلے ہی میں مقروض ہو گیا۔''لیکن امام مالک میرے پاس وہ سب بھیجتے رہے جو مدینے میں اُنہوں نے مجھے دیا تھا۔ گیارہ برس یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر جب امام مالک کا انتقال ہو گیا توحجاز کی سرزمین مجھ پرتنگ ہوگئی اورمیں مصر چلا آیا۔ یہاں خدا نے عبد اللہ بن حکم کو میرے لئے کھڑا کر دیا اور وہ میری تمام ضرورتوں کے کفیل ہو گئے۔

یہ ہے سب میرے سفر کی روداد، اے ربیع تو اسے اچھی طرح سمجھ...!
جامع بیان العلم وفضلہ
 مترجم: مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی:
صفحہ 264 تا 279 طبع ادارئہ اسلامیات، لاہور