Wednesday, July 27, 2016

افسران شاہی اور دیہاتی لڑاکے


نواب حافظ رحمت خاں ہندوستان کے اُن نیک اور نامور حکمرانوں میں سے تھے جو اپنی بہادری اور انصاف پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ نواب صاحب کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ اُن کی حکومت میں سارے کام خداترسی کے ساتھ شریعت کے مطابق ہوں۔ جن لوگوں نے نواب صاحب کی تاریخ لکھی ہے وہ سب گواہ ہیں کہ حافظ صاحب کے عہدِحکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔

ایک روز حافظ صاحب کے صاحبزادے حافظ محمدیارخان پبلی بصیت کے جنگل میں شکار کو گئے۔ جنگل کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں اور ہاتھی گھوڑوں کو تو گائوں میں چھوڑا۔ صرف محمدخاںخلجی کو ساتھ لیا۔ یہ سردار شکار میں بڑا ماہر تھا۔ ابھی جنگل میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ کچھ ہرن دکھائی دیے۔ ان کا پیچھا کیا۔ قریب پہنچے تو حافظ محمدیارخاں ایک جگہ گھات میں بیٹھے اور محمدخاںخلجی کو حکم دیا کہ ہرنوں کو گھیر کر سامنے لائو۔

محمدخاں خلجی چلا تو اُس وقت گائوں کا ایک شخص اُس طرف آنکلا۔ محمدخاں نے اُسے ہرنوں کی طرف جانے سے منع کیا لیکن وہ نہ مانا۔ آگے بڑھتا چلا گیا۔ اُس کے پائوں کی آہٹ پا کر ہرن بھاگ گئے اور آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ محمدخاں کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے گنوار کو گالی دی اور کہا ’’تجھ کو کیا ہوگیا تھا کہ تو نے میری بات نہیں سنی اور میرا شکار نکال دیا۔‘‘

گالی کے جواب میں گنوار نے بھی گالی دی اور بولا ’’میں تیرے واسطے اپنا راستہ کیوں چھوڑ دیتا؟‘‘ اس جواب پر محمدخاں نے اُس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ وہ طمانچہ کھا کر بھاگا اور اپنے سات آدمیوں کو بلالایا اور ان کی کمک پا کر محمدخاں کے سر پر لاٹھی دے ماری۔ محمدخاں فوجی سردار اور بڑا قوی آدمی تھا۔ زخم کھا کر اس سے لپٹ گیا اور دے پٹکا۔ اُسی وقت حافظ محمدیار خاں بھی آگئے۔ لڑائی کا یہ رنگ دیکھا تو چھری محمدخاں کے ہاتھ میں تھما دی۔ محمدخاں کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر دوسرے دیہاتی لاٹھیاں لے کر پل پڑے اور لڑنے لگے۔

یہ دونوں بہترین سپاہی تھے۔ سات آٹھ آدمیوں کو خاطر میں کیا لاتے۔ لیکن لاٹھیوں کی چوٹوں سے نہ بچ سکے۔ لڑ ہی رہے تھے کہ حافظ محمدخاں کے سوار اور پیادے اُن کو ڈھونڈتے ہوئے آگئے۔ گائوں والوں نے لشکری آدمیوں کو دیکھا تو سمجھے کہ یہ دونوں یا تو شہزادے ہیں یا بڑے آفیسر۔ اب وہ سر پر پائوں رکھ کر بھاگے۔ جنگل میں گھس کر اِدھر اُدھر چھپ گئے۔ حافظ محمدیارخاں نے اپنے آدمیوں کی مدد سے ان کو تلاش کرایا مگر ایک بھی ہاتھ نہ لگا۔ مجبور ہو کر ساتوں دیہاتیوں کی بیل گاڑیاں جو قریب ہی تھیں اور ایندھن سے لدھی تھیں۔

کھینچ کر پبلی بصیت لے گئے۔ تیسرے چوتھے دن دیہاتی ملک سیرخاں گورنر پبلی بصیت کے پاس پہنچے اور درخواست دی کہ کوئی شخص ہماری گاڑیاں جنگل سے ہانک کر پبلی بصیت لے آیا ہے۔ گورنر نے پوچھا تم پہچانتے ہو؟ بولے ’’جی ہاں۔ مگر ہم ملزموں کے بارے میں نواب صاحب کے سامنے کچھ عرض کریں گے۔‘‘ ملک صاحب نے مقدمہ درج کرکے نواب صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔ وہاں سے ان سب کی طلبی ہوئی تو فریاد کی کہ حضور کے صاحبزادوں میں سے کوئی ہماری گاڑیاں اور بیل جنگل سے لے آیا ہے۔

نواب صاحب نے وجہ پوچھی تو دیہاتی گھبرائے اور سوچا کہ قصور تو اپنا ہے وہ کچھ کہہ نہ سکے۔ نواب صاحب نے اطمینان دلایا کہ پورا پورا انصاف کیا جائے گا۔ گھبرائو نہیں۔ مگر دیہاتی انصاف کا نام سُن کر بوکھلا گئے تو جان بخشی کی درخواست کے بعد پورا حال سچ سچ کہہ دیا۔ نواب صاحب نے حکم دیا کہ بیل گاڑیاں معہ سامان اور ملزم حاضر کیا جائے۔ اس حکم کے بموجب حافظ محمدیار خاں عدالت میں حاضر ہوئے تو نواب صاحب نے بیٹے کو ڈانٹا اور کہا ’’تم ان بے گناہوں کا مال کیوں چھین لائے؟‘‘
بیٹے نے عرض کیا ’’حضور! اس کا سبب ان سب سے پوچھ لیا جائے ۔‘‘ اور پھر اپنے زخم دکھائے۔ محمدخاں خلجی نے بھی اپنا سر اور کندھا کھول کر دکھایا۔

دیہاتیوں کی زیادتی ثابت ہوگئی لیکن نواب صاحب نے فیصلہ سنایا: ’’ان بے چارے بے خبر لوگوں کا کوئی قصور نہیں۔ تم خود اس کے ذمہ دار ہو۔ خبردار پھر کبھی ایسی جرأت نہ کرنا۔ چونکہ یہ دیہاتی بے خبر تھے اس لیے ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوسکتا۔ جائو ان کی بیل گاڑیاں اور سامان واپس کردو اور انہیں راضی کرکے خوش کرو۔‘‘ حافظ محمدیارخاں اور محمد خاں خلجی نے یہ فیصلہ غنیمت سمجھا اور بہت کچھ دے دلا کر راضی نامہ داخل کردیا۔ دیہاتی خوشی خوشی لوٹ گئے۔

بدلہ

بدلہ

ہندوستان میں شیرشاہ نام کا ایک ایسا بادشاہ گزرا ہے جس کے احسانوں کو ہندوستان کے لوگ رہتی دنیا تک نہ بھولیں گے۔ وہ بڑا بہادر، نہایت سمجھدار، انصاف پسند اور منتظم بادشاہ ہوا ہے۔ اُس نے رعایا کی بھلائی کے لیے بڑے بڑے کام کیے اور ایسے قوانین بنا گیا کہ آج تک یہاں کی حکومت اُن سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ انصاف کرنے میں تو اس کا یہ حال تھا کہ اُس کے بیٹے بھی اُس سے کانپا کرتے تھے۔

ایک بار اُس کا بیٹا عاقل خاں ہاتھی پر سوار جارہا تھا۔ راستے میں ایک بنیے کا گھر پڑتا تھا۔ بنیے کے گھر کی دیواریں نیچی تھیں۔ بنیے کی بیوی اُس وقت نہا رہی تھی۔ شہزادے نے اُسے دیکھا تو شرارت سوجھی۔ اُس نے پان کی گلوری عورت پر پھینکی اور ہنستا ہوا چلا گیا۔ گلوری عورت پر گری تو اُس نے اوپر دیکھا۔ ہاتھی پر شہزادے کو دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ شرم کے مارے اُس نے چاہا کہ چھُری سے اپنا خاتمہ کرلے۔ بنیے نے روکا اور کہا گھبرانے کی بات نہیں میں بادشاہ کے پاس جاتا ہوں بادشاہ بڑا خداترس اور رعایاپرور ہے۔ انصاف کے معاملے میں وہ کسی کی رعایت نہیں کرتا۔ میں بھی اپنی بے عزتی کا بدلہ شہزادے سے لیتا ہوں۔

بیوی کو سمجھا بجھا کر بنیے نے بادشاہ سے فریاد کی۔ شہزادے پر مقدمہ ہوگیا۔ عدالت کے سامنے بنیے نے ساری کہانی سُنائی۔ شیرشاہ نے شہزادے کی طرف دیکھا اور ڈانٹ کر کہا کمبخت تو خدا کے غضب سے نہیں ڈرتا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ بنیا ہاتھی پر سوار ہو اور شہزادے کے محل کی طرف گزرے۔ شہزادے کی بیوی کو اس کے سامنے کیا جائے اور بنیا اُس پر پان کا بیڑا پھینکے۔

اب دربار میں ہل چل مچ گئی۔ بادشاہ کے امیروں، وزیروں نے بادشاہ کو بہت سمجھایا کہ یہ سزا مناسب نہیں۔ اگر شہزادے کو سزا دینی ہی ہے تو دوسری سزا دی جائے۔ لیکن شیرشاہ اپنے فیصلے پر اڑ گیا۔ اُس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ جواب دیا کہ میری نظر میں راجا اور پرجا سب برابر ہیں۔ فیصلہ اب بدلا نہیں جاسکتا۔ بادشاہ کا یہ فیصلہ سُن کر بنیے کا یہ حال ہوا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔ ’’مائی باپ! بس میرا انصاف ہوگیا۔ میں اپنے دعوے سے ہاتھ اُٹھاتا ہوں۔‘‘

بنیے کی بات سُن کر بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ حکم دیا کہ اُسے خوش کردو۔ پھر اشرفیوں کی تھیلیاں اُسے دیں۔ امیروں، وزیروں نے بھی اپنے پاس سے انعام دیا۔

Sunday, July 17, 2016

پھانسی کا قیدی

پس دیوار زنداں ، از شورش کاشمیری سے ایک اقتباس 

مجھے پھانسی پانے والے قیدیوں سے خاصی دل چسپی رہی ، میں ان سے طرح طرح کے سوالات پوچھتا رہا ، میرے سامنے کوئی پانچ چھ سو قیدی تختہ دار پر لٹکے ہوں گے، ان میں صرف دو بے گناہ تھے، ایک نے کہا کہ اس نے کوءی قتل نہیں کیا، جس میں وہ پھانسی لگ رہا ہے، البتہ اس سے پہلے وہ ایک قتل کر چکا ہے، لیکن اس میں رہا ہو گیا تھا، دوسرا پھانسی کے تختہ پر چلا چلا کر کہتا رہا میں بے گناہ ہوں، گواہ رہنا میں بے گناہ ہوں ، میں نے قتل نہیں کیا ، تھانیدار نے قاتلوں سے رشوت لے کر مجھے پھانسی لگوا دی ہے، میں بے گناہ ہوں ، باقی جتنے قیدی بھی میرے سامنے پھانسی پاتے رہے میں ان کے ہاتھوں کی ریکھا بھی دیکھتا رہا اور پوچھتابھی رہا ، وہ تسلیم کرتے تھے کہ وہ ناحق پھانسی نہیں پا رہے، انہوں نے قتل کیا ہے، عام طور پر قتل کے محرکات میں ذاتی عداوتیں ، خاندانی بدلے ، ڈاکہ اور اسی قسم کے دوسرے اسباب مضمر ہوتے ہیں ۔ اپنی ذات سے باہر کسی عشق یا مقصد کے لیے شاذ ہی کوءی جان دیتا ہے ،
اسی صوبہ کے ایک قصبہ پلول میں ایک ہندو سرکاری سرجن تھا، جس نے اپنے گدھے کا نام ( خاکم بدہن ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر رکھا تھا، ایک مسلمان نوجوان نے اسے قتل کر ڈالا ۔ 
عدالت نے اسے سزائے موت کا حکم سنایا جو آخر تک بحال رہا، اس کے پھانسی پانے کے ایک دن  پہلے میں اسے ملا، وہ چھریرے بدن کا ایک خوبصورت نوجوان تھا، بڑا مطمئن تھا، مطلقا پشیمان یا ہراساں نہ تھا، اسے یقین تھا کہ وہ بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہو رہا ہے، چنانچہ بڑی جواں مردی کے ساتھ دار کے تختہ پر گیا ، بڑے اطمینان کے ساتھ جان دی ، مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ ابی و امی ) سے جو عشق ہے ، اور اسلام کے آثار و مظاہر سے جو محبت ہے وہ شاید ہی کسی پیرو مذبب کو اپنی ہادی یا مذہب سے ہو ، 
مسلمانوں نے ١٨٥٧ سے لے کر تحریک خلافت ١٩٢٠ تک ذوق و شوق سے دار و رسن کو لبیک کہا ، اور جواں مردی کے بڑے بڑے نشان چھوڑے ، اس کے بعد بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد شہید گنج کے انہدام پر ( رہ نماؤں کے اغراض مشؤمہ سے قطع نظر ) نوجوانوں نے جس دلیری سے دو روز تک گولیاں کھائیں ، اور متواتر اڑتالیس اور ساتھ گھنٹے تک نورچہ باندھے رکھا بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ قرن اول کے غزوات ہی کا عکس تھا، 
ہم جہاد و قربانی کے جو معرکے کتابوں میں پڑھتے ہیں ، اس کی تصویر سے اس کی نظیر مختلف ہو جاتی ہے، کہ یہاں ایک طرف حکومت کے جبر واستعداد کا سر وسامان تھا، دوسری طرف نہتے نوجوانوں کا شوق شہادت جو انہیں کھنیچ کھینچ کے گولیوں کے سامنے لایا تھا ۔

Thursday, July 14, 2016

محمود غزنوی اور غزنوی سلطنت

محمود غزنوی (پیدائش 2 اکتوبر 971ء ، انتقال 30 اپریل 1030ء ) 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنت غزنویہ کا حکمران تھا۔ اس نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کردیا اور اس کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔ وہ تاریخ اسلامیہ کا پہلا حکمران تھا جس نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔
سلطنت غزنویہ 976ء سے 1186ء تک قائم ایک حکومت تھی جس کا دارالحکومت افغانستان کا شہر غزنی تھا۔ اس کا سب سے مشہور حکمران محمود غزنوی تھا جس نے ہندوستان پر 17 حملے کئے اور سومنات پر حملہ کرکے بطور بت شکن خود کو تاریخ میں امر کردیا۔   

جب سامانی حکومت کمزور ہوگئی اور اس کے صوبہ دار خودمختار ہوگئے تو ان میں ایک صوبہ دار سبکتگین (366ھ تا 387ھ) نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوب میں واقع شہر غزنی میں 366ھ میں ایک آزاد حکومت قائم کی جو تاریخ میں دولت غزنویہ اور آل سبکتگین کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بعد میں سبکتگین کا خراسان پر بھی قبضہ ہوگیا۔ اسی سبکتگین کے زمانے میں مسلمان پہلی مرتبہ درہ خیبر کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے ۔
اس زمانے میں لاہور میں ایک ہندو راجہ جے پال حکومت کرتا تھا اس کی حکومت پشاور سے آگے کابل تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کی سرحدیں سبکتگین کی حکومت سے ملی ہوئی تھیں۔ راجہ جے پال نے جب دیکھا کہ سبکتگین کی حکومت طاقتور بن رہی ہے تو اس نے ایک بڑی فوج لے کر غزنی پر حملہ کردیا لیکن لڑائی میں سبکتگین نے اس کو شکست دے دی اور جے پال کو گرفتار کرلیا گیا۔ جے پال نے سبکتگین کی اطاعت قبول کرکے اپنی جان بچائی اور سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا۔ اب سبکتگین نے جے پال کو رہا کردیا اور وہ لاہور واپس آگیا لیکن اس نے وعدے کے مطابق خراج نہیں بھیجا جس کی وجہ سے سبکتگین نے حملہ کردیا اور وادی پشاور پر قبضہ کرلیا۔
محمود غزنوی
سبکتگین کا 20 سال کی حکومت کے بعد انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا محمود غزنوی تخت پر بیٹھا۔ محمود خاندان سبکتگین کا سب سے بڑا بادشاہ ہوا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مشہور حکمرانوں میں سے ایک محمود ہندوستان پر 17 حملوں کے باعث شہرت کی بلندیوں پر پہنچا۔
محمود بچپن سے ہی بڑا نڈر اور بہادر تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ کئی لڑائیوں میں حصہ لے چکا تھا۔ بادشاہ ہونے کے بعد اس نے سلطنت کو بڑی وسعت دی۔ وہ کامیاب سپہ سالار اور فاتح بھی تھا۔ شمال میں اس نے خوارزم اور بخارا پر قبضہ کرلیا اور سمرقند کے علاقے کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے اس کی اطاعت قبول کرلی۔ اس نے پہلے بخارا اور سمرقند کاشغر کے ایلک خانی حکمرانوں کے قبضے میں تھے اور خوارزم میں ایک چھوٹی سے خودمختار حکومت آل مامون کے نام سے قائم تھی۔ جنوب میں اس نے رے، اصفہان اور ہمدان فتح کرلئے جو بنی بویہ کے قبضے میں تھے ۔ مشرق میں اس نے قریب قریب وہ تمام علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کرلیا جو اب پاکستان کہلاتا ہے ۔
محمود عدل و انصاف اور علم و ادب کی سرپرستی کے باعث بھی مشہور ہے۔ اس کے دور کی مشہور شخصیات میں فردوسی اور البیرونی کسی تعارف کے محتاج نہیں
زوال
محمود کے لڑکے مسعود کے آخری زمانے میں وسط ایشیا کے سلجوقی ترکوں نے غزنوی سلطنت کے شمال اور مغربی حصوں پر قبضہ کرلیا۔ اب سلاطین غزنی کے قبضے میں صرف وہ علاقے رہ گئے جو اب مشرقی افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ہیں۔
سلطان ابراہیم
دور زوال کے غزنوی حکمرانوں میں سلطان ابراہیم (451ھ تا 492ھ) کا نام سب سے نمایاں ہے ۔ اس نے اپنے 40 سالہ دور حکومت میں سلطنت کو مستحکم کیا، سلجوقیوں سے اچھے تعلقات قائم کئے اور ہندوستان میں مزید فتوحات حاصل کیں۔ اس کے عہد میں ہندوئوں نے مسلمانوں کو پنجاب سے بے دخل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ ابراہیم نے دہلی تک تمام علاقہ غزنی کی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس کی افواج نے بنارس تک کامیاب حملے کئے ۔
ابراہیم بڑا دیندار اور رعایا پرور حکمران تھا۔ رات کو غزنی کی گلیوں میں گشت کرتا اور محتاجوں اور بیوائوں کو تلاش کرکے ان کی مدد کرتا۔ وہ اعلیٰ درجے کا خوشنویس تھا۔ ہر سال ایک قرآن مجید لکھتا جسے ایک سال مکہ معظمہ اور دوسرے سال مدینہ منورہ بھیجتا۔ اس کو محلات سے زیادہ ایسی عمارتیں بنانے کا شوق تھا جن سے عوام کو فائدہ پہنچے چنانچہ اس کے عہد میں 400 سے زائد مدارس، خانقاہیں، مسافر خانے اور مساجد تعمیر کی گئیں۔ اس نے غزنی کے شاہی محل میں ایک بہت بڑا دوا خانہ قائم کیا جہاں سے عوام کو مفت ادویات ملتی تھیں۔ اس دوا خانے میں خصوصاً آنکھ کی بیماریوں کی بڑی اچھی دوائیں دستیاب تھیں۔
خاتمہ
545ھ بمطابق 1150ء میں غزنی پر غور کے ایک حکمران علاؤ الدین نے قبضہ کرکے شہر کو آگ لگادی جس کی وجہ سے دنیا کا یہ عظیم شہر جل کر خاکستر ہوگیا۔ علائو الدین کے اس ظالمانہ کام کی وجہ سے لوگ اس کو ”جہاں سوز“ یعنی دنیا کا جلانے والا کہتے ہیں۔ اس کے بعد غزنوی خاندان کے آخری دو حکمرانوں کا دارالسلطنت لاہور ہوگیا۔ 582ھ میں غور کے ایک دوسرے حکمران شہاب الدین غوری نے لاہور پر قبضہ کرکے آل سبکتگین کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔
قابل غور :  ہم عام طور پر ان بادشاہوں کی زندگی کا ایک اجلا رخ ہی پڑھتے اور سنتے ہیں ۔ دیکھیں کہ علاء الدین غوری اور شہاب الدین غوری نے اقتدار کی کشمکش میں کیا کچھ کیا ہے ۔

Monday, July 11, 2016

تاریخ کی اولین توہین رسالت ​

تاریخ کی اولین توہین رسالت ​
سورہ حجر آیت : ٩٥ انا کفیناک المستہزئین الذین یجعلون مع اللہ الہا آخرا 
ترجمہ : “ بلا شبہ وہ لوگ جو ہنسی کرنے والے ہیں ، جو اللہ کے ستھ دوسرا معبود تجویز کرتے ہیں ، ان کی جانب سے ہم آپ کے لیے کافی ہیں ، سو عن قریب وہ جان لیں گے ۔“
یہ استہزاء کرنے والے پانچ افراد تھے ، ولید بن مغیرہ ، عاصم بن وائل ، اسود بن عبدالمطلب اسود بن عبد یغوث ، حارث بن قیس ۔ اللہ تعالی بمعرفت ان پانچوں کی عبرت ناک سزا دی ۔ 
ایک مرتبہ یہ پانچوں طواف کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حضرت جبریل بھی وہاں تھے ، جب آپ کے پاس سے ولید کا گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ، پھر حضرت جبریل نے اس کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیا ، ولید اس وقت یمانی چادر اوڑھے تھا، اس درمیان بنی خزاعہ کے ایک آدمی کے تیروں کے پر ولید کے پاؤں میں چبھ گئے، اس نے تکبر کی وجہ سے جھک کر اس کو نکالنا پسند نہ کیا، نتیجتا زخم ہو گیا جو اتنا بڑھا کہ اس میں مر گیا ۔
پھر عاصم گذرا ، جب آپ کے پاس سے گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ۔ حضرت جبریل نے اس کے تلووں کی اشارہ فرمایا ، چنانچہ اس کے بعد ایک مرتبہ اپنے بچوں کے ساتھ تفریح کرنے نکلا ، ایک وادی میں ایک کانٹا اس کے پاون میں چبھ گیا، پاؤں پھول کر اونٹ کی گردن کی طرح ہو گیا، اور اسی میں وہ مر گیا ،
 پھر یہاں سے اسود بن عبدالمطلب کا گذر ہوا، جب آپ کے پاس سے گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ۔ حضرت جبریل نے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا ، چنانچہ پھر کبھی وہ اندھا ہو گیا اور دیوار میں سر مارتا ہوا یہ کہتا ہوا مر گیا کہ مجھے محمد کے خدانے قتل کر دیا ،
 پھر اسود بن عبد یغوث کا گذر ہوا ، جب آپ کے پاس سے اس کا گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ،حالاں کہ میرے ماموں کا لڑکا ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ۔ چنانچہ اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا ، اور وہ استسقاء کے مرض میں مر گیا ۔
 اس کے بعد حارث بن قیس کا گذر ہوا، جب آپ کے پاس سے اس کا گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ۔ حضرت جبریل نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا ، اس کے بعد اس کی ناک سے مسلسل پیپ نکلنے لگی، اور اسی میں مر گیا ۔

Tuesday, July 5, 2016

عید مبارک