Wednesday, September 30, 2015

سستے میں بکنے والا غلام امام بن کر لوٹا

مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا ۔ غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا ۔ تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا۔ 
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا۔ اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لی۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی. 
مکہ سے ابو حذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کا قصہ معلوم ہوا۔ لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کرلیا گیا۔ یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کا نام ثبیتہ بنت یعار تھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔ 
ابو حذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہوا پایا اور انکے رویے میں سرد مہری محسوس کی۔ انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں!!۔ تو عثمان بن عفان نے جواب دیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تو اب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے۔ ابو حذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔ 
حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو اس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔ غلام نے کہا آقا میرا اب اس دنیا میں آپ دونوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ غلام نے قران پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت سا قران یاد کرلیا۔ اور وہ جب قران پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔
ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکا یہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔ 
مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کا وقت آیا تو اس غلام کی خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیا گیا۔ اور انکی امامت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔
مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہوا ہے 
اللہ پاک نے انہیں خوش گلو اسقدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلى الله على وسلم کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔ آپ صلى الله على وسلم نے توقف کیوجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا، اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت صلى الله على وسلم خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں۔ آپ صلى الله على وسلم نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خوش قسمت صحابی کون تھے؟۔ انکا نام حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھا۔ جو سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔ 
اللہ کی کروڑ ہا رحمتیں ہوں ان پر ۔
 
��السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)

٭اورنگزیب کی چَونّی۔٭

٭اورنگزیب کی چَونّی۔٭
مُلا احمد جیون ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے استاد تھے۔
اورنگزیب اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے۔ اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے۔  جب اورنگزیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعے استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں۔ اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہ کے طالب علموں کو بھی چھٹیاں تھی۔  چنانچہ انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔ استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی۔  استاد کو اپنے ساتھ لیکر اورنگزیب شاہی قلعے کی طرف چل پڑے۔  رمضان کا سارا مہینہ اورنگزیب اور استاد نے اکھٹے گزارا۔۔ عید کی نماز اکھٹے ادا کرنے کے بعد مُلا جیون نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔ بادشاہ نے جیب سے ایک چونّی نکال کر اپنے استاد کو پیش کی۔ استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔ اس کے بعد اورنگزیب دکن کی لڑائیوں میں اتنے مصروف ہوئے کہ چودہ سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا۔  جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظم نے بتایا۔  مُلا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔ اگر اجازت ہو تو اُن سے لگان وصول کیا جائے۔ یہ سن کر اورنگزیب حیران رہ گئے۔ کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے۔ انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔  مُلا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان کے مہینے میں تشریف لائے۔  اورنگزیب نے بڑی عزت کے ساتھ انہیں اپنے پاس ٹھرایا۔  مُلا احمد کا لباس، بات چیت اور طور طریقے پہلے کی طرح سادہ تھے۔  اس لیے بادشاہ کو ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کچھ حوصلہ نہ ہو سکا۔  ایک دن مُلا صاحب خود کہنے لگے :آپ نے جو چونّی دے تھی وہ بڑی بابرکت تھی۔ میں نے اس سے بنولہ خرید کر کپاس کاشت کی خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سینکڑوں سے لاکھوں ہو گئے۔ اورنگزیب یہ سن کر خوش ہوئے اور مُسکرانے لگے اور فرمایا : اگر اجازت ہو تو چونّی کی کہانی سناؤں۔  ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں۔  اورنگزیب نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ "اتم چند" کو فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو۔  سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا۔  اسے اورنگزیب کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔  اورنگزیب نے نرمی سے کہا : آگے آجاؤ اور بغیر کسی گھبراہت کے کھاتہ کھول کے خرچ کی تفصیل بیان کرو۔  سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتہ کھولا اور تاریخ اور خرچ کی تفصیل سنانے لگا۔  مُلا احمد جیون اور اورنگزیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آ کے سیٹھ رُک گیا۔  یہاں خرچ کے طور پر ایک چونّی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کا نام نہیں تھا۔ اورنگزیب نے نرمی سے پوچھا :ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی؟  اتم چند نے کھاتہ بند کیا اور کہنے لگا : اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں؟ بادشاہ نے کہا : اجازت ہے۔ اس نے کہا : اے بادشاہِ وقت ! ایک رات موسلا دھار بارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا۔ مکان نیا نیا بنا تھا۔ اور تما م کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی۔  میں نے بڑی کوشش کی ، لیکن چھت ٹپکتا رہا۔  میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے نیچے کھڑا نظر آیا۔  میں نے مزدور خیال کرتے ہوئے پوچھا، اے بھائی مزدوری کرو گے ؟  وہ بولا کیوں نہیں۔وہ آدمی کام پر لگ گیا۔  اس نے تقریباً تین چار گھنٹے کام کیا، جب مکان ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا۔  اتنے میں صبح کی آذان شروع ہو گئی۔ وہ کہنے لگا :سیٹھ صاحب ! آپ کا کام مکمل ہو گیا مجھے اجازت دیجیے ،میں نے اسے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی۔ میں نے اس سے کہا :اے بھائی ! ابھی میرے پاس یہی چونّی ہے یہ لے ،اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی۔  وہ کہنے لگا یہی چونّی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا۔ میں نے اور میری بیوی نے اس کی بہت منتیں کیں ،لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا دیتے ہو تو یہ چونّی دے دو ورنہ رہنے دو۔ میں نے مجبور ہو کر چونّی اس دے دی اور وہ لے کر چلا گیا۔  اور اس کے بعد سے آج تک نہ مل سکا۔ آج اس بات کو پندرہ برس گئے۔ میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا۔  اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلا گیا۔ بادشاہ نے مُلا صاحب سے کہا :یہ وہی چونّی ہے۔ کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کر گیا تھا تا کہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں۔سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا۔  مُلا صاحب خوش ہو کر کہنے لگے۔مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ چونّی میرے ہونہار شاگرد نے اپنے ہاتھ سے کمائی ہوگی۔ اورنگزیب نے کہا :ہاں واقعی اصل بات یہی ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لیے کبھی ایک پائی بھی نہیں لی۔  ہفتے میں دو دن ٹوپیاں بناتا ہوں۔  دو دن مزدوری کرتا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔(بحوالہ:کتاب /تاریخِ اسلام کے دلچسپ واقعات)

Tuesday, September 22, 2015

درزی کا جنازہ

ﻟﮑﮭﻨﻮ کے ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻏﺮﯾﺐ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﮨﺮ
ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﻟﮱ ﺩﮐﺎﻥ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ...
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﺎ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﮨﻮﮔﺎ، ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺠﻮﻡ ﮨﻮﮔﺎ ...
ﻣﯿﮟ ﻏﺮﯾﺐ ﮨﻮﮞ ﻧﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﻮﮒ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﮐﻮﻥ ﺁﮰ ﮔﺎ ...
ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮐﮧ 1902 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﺊ ﻟﮑﮭﻨﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ...
ﺭﯾﮉﯾﻮ ﭘﺮ ﺑﺘﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺁﮔﺌﯽ ..
ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻊ ﺗﮭﺎ . ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﻧﮑﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﮯ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ
ﺟﺐ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ
ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ . ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻼﻥ ﮨﻮﺍ
ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺟﺰ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ...
ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﺱ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ... ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ، ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﮯ ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺭﮦ گئے  ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔ ﺍﺱ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ تو ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮑﻼ
ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻻﺝ
ﺭﮐﮭﯽ ...
ﺳﭻ ﮐﮩﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺧﻼﺹ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻧﻌﻤﺖ ﮬﮯ.