مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا ۔ غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا ۔ تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا۔
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا۔ اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لی۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی.
مکہ سے ابو حذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کا قصہ معلوم ہوا۔ لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کرلیا گیا۔ یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کا نام ثبیتہ بنت یعار تھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔
ابو حذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہوا پایا اور انکے رویے میں سرد مہری محسوس کی۔ انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں!!۔ تو عثمان بن عفان نے جواب دیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تو اب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے۔ ابو حذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔
حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو اس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔ غلام نے کہا آقا میرا اب اس دنیا میں آپ دونوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ غلام نے قران پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت سا قران یاد کرلیا۔ اور وہ جب قران پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔
ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکا یہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔
مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کا وقت آیا تو اس غلام کی خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیا گیا۔ اور انکی امامت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔
مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہوا ہے
اللہ پاک نے انہیں خوش گلو اسقدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلى الله على وسلم کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔ آپ صلى الله على وسلم نے توقف کیوجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا، اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت صلى الله على وسلم خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں۔ آپ صلى الله على وسلم نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خوش قسمت صحابی کون تھے؟۔ انکا نام حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھا۔ جو سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔
اللہ کی کروڑ ہا رحمتیں ہوں ان پر ۔
السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)
Wednesday, September 30, 2015
سستے میں بکنے والا غلام امام بن کر لوٹا
٭اورنگزیب کی چَونّی۔٭
Tuesday, September 22, 2015
درزی کا جنازہ
ﻟﮑﮭﻨﻮ کے ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻏﺮﯾﺐ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﮨﺮ
ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﻟﮱ ﺩﮐﺎﻥ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ...
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﺎ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﮨﻮﮔﺎ، ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺠﻮﻡ ﮨﻮﮔﺎ ...
ﻣﯿﮟ ﻏﺮﯾﺐ ﮨﻮﮞ ﻧﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﻮﮒ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﮐﻮﻥ ﺁﮰ ﮔﺎ ...
ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮐﮧ 1902 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﺊ ﻟﮑﮭﻨﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ...
ﺭﯾﮉﯾﻮ ﭘﺮ ﺑﺘﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺁﮔﺌﯽ ..
ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻊ ﺗﮭﺎ . ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﻧﮑﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﮯ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ
ﺟﺐ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ
ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ . ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻼﻥ ﮨﻮﺍ
ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺟﺰ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ...
ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﺱ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ... ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ، ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﮯ ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺭﮦ گئے ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔ ﺍﺱ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ تو ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮑﻼ
ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻻﺝ
ﺭﮐﮭﯽ ...
ﺳﭻ ﮐﮩﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺧﻼﺹ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻧﻌﻤﺖ ﮬﮯ.