Thursday, October 8, 2015

جموں میں پلیگ ، شہاب نامہ اقتباس 5

جموں میں پلیگ
گرمیوں کا موسم تھا اور جموں شہر میں طاؤن کی وبا بڑی شدت سے پُھوٹی ہوئی تھی۔ اکبر اسلامیہ ہائی سکول میں چوتھی جماعت کے کلاس روم کی صفائی کا کام میرے ذمہ تھا۔ ایک روز چُھٹی کے وقت جب میں اکیلا کمرے کی صفائی کر رہا تھا ، تو ایک ڈیسک کے نیچے ایک مرا ہوا چُوہا پڑا ملا۔ میں نے اُسے دُم سے پکڑ کر اُٹھایا ، باہر لا کر اُسے زور سے ہوا میں گُھمایا اور سڑک کے کنارے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر لال دین زور سے پُھنکارا ، اور اپنی لنگڑی ٹانگ گھسیٹتا ہوا دُور کھڑا ہو کر زور زور سے چلانے لگا۔ لال دین ہمارے سکول کا واحد چپڑاسی تھا۔ وہ گھنٹہ بھی بجاتا تھا ، لڑکوں کو پانی بھی پلاتا تھا اور چھابڑی لگا کر بسکٹ اور باسی پکوڑیاں بھی بیچا کرتا تھا۔


ارے بد بخت ! لال دین چلا رہا تھا ، “ یہ تو پلیگ کا چُوہا تھا۔ اِسے کیوں ہاتھ لگایا؟ اب خود بھی مرو گے ، ہمیں بھی مارو گے۔“ 

اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہی کھڑے لال دین نے پلیگ کے مرض پر ایک مفصل تقریر کر ڈالی۔ پہلے تیز بُخار چڑھے گا۔ پھر طاؤن کی گلٹی نمودار ہوگی ، رفتہ رفتہ وہ مکئی کے بُھٹے جتنی بڑی ہو جائے گی ۔ جسم سُوج کر کُپا ہو جائے گا۔ ناک ، کان اور مُنہ سے خُون ٹپکے گا ۔ گلٹی سے پیپ بہے گی اور چار پانچ دن مین اللہ اللہ خیر سلا ہو جائے گی۔
چند روز بعد میں ریذیڈنسی روڈ پر گھوم رہا تھا کہ اچانک ایک چُوہا تیز تیز بھاگتا ہوا سڑک پر آیا ۔ کچھ دیر رُک کر وہ شرابیوں کی طرح لڑکھڑایا۔ دو چار بار زمین پر لوٹ لگائی اور پھر دھپ سے اوندھے مُنہ لیٹ گیا۔ میں نے پاس جا کر اُسے پاؤں سے ہلایا تو وہ مر چُکا تھا۔ بے خیالی میں مَیں نے اُسے دُم سے پکڑا اور اُٹھا کر سڑک کے کنارے ڈال دیا۔ چند راہگیر جو دُور کھڑے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے، پُکار پُکار کر کہنے لگے، “پلیگ کا چُوہا ، پلیگ کا چُوہا۔ گھر جا کر جلدی نہاؤ ، ورنہ گلٹی نکل آئے گی۔“ 


ان لوگوں نے بھی پلیگ کی جملہ علامات پر حسبِ توفیق روشنی ڈالی اور میرے عِلم میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔



ان دِنوں جموں شہر میں ہر روز دس دس پندرہ پندرہ لوگ طاؤن سے مرتے تھے ۔ گلی کُوچوں میں چاروں طرف خوف ہی خوف چھایا ہوا نظر آتا تھا۔ گاہک دکانوں کا کن انکھیوں سے جائزہ لیتے تھے کہ کہیں بوریوں اور ڈبوں اور کنستروں کے آس پاس چُوہے تو نہیں گُھوم رہے۔ دُکاندار گاہکوں کو شک و شبہ سے گُھورتے تھے کہ ان کے ہاں پلیگ کا کیس تو نہیں ہوا۔ لوگوں نے ایک دُوسرے کے کے گھر آنا جانا اور ملنا جُلنا ترک کر دیا تھا۔ سڑک پر راہگیر ایک دُوسرے سے دامن بچا بچا کر چلتے تھے۔ شہر کا ہر مکان دُوسروں سے کٹ کٹا کر الگ تھلگ ایک قلعہ سا بنا ہوا تھا ، جس میں پھٹی پھٹی سہمی آنکھوں والے محصُور لوگ چُپ چاپ اپنی اپنی گِلٹی کا انتظار کر رہے تھے۔ میونسپل کمیٹی والے درو دیوار سُونگھ سُونگھ کر پلیگ کے مریضوں کا سُراغ لگاتے تھے۔ جہاں اُن کا چھاپہ کامیاب رہتا تھا ، وہاں وہ علی بابا چالیس چور کی مرجینا کی طرح دروازے پر سفید چُونے کا نشان بنا دیتے تھے۔ تھوڑی بہت رشوت دے کر یہ نشان اپنے مکان سے مٹوایا اور اغیار کے دروازوں پر بھی لگوایا جا سکتا تھا۔ پلیگ کے عذاب میں مبتلا ہو کر مریض تو اکثر موت کی سزا پاتا تھا۔ باقی گھر والے مفرور مجرموں کی طرح مُنہ چُھپائے پھرتے تھے۔ ایک دُوسرے سے ہاتھ ملانے کا رواج بھی بہت کم ہو گیا تھا۔ لوگ دُور ہی دُور سے سلام دُعا کر کے رسمِ مروت پُوری کر لیتے تھے۔



یکے بعد دیگرے دو طاؤن زدہ چُوہوں کو ہاتھ لگانے کے باوجود جب میرے تن بدن میں کوئی گِلٹی نمودار نہ ہوئی تو میرا دل شیر ہوگیا۔ اپنے اِردگرد سہمے ہوئے ہراساں چہرے دیکھ کر ہنسی آنے لگی۔ اور اُن کی بے بسی سے شہ پا کر رفتہ رفتہ میرے دل میں خوف کی جگہ نئے نئے منصوبے سر اُٹھانے لگے۔ رگھوناتھ بازار میں حکیم گورندتہ مل کی دکان تھی۔ ایک روز حکیم صاحب اپنی کُرسی پر اکیلے بیٹھے اپنی ناک پر بار بار بیٹھنے والی مکھیاں اُڑا رہے تھے۔ مَیں اُن کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور گھبراہٹ کے لہجے میں بولا، “حکیم صاحب! پلیگ کی دوا چاہئے، بہت جلد۔“



پلیگ کا نام سُن کر حکم صاحب چونکے اور ڈانٹ کر کہنے لگے، “چھاتی پر کیوں چڑھے آتے ہو؟ دُور کھڑے ہو کر بات کرو۔ کس کو پلیگ ہے؟“



مَیں نے رُوئی کا گولہ ٹنکچر آیوڈین میں تَر کر کے ایک میلی سی پٹی کے ساتھ اپنی بغل میں باندھا ہوا تھا۔ مَیں کھسک کر حکیم صاحب کے اور بھی قریب ہوگیا اور آستین میں سے بازُو نکال کر اپنی بغل معائنہ کے لئے ان کے مُنہ کے قریب لانے لگا تو اُن کی آنکھیں خوف سے اُبل کر باہر کی طرف لڑھک آئیں۔



حکیم صاحب بوکھلا کر اتنے زور سے اُٹھے کہ کُرسی کھٹاک سے اُلٹ کر پیچھے کی طرف گرگئی۔ دُکان کے اندر دُور کھڑے ہو کر وہ چیخنے لگے، “یہ دُکان ہے دُکان۔ چُھوت کی بیماریوں کا ہسپتال نہیں۔ فورا باہر نکلو اور ہسپتال جا کر حاضر ہو جاؤ ورنہ بُلاتا ہوں ابھی پولیس والوں کو۔“ 



حکیم صاحب کی میز پر گُلقند کا مرتبان پڑا تھا۔ مَیں نے جلدی جلدی ڈھکنا اُٹھایا اور شیرے میں لت پت گُلقند کی ایک مُٹھی بھر کر دکان سے باہر چلا آیا۔

Wednesday, October 7, 2015

رپورٹ پٹواری مفصل ہے ، شہاب نامہ اقتباس 4

میرے سامنے چھ درخواستوں کا پلندا پڑا ہے۔ ہ درخواستیں عیدو ولد چینا، قوم جوگی، سابق سکنہ موہن ماجرہ، تحصیل روپڑ، حال مقیم موضع روڈو سلطان، تحصیل شورکوٹ، ضلع جھنگ کی ہیں جو اس نے درجہ بہ درجہ فضیلت مآب گورنر پنجاب، عزت مآب وزیرِ اعلٰے، عزت مآب وزیر بحالیات فنانشنل کمشنر، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے نام بصیغہ رجسٹری ارسال کی تھیں۔ ان سب درخواستوں کا مضمون واحد ہے:۔
"جناب عالی
بکمال ادب گذارش ہے کہ فدوی ضلع انبالہ کا مہاجر ہے۔ موضع موہن ماجرہ تحصیل روپڑ میں فدوی کےپاس 18 گھماؤں اراضی چاہی و بارانی تھی۔ فدوی نے کلیم فارم داخل کئے تھے لیکن کسی وجہ سے خالی واپس آگئے۔ فدوی نے عذرداری کی ہوئی ہے لیکن ابھی تک سنٹرل ریکارڈ آفس سے جواب نہیں آیا۔ فدوی نے مُثنٰے کلیم فارم بھی دیئے ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
موضع روڈوسلطان تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ میں فدوی کو 12 گھماؤں متروکہ اراضی عارضی طور پر الاٹ ہوئی تھی۔ فدوی چار سال سے اس پر قابض ہے اور فصل کاشت برداشت کر رہا ہے۔ فدوی لگان بھی باقاعدگی سے ادا کرا رہا ہے۔ لیکن اب پٹوار حلقہ بہ طمعِ نفسانی یہ زمین کسی اور مہاجر کو الاٹ کر رہا ہے۔ جناب عالی اگر فدوی کی الاٹ منٹ ٹوٹ گئی تو فدوی کا کنبہ فاقوں سے مرجائے گا۔ دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہیں۔ فقط کھیتی باڑی پر گزارہ ہے لہٰذا التماس بحضورِ انوار ہے کہ فدوی کا عارضی رقبہ تاتصفیہ عذراداری بحال رکھا جائے تاکہ فدوی اپنے بال بچوں کا پیٹ پالسکے فدوی تازیست حضورِ انوار کی جان و مال کو دعا دے گا۔"
لاٹ صاحب، وزیرا علٰے، سزیر مہاجریں، فنانشنل کمشنر اور کمشنر کے دفاتر سے درخواستیں یکےبعد دیگرے ڈپٹی کمشنر کے پاس "برائے مناسب کاروائی" آتی گئیں۔
صدر کا مسل خواں ہر درخواست پر حسبِ ضابطہ نوٹ لکھتا گیا۔" بطلب رورٹ بخدمت جناب افسرمال صاحب مرسُل ہو"؛ ڈپٹی کمشنر نے تیز رفتاری مشین کی طرح اپنے دستخط ثبت کئے اور درخواستیں "بطلب رپورٹ" افسر مال سے تحصیلدار ، تحصیل 
دار سے نائب تحصیلدار ، نائب تحصیلدار سے گرد اور قانونگو، اور گرداور قانونگو سے اسی پٹواری کے نام مرسُل ہوتی گئیں جو " بہ طمعِ نفسانی" اس الاٹمنٹ کو منسوخ کرنے کے درپے تھا۔
پٹواری حلقہ نے چھ کی چھ درخواستوں کو جمع کر کے رجسٹر میں نتھی کیا اور ہفتہ در ہفتہ کے بعد ازرہِ فرض شناسی عِیدو کو طلب فرمایا۔
"عیدوبھائی، اب تم بہت اونچا اُڑنے لگے ہو۔ لو، جی کھول کر اڑلو۔: پٹواری صاحب نے درخاستوں کا پلندہ رجسٹر سے نکال کر عیدو کے منہ پر دے مارا۔
عیدو کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ لاٹ صاحب، وزیر اعلٰے، وزیر مہاجریں، فنانشنل کمسنر، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی ساری تجلیاں اور وقت پٹواری صاحب کی ذات میں مرکوز ہوگئی تھیں۔ اگر عیدو کو تصوف سے کچھ مس ہوتا تو وہ اسی قت "ہمہ اوست" کا نعرہ لگا کر معرفت کی بہت سی منزلیں ایک ہی قم میں طے کر لیتا۔
"اب تم یہ درخواستیں جھنگ، ملتان یا لاہور لے جاؤ۔" پٹواری نے عرضیوں کو جرسٹر میں دبارہ نتھی کرتے ہوئے کہا۔ " اور ان کی بتیاں بنا کر اپنے سالے باپوں کو دے آؤ۔"
اگر اس عمل سے عیدو کی الاٹمنٹ بحال رہ سکتی تو وہ بڑی خوشی سے یہ رائے بھی قبول کرلیتا۔
لیکن پٹواری نے درخواستوں کو نتھی کر کے پھررجسٹر میں بند کر لیا، اور عیدو کو چند جدید طرز کی گالیاں سنا کر گھر جا کر آرام سے سونے کی ہدایت کی۔
ایک مہینہ۔ دو مہینے۔ تین مہینے۔۔۔۔۔۔۔ عیدو ہر دوسرے تیسرے روز تحصیل اور ضلع کے دفرں میں جاتا اور وہاں سے گھرُکیاں، جھڑکیاں اور دھکے کھا کر واپس آجاتا۔ کھی کبھی اسے نہایت پیچدار گالیوں کے ساتھ کوئی مفید مشورہ بھی مل جاتا تھا۔ جس کا سلیس اردو میں یہ ترجمہ ہوتا تھا کہ تمہارے کاغزات پر مناسب کاروئی ہو رہی ہے۔ تم ہر روز یہاں آ کر دقِ نہ کرو۔۔۔۔۔۔
اسی ہرا پھیری میں مشوروں کی تلاش میں اس کے برتن اور بیوی کے زیور بھی بک گئے۔ اب بیلوں کی جوڑی کی باری تھی لیکن پٹواری صاحب نے بروقت فیصلہ کر کے عیدو کو اس افتاد سے بچالیاں۔
پٹواری صاحب نے عیدو کی زمیں منسوخ کر کے کسی دوسرے مہاجر کے نام تجویز کر دی اور اس تجویز کے کنفرم ہونے تک ساری درخاستوں کو جرسٹر میں بڑی احتیات سے ایک طرف نتھی رکھا۔ جب یہ سب منزلیں بخیر و خوبی طے ہوگئیں تو انہوں نے اپنا فرض منصبی انجام دنے کے لیے عیدو کی درخواستوں پر اپنی رپورٹ تحریر فرمائی:۔
" جناب عالی۔ سائل مسمی عیدو صول درخواست ہاء دینے کا عادی ہے۔ اُسے معتدد بار سمجھایا گیا کہ اس طرح حکامِ اعلٰے کا وقت ضائع کرنا درست نہیں۔ لیکن سائل اپنی عادت سے مجبور ہے۔ سائل کا چال چلن بھی مشتبہ ہے اور اس کا اصلی ذریعہ معاش فرضی گواہیاں دینا ہے۔ مشرقی پنجاب میں اس کے پاس کوئی زمیں نہیں تھی۔ کیونکہ اس کا کلیم فارم خالی واپس آچکا ہے۔ سائل نے دو مرتبہ عذر دار بھی کی لیکن بے سود۔ معدد گواہان کے بیان بھی لئے گے۔ ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ سائل کے پاس مشرقی پنجاب میں کوئی زمیں نہ تھی۔ چنانچہ ککھیوٹ نمبر 13، مربعہ نمبر 25 موضع روڈوسلطان میں 12گھماؤں زمین جس پر سائل کا ناجائز قبضہ تھا۔ اس کے نام سے منسوخ ہو کر مسمی نور بخش کے نام حسبِ ضابطہ کنفرم ہوچکی ہے۔ مسمی نور بخش ضلع جالندھر کا مہاجر اور سابق سفید پوش ہے۔ اس کے مصدقہ کلیم فارم واپس آگئے ہیں۔ اور موضع روڈوسلطان میں مترو کہ اراضی سے اس کی حق رسی کردی گئی ہے۔ نیز آنکہ مسمی نور بخش کار سرکار میں ہر وقت امدادی ہے اور خاکسار کی رائے میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی خوشنودی کی سند کا مستحق ہے۔ بمراد حکم مناسب رپورٹ ہذاپیش بحضورِ انور ہے"۔
گرداور قانوگو نے لکھا" فپورٹ پٹورای مفصل ہے۔ بمراد ھکوم مناسب بحصور نائب تحصیلدار پیش ہو۔"
ناب نائب تحصیلدار صاحب نے لکھا "رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ بمراد حکم مناسب بحضور جناب تحصیلدار صاحب پیش ہو۔"
جناب تحصیلدار صاحب نے لکھا۔"رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ بمراد حکم مناسب بخدمتافسر مال بہادر پیش ہو۔:
جناب افسر مال بہادر نے لکھا" رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ بمراحکم مناسب صدر پیش ہو۔"
صدر کے مسل خواں نے حکم لکھا۔ "رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ درخواست ہائے مسمی عیدو فصول ہے۔ داخل دفتر ہو۔ مسمی نور بخش کے کاغذات بوقت انتخاب برائے سندرات پیش کئے جائیں۔"صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے اس حکم پر اپنے دستخط ثبت فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسمیان عیدو اور نور بخش پر بڑی باضابطگی کے ساتھ دولتِ خداداد کی مہریں لگ گیئں۔ یہ اور بات ہے کہ مہر نور بخش کی پیشانی پر لگی اور عیدو کی پُشت پر!

Tuesday, October 6, 2015

سولہ آنہ رشوت ، شہاب نامہ اقتباس 3


ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سےانکاری ہے۔رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہئی۔
اس کی درد ناک بپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پٹواری نے سب کے سامے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شرانگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا، "حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں"۔ گاؤن کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں"۔
ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کر دیا۔
میں نے بڑھیا سے کہا۔"بی بی، لو تمہارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو"۔
بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبر دار سے پوچھا " کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟"
نمبر دار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر با کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آگیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہوگئے۔
یہ سولہ آنے واحد "رشوت" ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس ن مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کر دیا۔

Sunday, October 4, 2015

زن مرید .حج 2015 میں پیش آنے والے کرین حادثہ میں شہید ہونے والی بیوی کے ایک شوہر کا قصہ

زن مرید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی مرتبہ وہ مجھے جمرات پر نظر آئے۔ مناسب قد و قامت کے حامل تھے۔ چہرے پہ سجی سفید داڑھی نہایت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ بڑے جذبے سے کنکریاں مار رہے تھے۔ سات کنکریاں مار چکے تو پھر سات اور ماریں۔ خیال ہوا کہ شاید کسی اور نے اپنی رمی کرنے کے لئے وکیل بنایا ہو گا۔  پھر قربان گاہ میں دیکھا تو یکے بعد دیگرے دو دنبے ذبح کئے۔ ظاہر ہے قربانی کے لئے بھی بہت سے لوگ ذمہ داری لے لیتے ہیں، سو اس میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ لگی۔  اگلے روز طواف وداع کے لئے حرم پہنچا توطواف کے آغاز پر پھر وہ نظر آئے۔ میں طواف شروع کر رہا تھا اور وہ طواف مکمل کر کے ہجوم سے باہر نکل رہے تھے۔ لیکن پھر انہیں دوبارہ طواف کرتے ہوئے پایا۔ سخت تعجب ہوا کہ اس قدر ہجوم میں ایک ہی طواف کرنا مشکل ہو رہا تھا  اور یہ حضرت دوسرا طواف کرنےلگ گئے۔  بعد ازاں صفا مروہ کی سعی کے دوران پھر ان پر نگاہ پڑی ۔ مروہ پر سعی مکمل کر کے میں چپل اٹھانے  کی غرض سے صفا پر پہنچا تو انہیں ایک بار پھر سعی کی نیت کرتے اور پھر صفا سے مروہ کی جانب چلتے دیکھا۔ اب تو سخت حیرت ہوئی کہ حضرت ہر عمل دو دو بار کر رہے ہیں۔ خیال ہوا کہ پوچھنا چاہئے لیکن اس قدر ہجوم میں کہاں موقع تھا ان باتوں کا۔ سو اپنی راہ لی۔ لیکن ایک کھٹک سی دل میں برقرار رہی۔

حج کے بعد ایک روز میں ناشتے کی غرض سے بقالے کی جانب جا رہا تھا کہ وہ گلی میں داخل ہوتے نظر آئے۔ سلام دعا کے بعد باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ قریبی عمارت میں ہی رہائش پزیر ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ سے کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔  کہنے لگے : چلئے میاں ! ہمارے کمرے میں آ جائیے۔ ناشتہ ساتھ ہی کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے کمرے میں جا پہنچا۔ کمرے میں دو بستر پڑے تھے۔ اور باقی سامان سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔

ناشتے کے دوران کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر انہوں نے کہا: میاں پوچھئے کیا پوچھنا چاہ رہے تھےآپ ؟عرض کی : حضرت ! حج کے ارکان کی ادائیگی کے دوران آپ  مجھے جا بجا نظر آئے۔ آپ کو ہر عمل دو دو بار کرتے دیکھا۔ بس یہی بات کھٹک رہی تھی ۔ اگر مناسب سمجھیں تو وجہ بتا دیجئے۔ سوال سن کر وہ ٹھٹک کر رہ گئے۔ پھر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مجھے سخت افسوس ہوا کہ ناحق ان کو دکھی کر دیا۔ معذرت کرنےلگا ۔ کہنے لگے: نہیں میاں ! معذرت کیسی؟  بتائے دیتے ہیں آپ کو۔ شاید کچھ دل کا بار کم ہو جائے۔ پھر رومال سے آنکھیں پونچھ کے آہستہ آہستہ بتانے لگے:

میاں کیا بتائیں؟ بیگم کو حج کی شدید آرزو تھی۔ چھ ماہ پہلے کی بات ہے جب حج فارم جمع ہونے کی تاریخوں کا اعلان ہوا تو پیچھے لگ گئی کہ اس بار ہم بھی فارم بھر دیں۔ ہم نے کہا کہ بھئی ابھی وقت مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہیں۔ رقم پس انداز کرنی شروع کر دینی چاہئے۔ آخر کو ان کی شادیاں کرنی ہیں۔لگی حدیثیں سنانے۔ کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ حج فرض ہو جانے کے بعد حج کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہئے کہ جانے کب کیا رکاوٹ پیش آ جائے۔ پھر دوسری حدیث یہ سنا دی کہ جو حج کی ادائیگی کی قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے تو وہ چاہے یہودی ہو کے مرے یا نصرانی۔ پھر تیسری حدیث کہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ایک دلیل یہ دی کہ پہلے کوئی کام رکا ہے ہمارا جو آئندہ رکے گا؟ جب جس چیز کی ضرورت پڑی، اللہ نے اپنے فضل سے پوری کر دی۔ آئندہ بھی کر دے گا۔ تو میاں سمجھو یوں حج کا فارم جمع کرا دیا۔ اور پھر یہاں چلے آئے۔

میاں مت پوچھو کہ بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑی تو کیا حالت ہوئی۔ کیسا سرور ملا۔ جھوم کے کہا :بیگم !اس ایک نگاہ میں ہی سارے پیسے وصول ہو گئے۔ عمرہ ادا کیا تو نشاط طاری ہو گیا۔ یہی خیال آتا رہا کہ عمرہ میں اتنی لذت ہے تو حج کیا ہو گا؟ حج کے انتظار کے دنوں میں طواف اور نماز کے لئے بیت اللہ کے چکر لگتے رہے ۔ اس دوران سرکار ﷺ کے دربار میں حاضری کا موقع بھی ملا۔ دیار نبی ﷺ سے فیض پا کر مکہ لوٹے تو مزید ایک عمرہ کا موقع ملا۔ ہر لمحہ اللہ کی رحمت کا ہالہ اپنے گردا گرد محسوس ہوتا تھا۔ میاں دعائیں تو یوں قبول ہو رہی تھیں گویا اللہ انتظار میں بیٹھا ہو کہ بندے کے منہ سے کوئی سوال نکلے اور وہ پورا کرے۔ اللہ اکبر۔ بھئی یقین مانو اسی کا ظرف ہے ورنہ کہاں ہم سا گنہگار کہ حج ایسے فریضے کی ادائیگی کی فکر کرنے کے بجائے ٹال مٹول اور بہانے بازیاں ، اور کہاں اس کا کرم۔ چاہتا تو وہ بھی ہماری دعاؤں کو ٹال دیتا ۔ لیکن نہیں میاں۔ بلا بھی لیا اور مان بھی گیا۔

دن یونہی مزے میں گزر رہے تھے۔ حج قریب آتا جا رہا تھا۔ وہ جمعہ کی شام تھی۔ آسمان پر کالے بادل گھر گھر کے آنے لگے ۔ پھر باران رحمت کا نزول ہوا۔ شدید بارش ہوئی۔ ہم  اور ہماری بیگم حرم کے بیرونی صحن میں تھے۔ لمحوں میں کپڑے تر بتر ہو گئے ۔ طے ہوا واپس رہائش گاہ پر چلا جائے۔ دو چار قدم چلے تھے کہ ہمیں خیال آیا کہ پانی کے تھرماس میں زم زم ختم ہو چکاہے۔ بیگم سے ذکر کیا تو جھٹ سے بولی : آپ ٹھہریں ۔ میں بھر کے لاتی ہوں۔ اور پاس ہی موجود زم زم کی ٹنکی کی جانب دوڑ پڑی۔ چند قدم ہی آگے بڑھی ہو گی کہ ایک دھماکہ ہوا اور اوپر سے ٹنوں وزنی کرین آ گری۔  میاں بس مت پوچھو آن کی آن میں کیا ہو گیا۔ ان کی آواز بیٹھتی چلی گئی۔میری بھی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ حادثہ تھا ہی اتنا اندوہناک ۔ ایک لمحہ میں بیسیوں حاجی شہید ہو گئے تھے۔ اور بے شمار زخمی۔ حرم کا مرمریں صحن سرخ ہو گیا تھا۔ تعزیت کرنی چاہی لیکن الفاظ گویا حلق میں پھنس کر رہ گئے۔

کچھ دیر سکوت کے بعد انہوں نے ہی خاموشی توڑی: میاں! کیا بتاؤں کتنی خوبیاں تھیں اس میں۔ نہایت صابر و شاکر ۔ وفا شعار ۔ سلیقہ مند۔ اللہ کی رضا میں راضی۔ بھاگ بھاگ کے ہماری خدمتیں کیا کرتی تھی۔ ہماری مرضی پہ اپنی مرضی کو قربان کر دیا۔ اپنی پسند نا پسند کو ہماری پسند نا پسند کے مطابق ڈھال لیا۔ ہر خوشی غمی میں ہمارے شانہ بشانہ۔ وہ کہتی تھی کہ عورت کا مرد کے شانہ بشانہ چلنے کا اصل اور پسندیدہ طریقہ اس کی نظر میں یہی ہے۔

میاں ! نکاح میں قبول ہے کہا نا ۔۔۔ تو پھر ہر طرح سے ہمیں قبول کر کے دکھایا۔ ہماری جھڑکیاں اور نخرے برداشت کئے ۔ کبھی شکوہ نہ کیا۔ وقت بے وقت کی فرمائشیں پوری کیں۔ سفر حج کے سامان کی پیکنگ کے وقت ہماری ضرورت کی تمام اشیاء خود ہی جمع کر کے رکھیں۔ کپڑوں سے لے کر سیفٹی پن تک، اور عینک سے لے کر دواؤں تک ہر چیز کی موجودگی کو یقینی بنایا۔  تربیتی نشستوں میں باقاعدگی سے شرکت کا اہتمام کیا۔

اور یہاں آ کے تو وہ گویا بچھی ہی چلی جا رہی تھی۔ ہل کے پانی تک نہ پینے دیتی ہمیں۔ حرم میں حاضری کے بعد تھک ہار کر واپس آتے تو خود باوجود تھکان کے ہمارے پیر دبانے لگ جاتی۔ ہم روکتے تو کہتی کہ پہلے تو آپ صرف شوہر تھے، اب تو اللہ کے مہمان بھی ہیں۔ اللہ کے مہمان کی خدمت کرنے دیجئے۔ کبھی کبھی احساس تشکر سے بھیگی آنکھیں لئے ہمارے ہاتھ پکڑ کر کہتی کہ آپ نے مجھے اللہ کا گھر دکھا دیا۔ حالانکہ درحقیقت وہ ہمیں لے کر آئی تھی۔ ہاہ !وہ صرف ہماری دنیا ہی کے نہیں، آخرت کے بارے میں بھی فکر مند رہا کرتی تھی۔ میاں اللہ والی تھی ۔۔۔ بڑی اللہ والی۔ جبھی تو اللہ نے اسے پاک صاف کر کے اپنے پاس بلا لیا۔ شہادت کی موت عطا فرما دی۔ سیدہ خدیجہؓ کے قدموں میں جگہ عطا فرما دی۔ کیسے بلند درجات پا لئے۔ بچوں کی بھی ایسی تربیت کی کہ جب بچوں کو اس کی شہادت کی اطلاع دی تو وہ الٹا  ہمیں ہی صبر کی تلقین کرنے لگے۔ سچ فرمایا سرکار ﷺ نے کہ دنیا کی بہترین نعمت  نیک بیوی ہے۔ اس نیک بخت نے خدمتیں کر کر کے ہمیں اپنا مرید بنا لیا تھا۔

میاں حج پر ہر ہر رکن کی ادائیگی کے دوران اس کی کمی محسوس ہوئی ۔ سو اس کی طرف سے بھی رمی، قربانی، طواف وداع اور سعی کر دی ۔۔۔ بس یونہی اپنے دل کے بہلاوے کو۔۔۔  کہ ہم نے قدم قدم پر خود کو اس کی محبتوں اور وفاؤں کا مقروض پایا۔

سارے خاندان والے ہمیں زن مرید کہتے ہیں۔
چاہو تو تم بھی کہہ لو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, October 3, 2015

گاؤں برہام پور گنجم اور ایک ملا، شہاب نامہ کا اقتباس 2


 
سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی، صفدر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور پر بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔

ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔

برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟

دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔

یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔

شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب

Friday, October 2, 2015

ٹرین کا انتظار .. شہاب نامہ کا اقتباس 1.

ٹرین کا انتظار

17 جون 1974ء۔ آج عفت مر گئی۔

میں اسے مذاقاً‌ اپنی ’’بڑھیا‘‘ کہا کرتا تھا، لیکن جب میں کنٹر بری کاؤنٹی کونسل کے دفتر میں تدفین کا اجازت نامہ حاصل کرنے گیا تو ایک فارم پر کرنا تھا۔ اس میں مرحومہ کی تاریخ پیدائش بھی درج کرنا تھی۔ جب میں نے اس کا پاسپورٹ نکال کر پڑھا تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس کی عمر تو فقط 41 برس تھی۔

لیکن میرے لیے وہ ہمیشہ میری ’’بڑھیا‘‘ کی بڑھیا ہی رہی۔ کنٹر بری ہسپتال میں ہم نے اسے گرم پانی میں آب زم زم ملا کر غسل دیا، پھر کفنایا اور جب اسے قبلہ رو کر کے لکڑی کے بنے ہوئے ہلکے بادامی رنگ کے تابوت میں اتارا تو تنویر احمد خان نے بے ساختہ کہا، ’’ارے۱ یہ تو ایسے لگتی ہے جیسے ابھی کالج کے فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔‘‘

بات بھی سچ تھی۔ جب میں اسے بیاہ کر لایا تھا تو وہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے فائنل ایئر سے نکلی تھی۔ جب میں نے اسے دفنایا تو واقعی وہ ایسے لگ رہی تھی جیسے ابھی فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔ درمیان کے اٹھارہ سال اس نے میرے ساتھ یوں گزارے جس طرح تھرڈ کلاس کے دو مسافر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوں، سامان بک ہو چکا ہو، ٹرین کا انتظار ہو۔ اس کی گاڑی وقت سے پہلے آگئی، وہ اس میں بیٹھ کر روانہ ہوگئی۔ میری ٹرین لیٹ ہے، جب آئے گی، میں بھی اس میں سوار ہو جاؤں گا۔ لیکن سامان کا کیا ہوگا؟ جو کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے، کوئی اسے وصول کرنے کے لیے موجود نہیں ہوتا۔

لیکن ہمارے سامان میں آخر رکھا ہی کیا ہے؟ کچھ کاغذ، ڈھیر ساری کتابیں، کچھ کپڑے، بہت سے برتن اور گھریلو آسائش کی چیزیں جنہیں عفت نے بڑی محنت سے سیلز میں گھوم گھوم کر جمع کیا تھا۔ اور ایک ثاقب، لیکن ثاقب کا شمار نہ سامان میں آتا ہے نہ احباب میں۔ یہ بارہ سال کا بچہ میرے لیے ایک دم بوڑھا ہوگیا۔

کتاب / جریدہ:  شہاب نامہ
صفحہ: 763
قلم نگار  : قدرت اللہ شہاب

Wednesday, September 30, 2015

سستے میں بکنے والا غلام امام بن کر لوٹا

مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا ۔ غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا ۔ تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا۔ 
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا۔ اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لی۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی. 
مکہ سے ابو حذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کا قصہ معلوم ہوا۔ لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کرلیا گیا۔ یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کا نام ثبیتہ بنت یعار تھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔ 
ابو حذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہوا پایا اور انکے رویے میں سرد مہری محسوس کی۔ انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں!!۔ تو عثمان بن عفان نے جواب دیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تو اب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے۔ ابو حذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔ 
حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو اس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔ غلام نے کہا آقا میرا اب اس دنیا میں آپ دونوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ غلام نے قران پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت سا قران یاد کرلیا۔ اور وہ جب قران پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔
ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکا یہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔ 
مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کا وقت آیا تو اس غلام کی خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیا گیا۔ اور انکی امامت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔
مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہوا ہے 
اللہ پاک نے انہیں خوش گلو اسقدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلى الله على وسلم کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔ آپ صلى الله على وسلم نے توقف کیوجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا، اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت صلى الله على وسلم خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں۔ آپ صلى الله على وسلم نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خوش قسمت صحابی کون تھے؟۔ انکا نام حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھا۔ جو سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔ 
اللہ کی کروڑ ہا رحمتیں ہوں ان پر ۔
 
��السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)